اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ اپنے آخری رسولﷺ کو بشیر اور نذیر کے القابات سے یاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بشیر اور نذیر کا ذکر ایک ساتھ کیا مگر ہر بار بشیر کے لقب کا تذکرہ پہلے کیا اور نذیر کا بعد میں... یعنی اللہ کے رسولﷺ اپنے اللہ کی رحمت و محبت کی خوشخبری دینے والے بھی ہیں اور اللہ کی سزا سے ڈرانے والے بھی ہیں۔ خوشخبری اور ڈراوے کو ترازو کے دو پلڑوں میں رکھا جائے تو خوشخبری کا پلڑا بھاری اور جھکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش پر یہ تختی لگا رکھی ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر بھاری اور غالب ہے۔ (بخاری)یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیﷺ کو ''رحمۃ للعالمین‘‘ بنایا ہے۔ کتاب و سنت کے مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانیت کے لئے اللہ کی رحمت اور خوشخبریوں کا تذکرہ سزا اور ڈراوے سے زیادہ ہونا چاہئے اور علماء ایسا ہی کرتے ہیں مگر خارجی دہشت گردوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اس توازن کو درہم برہم کر دیا اور اس قدر خراب کیا کہ انہوں نے معمولی غلطیوں اور گناہوں پر بھی کفر کے فتوے لگا دیئے اور پھر یہیں تک بس نہیں کیا بلکہ خود ہی جج بن گئے۔ موت کی سزائیں سنا دیں اور پھر خود ہی جلاد بن کر گلے کاٹنے لگے۔ بم دھماکوں سے معصوم انسانیت کے پرزے اڑانے لگے۔
جی ہاں! وہ بھول گئے کہ حضور رحمۃ للعالمینؐ نے پہلی امتوں کا ذکر کر کے یہ واقعہ سنایا کہ کس طرح بنی اسرائیل میں سے ایک بدکار عورت نے کتے کو دیکھا کہ وہ پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس خاتون نے اس پر رحم کیا اور کنویں سے پانی نکال کر کتے کو پلایا، اس کی جان بچا دی۔ یہ خاتون مسلمان خاتون تھی مگر گناہ گار تھی لیکن جب وہ موت سے ہمکنار ہو کر اللہ کے سامنے گئی تو ہمارے پیکر رحمت نبی ہمیں یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر کے جنت بھیج دیا۔ (بخاری)پہلی ہی امتوں کا ایک اور واقعہ ہمارے حضورﷺ نے سنایا کہ ایک شخص جس نے 99قتل کئے تھے، وہ اللہ سے ڈر گیا، توبہ کرنا چاہتا تھا مگر کسی عالم کی تلاش میں تھا کہ وہ اس سے پوچھے کہ آیا اس کی معافی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ لوگوں کے بتانے پر وہ ایک عالم کے پاس پہنچا، اس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا اور پوچھا کہ اس کی معافی ہو سکتی ہے؟ کہنے لگا، تیرے لئے کیسے معافی ہو سکتی ہے، ایک قتل کی معافی ناممکن ہے اور تو نے 99قتل کر دیئے ہیں۔ قاتل غصے میں آیا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرنے والے مولوی کو بھی تلوار کے وار سے اگلے جہان پہنچا دیا۔ اب یہ قاتل کسی ایسے عالم کی تلاش میں تھا جو اسے خوشخبری سنائے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تجھے اپنے دامن کے ساتھ چمٹا سکتی ہے ؛چنانچہ یہ ایسے عالم کا ایڈریس معلوم کر کے ادھر کو چل دیا مگر راستے ہی میں فوت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو یہ کہہ کر جنت میں بھیج دیا کہ تائب ہو کر میری رحمت کی تلاش میں کوشاں تو تھا... (مسلم)
جی ہاں! میرے پُررحمت نبیﷺ نے پہلی ہی امت کے ایک شخص کا یہ واقعہ بھی اپنی امت کو سنایا کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنے گناہوں کے احساس سے وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر گیا چنانچہ اس نے اپنے بیٹوں کو اکٹھا کیا اور یہ وصیت کی، اے میرے بیٹو! میں اللہ کے سامنے پیش ہو گیا، تو مارا جائوں گا چنانچہ میری میت کو لکڑیوں کی آگ سے راکھ بنا دینا اور اس راکھ کو ہوائوں میں اڑا دینا، بیٹوں نے اسی طرح کیا، اللہ تعالیٰ نے ہوائوں اور زمین کو حکم دیا، ذرات اکٹھے ہوئے اور وہ انسان ان ذرات سے مرکب ہو کر اللہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اب اللہ نے پوچھا میرے بندے! ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کی، مولا کریم آپ کے ڈر سے۔ اللہ نے اسے بخش دیا اور جنت میں بھیج دیا۔ (بخاری)
ایک اور شخص کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ نے آخرت کا منظر بتاتے ہوئے یوں خوشخبری دی کہ ایک بندہ اللہ کے ہاں پیش ہوا، اس کے گناہوں کے رجسٹر تاحدنظر ترازو میں رکھے ہوئے تھے۔ اللہ کریم نے اسے کہا کہ کوئی نیکی ہے تو اسے لائو، وہ کہنے لگا، اگر نیکی ہو بھی تو گناہوں کے اس تاحد نظر رجسٹروں کے سامنے کیا کرے گی؟ اب کیا ہوا کہ ایک پرزہ اڑتا ہوا آیا اور ترازو کے دوسرے پلڑے میں براجمان ہو گیا، اس پر ''لاالہ الا اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ پلڑا نیچے بیٹھ گیا اور گناہوں کے رجسٹروں والا پلڑا اوپر اٹھ گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو بھی جنت میں بھیج دیا۔ (ترمذی)
قارئین کرام! میں نے یہ جتنے واقعات بھی بیان کئے ہیں یہ سارے اللہ کے رسولﷺ کی صحیح اور حسن درجے کی احادیث سے منقول ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ یہ تو تھے واقعات پہلی امتوں کے... ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر وسیع ہو گی کہ ہم رحمۃ للعالمین کی امت ہیں، اگر میں اس امت پر حضورﷺ کی دی ہوئی خوشخبریوں کو سنانے بیٹھ جائوں تو ایک نہیں کئی کالم درکار ہیں۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ ہو اور بندوں کا حق نہ مارا ہو اور سچے دل سے بندہ اللہ کی طرف پلٹ جائے تو وہ بے حد مہربان ہے، خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہیں۔ مگر اسلام کے نام نہاد علمبرداروں نے فتوے کی مشین چلا کر ہر ایک کو کافر بنا کر مارنا شروع کیا تو حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ دین کے ان علمبرداروں کو کیا کہا جائے۔ علمائے حق نے احادیث میں وارد کتاب الفتن کے حوالے دے کر بتلایا کہ یہ لوگ خارجی ہیں، دہشت گرد ہیں، اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں اور پھرضربِ عضب چلا کر حکومت پاکستان اور پاک افواج نے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کر دیا اور مزید ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب دنیا نے مان لیا کہ پاکستان نے کمال کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے نظریاتی بنیادوں پر اس کا قلع قمع کیا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر جناب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کا کردار اس ضمن میں مثالی ہے۔ اسی لئے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے انہیں مذکورہ منصب سونپا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، قومی سلامتی کی وزارت میں ایک نظریاتی ڈیسک ہونا چاہئے جو کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی مہیا کرے تاکہ قومی سلامتی کو نظریاتی بنیاد پر یقینی بنایا جائے۔
الحمدللہ! پاکستان تو کامیاب ہو گیا ہے، سوال یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت جو حکومت برسراقتدار ہے اس کے لوگ دہشت گردانہ پس منظر رکھتے ہیں، بی جے پی کے آرگن میگزین صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ ویدوں کے مطابق گائے ذبح کرنے والے کی سزا قتل ہے، لہٰذا وہ مسلمانوں کو ایک جانور ذبح کرنے پر قتل کر رہے ہیں۔ یعنی بی جے پی مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کر رہی ہے، مسجدوں، گرجوں اور گوردواروں کو منہدم کر رہی ہے، حتیٰ کہ دلت یا شودر جو ہندو ہیں ان کو بھی زندہ جلایا جا رہا ہے۔ وہاں صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ مسلمان اداکاروں کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا؛ چنانچہ ادیب اور دانشور اپنے ایوارڈ واپس کر رہے ہیں۔ فوجی افسران ایوارڈ اور تمغے واپس کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ وہ موقع ہے کہ جس میں حکومت پاکستان کو برسراقتدار پارٹی کی دہشت گردانہ سوچ اور کردار سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہئے۔ بہار کے انتخابات نے بھی نریندر مودی کو آئینہ دکھایا ہے۔ کشمیر کے لوگوں نے مودی کے دورے پر احتجاج کا جو جرأت مندانہ کردار پیش کیا ہے اس نے بھی مودی کی دہشت گردانہ سوچ کو بے نقاب کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس موقع پر کشمیر اور بھارت کے اندر مظلوم اقلیتوں کی آواز کو اٹھانا لیاقت نہرو پیکٹ کی رو سے حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگرچہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر وہ بہت معمولی اور ناکافی ہے۔ ہمیں اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کی وزارت کو بطور خاص اس پر توجہ دینی ہو گی، وزارت خارجہ کو متحرک ہونا ہو گا اور وزیراعظم صاحب کو خود دلچسپی لے کر بھارت کی غاصبانہ سوچ سے اقوام عالم کو آگاہ کر کے کشمیر کو آزاد کرانے کا موقع پیدا کرنا ہو گا کہ بھارت میں اب عدم برداشت اور حکومتی سطح پر دہشت گردانہ حالات کا تقاضا بہرحال یہی ہے۔