کسی وجہ اور اشتعال کے بغیر نریندر مودی حکومت نے آئے دن کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے یہ آگے جا کر جھڑپوں اور اس علاقے میں جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ گوادر سے خنجراب تک اقتصادی راہداری پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے۔ ریلوے ٹریک بھی شروع ہونے والا ہے۔ انڈیا اس منصوبے کو مکمل ہونے سے پہلے متنازعہ بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ کالا باغ ڈیم کی طرح اسے متنازعہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا اور حالات واضح کر رہے ہیں کہ وہ ناکام ہوتا جا رہا ہے تو پھر آخر میں جھنجھلاہٹ کر وہ کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے۔ انڈیا کا سابق میجر جنرل جی ڈی بخشی‘ جسے کشمیریوں کا سب سے بڑا قاتل کہا جاتا ہے اور وہ خود سینکڑوں کشمیریوں کے قتل کا برملا اعتراف بھی کرتا ہے، کی سروس کا زیادہ حصہ یعنی سالہا سال کشمیر میں گزرا۔ وہ نئی دہلی کے ''قومی دفاع کالج‘‘ میں پڑھاتا رہا ہے۔ مدراس یونیورسٹی سے وہ ''محدود جنگ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ بھی کر رہا ہے۔ اس کا خصوصی مقالہ بھی اس موضوع پر ہے کہ ''آئندہ جنگ کا میدان کشمیر ہو گا‘‘ اس کا سبب وہ پاک چین اقتصادی راہداری کو قرار دیتا ہے۔ وہ واضح کرتا ہے کہ اگر یہ راہداری آپریشنل ہو گئی تو چین اور پاکستان دو محاذوں پر انڈیا کو گھیر لیں گے اور آزادیٔ کشمیر کی تحریک میں تیزی آ جائے گی۔
یہ ہے انڈیا کے دانشوروں کی منفی سوچ حالانکہ مثبت سوچ یہ ہو سکتی ہے کہ انڈیا بھی کشمیر کا مسئلہ حل کرے اور اس راہداری کے ذریعے وسط ایشیا سے رابطہ کر کے اپنی تجارت میں اضافہ کرے اور اپنے لوگوں کو خوشحال بنائے۔ جس قدر وہ کشمیر سے فوائد سمیٹ رہا ہے اس سے کئی گنا زیادہ فوائد وہ راہداری میں شامل ہو کر سمیٹ سکتا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے یو این کے عالمی فورم پر اسی لئے انڈیا کو پیشکش کی
کہ سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیں۔ امن کی اس خواہش کو بھی انڈیا نے مسترد کر دیا۔ پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ راہداری کے قرب و جوار میں امن کا ماحول ہو‘ جبکہ انڈیا جنگ کا ماحول بنانا چاہتا ہے۔ چین بھی امن کا ماحول بنانا چاہتا ہے۔ انڈیا اس طرف نہیں آ رہا۔ انڈیا کی فوج کے بریگیڈیئر انیل گپتا نے بھی حال ہی میں اپنا ایک مضمون شائع کرایا۔ وہ بھی یہی بات لکھتا ہے کہ شاہراہِ قراقرم کا راہداری میں تبدیل ہونا بھارتی سالمیت کے لئے چیلنج ہے۔ الغرض! میجر جنرل ووم بیتکر سمیت سب حاضر اور ریٹائرڈ بھارتی دانشور آج کل اسی موضوع پر لکھ رہے ہیں اور سب کی سوچ اور زاویہ نگاہ ایک ہی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو گوادر سے کاشغر تک ریلوے ٹریک کی بہت تکلیف ہے۔
اس تکلیف کا سبب یوں سمجھ میں آتا ہے کہ چین میں ریلوے کے محکمے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وہاں یہ محکمہ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے سٹیٹ کونسل کی نگرانی میں چلتا ہے۔ اس کونسل کا نگران وزیراعظم ہے جبکہ اس کونسل میں وزیر دفاع، وزیر تحفظ عوام، وزیر تحفظ ریاست، وزیر قانون، وزیر ٹرانسپورٹ اور دیگر اہم وزرا شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جدید سپرپاور کے ہاں ریلوے کی کیا اہمیت ہے اور ذرا ہم بھی اپنی ریلوے کا جائزہ لیں کہ ہم اس کا کیا حشر نشر کرتے ہیں۔ الغرض! چین نے دفاعی نقطہ نظر کے تحت اپنے دارالحکومت بیجنگ کو تبت کے دارالحکومت لہاسہ سے ملا دیا ہے اور وہاں سے کاشغر تک ریلوے نیٹ ورک قائم کر دیا ہے۔ اب کاشغر سے گوادر تک ریلوے نیٹ ورک قائم ہو جائے گا، دوسرے لفظوں میں یہ صرف اقتصادی راہداری ہی نہیں ہو گی بلکہ ایک دفاعی نیٹ ورک بھی قائم ہو جائے گا۔ اسی کی انڈیا کو تکلیف ہے، مگر ان سے سوال یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ تم اگر جارحیت نہیں کرتے تو تمہیں اس دفاعی لائن سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر تمہارے عزائم
جارحانہ ہیں تو پھر الگ بات ہے۔
یاد رہے! کوئی ریاست ریلوے کی مضبوطی کے بغیر مضبوط نہیں ہو سکتی اور کوئی سپرپاور ریلوے کی مضبوطی کے بغیر سپرپاور نہیں بن سکتی۔ امریکہ ہی کو لے لیجئے، اس نے جنگ عظیم اول کے دوران ''ریلوے وار بورڈ‘‘ قائم کیا۔ یہ ادارہ اب تک قائم ہے۔ اس نے اپنے فوجیوں کو ٹریننگ سینٹروں سے فوجی چھائونیوں تک پہنچایا، چھائونیوں سے بندرگاہوں اور جنگی محاذوں پر پہنچایا، گولہ بارود، اسلحہ اور فوجی گاڑیوں، ٹینکوں وغیرہ کی نقل و حمل کے لئے ریلوے ہی کو استعمال کیا ۔ آج بھی اس کا یہی نیٹ ورک قائم ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے ریلوے کی الگ وزارت قائم نہیں کی بلکہ اسے وزارتِ دفاع کی نگرانی میں دے رکھا ہے یعنی ملک کا دفاع اور ریلوے باہم لازم و ملزوم ہیں چنانچہ وزارت دفاع کے تحت نیشنل ڈیفنس پروگرام بنایا گیا ہے اور اسی کے تحت مطلوبہ ریلوے لائنیں بچھائی جاتی ہیں۔ یہ ایک جامع نظام ہے جس کے تحت 38ہزار آٹھ سو میل طویل ریلوے لائنیں ہیں۔ یہ نظام 193امریکی دفاعی تنصیبات کو ملک بھر میں پھیلے فوجی اڈوں، ٹریننگ سنٹروں، اسلحہ ڈپوئوں اور بندرگاہوں سے جوڑتا ہے۔ اس نظام کو ملٹری ٹریفک مینجمنٹ کمانڈ کنٹرول کرتی ہے تاکہ جنگی صورتحال میں امریکی ریلوے سسٹم دفاعی نقل و حمل اور رسد میں چالو رہے۔
روس بھی سپرپاور ہے، اس کے ریلوے کا ہم نے جائزہ لیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس نے وسط ایشیائی ریاستوں پر جو کنٹرول حاصل کیا تو ریلوے ٹریک بچھائے‘ پھر آناً فاناً فوج لے آیا اور مقامی مسلم ریاستیں بے بس ہو گئیں۔ روس نے 1851ء میں ''ریلوے ٹروپس آف رشین آرمڈ فورسز‘‘ کے نام سے دستہ قائم کیا۔ ریلوے کی تعمیر کا ذمہ دار یہ دستہ آج بھی قائم ہے۔ اس عسکری دستے میں 28ہزار فوجی کام کرتے ہیں۔ 3مارچ 2004ء میں اسے وفاقی فوج میں شامل کر دیا گیا اور ریلوے کے تمام امور وزارت دفاع کے سپرد کر دیئے گئے۔ یاد رہے کہ اسی دستے نے ترکی کے ساتھ جنگ میں فوج کی نقل و حمل کو آسان بنایاتھا۔ اسی دستے نے پہلی جنگ عظیم میں سات سوکلومیٹر کا ٹریک بچھایا اور 46سو کلومیٹر کا ٹریک جو تباہ ہو گیا تھا اسے حالت جنگ میں قابل استعمال بنایا۔
اب آتے ہیں برطانیہ کی جانب۔ اس نے روس کا مقابلہ کرنے کے لئے پورے برصغیر کو پشاور اور طورخم کے ساتھ ریلوے نیٹ ورک کو پھیلا کر جوڑ دیا تاکہ برصغیر کے ہر خطے سے فوج کو فوراً افغانستان تک پہنچا یا جا سکے۔ 1903ء تک لاہور سے پشاور اور طورخم تک ٹریک بچھ چکا تھا اور سارا ملک لاہور سے لنک کر دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے ہم نے اپنے حصے میں آئے ہوئے ریلوے ٹریک کے ساتھ کیا کیا؟ 70سالوں میں نیا کام کیا کیا؟ کیا ہمیں اپنے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اب چین گوادر سے کاشغر تک ٹریک بچھانے لگا ہے تو انڈیا ایسے ہی نہیں چیخ رہا۔ میری تجویز یہ ہے کہ سارے ملک کے ریلوے ٹریک کو باہم لنک کیا جائے، مضبوط کیا جائے اور اسے وزارتِ دفاع کے تحت کرتے ہوئے اسے فوج اور سول حکومت کے اشتراک سے سیمی ملٹری ادارہ بنایا جائے۔یہ ایک اچھا منصوبہ ہے جسے تشکیل دے کر ہم اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں وگرنہ سیاسی مفاداتی کردار اسے اوپر نہیں اٹھنے دے گا۔ وہ اسے اسی دلدل میں رکھے گا کہ روڈ ٹرانسپورٹ کی خاطر ریل گاڑیوں کے ٹائم کو اتھل پتھل کیا جاتا رہے گا تاکہ ٹرک ٹرانسپورٹ کی خاطر مال بردار ریل گاڑیوں کے سسٹم کو تباہ کیا جائے۔ اللہ کے لئے اب ملک کے دفاع کا مسئلہ ہے، کرپشن کی ایسی گھٹیا حرکتیں اب بند ہونی چاہئیں اور ریلوے کو پاکستان کے دفاع کا ایک ادارہ بنایا جانا چاہئے۔ عوامی مسافروں اور تاجروں کے مال کی آمدورفت کا فائدہ خودبخود ہی ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)