"AHC" (space) message & send to 7575

پیرس کے حملہ آور … مسلمان یا خارجی؟

پیرس میں ان لوگوں کو قتل کیا گیا جو فٹ بال میچ دیکھ رہے تھے۔ ریستوران میں ان بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیا گیا جو کھانا کھا رہے تھے۔ ایک بڑے ہال میں موجود 80کے قریب عورتوں اور بچوں کو چن چن کر خون میں نہلا دیا گیا... اخبارات اور ٹی وی کے تجزیہ نگاروں نے تبصرے کئے تو قاتلوں کو مسلمان کے نام سے پکارا... چند ماہ پہلے جرمنی کے پاکستانی سفارتخانہ اسلام آباد نے میری کتاب ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ کا انگریزی ایڈیشن ملاحظہ کیا تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا، میں گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے وقت نہ نکال سکا، آخر سفارتخانہ کے ایک افسر ڈاکٹر ڈان ٹیڈن سربراہ برائے صحافت و ثقافت جو لاہور آئے ہوئے تھے، مجھ سے رابطہ کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، میں نے کہا تشریف لایئے، وہ آئے تو گفتگو کرتے ہوئے ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ یہ بعض مسلمان لوگ دہشت گردی کیوں کرتے ہیں؟ میں نے انہیں بتلایا کہ یہ مسلمان نہیں‘ یہ خارجی لوگ ہیں، پھر جب میں نے خارجیوں کی تاریخ اور ان کی دہشت گردی کے بارے میں تفصیل سے بتلایا تو جرمن سفارت کار حیرت سے مجھے دیکھے جا رہا تھا... میں سمجھتا ہوں خوارج کے بارے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمانوں کو بھی اس سے آگاہ کریں تاکہ ہمارے نوجوان اس فتنے سے بچیں اور غیر مسلموں کو بھی خوارج کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان لوگوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ‘وگرنہ انسانیت کے لئے محبت اور رحمت کا پیغام دینے والا پُرامن اسلام بدنام ہوتا رہے گا۔
خارجیوں کا آغاز اس طرح ہوا کہ حضرت علیؓ یمن کے گورنر تھے، انہوں نے خام سونے کی تھیلیاں اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں بھیجیں، آپﷺتقسیم فرما رہے تھے کہ حَرقوص نامی ایک جوان چھوکرا کھڑا ہوا اور کہنے لگا، اے محمدؐ! آپ نے اس تقسیم میں عدل نہیں کیا، لہٰذا اللہ سے ڈر جائو، حضرت عمرؓ اور حضرت خالدؓ نے مذکورہ گستاخ کی گردن مارنے کی اجازت چاہی مگر حضور رحمت دو عالمؐ نے اجازت نہ دی اور فرمایا کہ ایسے لوگ عنقریب ظاہر ہوں گے۔ بڑے دیندار ہوں گے مگر اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ آپؐ نے یہ بھی فرما دیا کہ جب مسلمانوں میں اختلاف اور باہمی لڑائی ہو گی تو یہ نکلیں گے اور فرمایا اگر میرے دور میں یہ بغاوت کرتے ہوئے نکلے تو میں ان کو قوم عاد اور ثمود کی طرح مٹا دوں گا۔ یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں جو حق کے بہت زیادہ قریب ہو گا وہ ان خارجیوں کا قلع قمع کرے گا۔ (مسلم)
حضورؐ کا اشارہ تھا حضرت علیؓ کی طرف چنانچہ شام میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے مابین لڑائی ہوئی تو خارجی ظاہر ہوئے۔ حضرت علیؓ عراق کے شہر کوفہ میں تشریف لائے تو بارہ ہزار کی تعداد میں خارجی الگ ہو گئے۔ انہوں نے کوفہ سے چند کلومیٹر دور بارڈر لائن پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ ان کے حکومتی علاقے کا نام ''حروراء‘‘ تھا اس لئے خارجیوں کو حروری بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے سے گزرنے والے اللہ کے رسولﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن خباب اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کر لیا اور اس لئے انہیں شہید کر دیا کہ انہوں نے حضرت علیؓ کو (نعوذ باللہ) کافر نہیں کہا۔ علامہ ابن اثیر اپنی تاریخ ''الکامل فی التاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ صحابی کی اہلیہ حاملہ تھیں اور بچہ پورے دنوں کا تھا، ایک خارجی نے خنجر مار کر پیٹ پھاڑ ڈالا اور ماں سمیت اس بچے کو بھی شہید کر دیا جو ابھی اس دنیا میں نہ آیا تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنا سفیر بھیجا اور کہا کہ قاتلوں کو ہمارے حوالے کرو۔ ان خارجی درندوں نے سفیر کو بھی شہید کر دیا اور کہا ہم علیؓ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے اور یہ کہ ہم سارے ہی صحابیؓ اور ان کی اہلیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آج بھی خارجی لوگ ایسے ہی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
حضرت علیؓ نے اب لڑنے کے لئے لشکر تیار کیا، اس لشکر میں بدری صحابہؓ اور بیعت رضوان والے جنتی صحابہؓ بھی شامل تھے جبکہ میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ تو گھڑ سوار دستے کے کمانڈر تھے۔ نوخیز عمر کے ہزاروں چھوکروں کی سمجھ میں اب بھی نہ آیا کہ وہ کن کے خلاف لڑ کر جنت جائیں گے؟ ان کا سالار عبداللہ بن وہب راسبی تھا۔ اسے اور اس کے لوگوں کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے سمجھایا مگر وہ نہیں سمجھے اور علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ عبداللہ راسبی نے اپنے چھوکروں کو یہ کہہ کر ابھارا، اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو، جنت کی طرف بھاگو، بھاگو، حملہ کر دو۔ چنانچہ اس حملے میں ہزاروں خارجیوں میں سے صرف دس خارجی بچے، باقی مارے گئے۔ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے صرف دو شہید ہو ئے۔ اللہ کے رسولؐ کی گستاخی کرنے والا بدبخت حَرقوص بن زہیر خارجی بھی نہروان کے اس معرکے میں واصل جہنم ہوا۔ بچنے والے خارجیوں میں سے ایک عبدالرحمن ابن ملجم تھا، یہ اور اس کے دیگر دو ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروؓ بن عاص کو رمضان کی سترہ تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد ہم قتل کریں گے یوںاسلام بچ جائے گا۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون اپنی تاریخ کی کتاب میں بتلاتے ہیں کہ بُرَک خارجی نے حضرت معاویہؓ پر حملہ کیا، وہ زخمی ہو گئے مگر بچ گئے۔ بُرَک خارجی کہنے لگا، اسی وقت میرے بھائی ابن ملجم نے علیؓ کو قتل کر دیا ہے۔ حضرت معاویہؓ نے حضرت علیؓ کی زندگی کی تمنا کا اظہار کیا اور بُرَک خارجی کی گردن اڑانے کا حکم دیا۔ حضرت عمروؓ بن عاص مصر کے گورنر تھے۔ وہ بیمار تھے، مسجد نہ آئے جبکہ حضرت علیؓ پر وار کاری لگا اس کے باوجود انہیں نماز کی فکر تھی۔ ان کی جگہ پر ان کے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ نے نماز پڑھائی۔ ملعون ابن ملجم کے ہاتھ کمر کے ساتھ باندھ کر حضرت علیؓ کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ بدبخت گستاخ اب بھی باز نہیں آیا اور کہنے لگا کہ میں نے تلوار کو چالیس دن تک ہر صبح کو تیز کیا اور اللہ سے دعا کی کہ اس سے ...قتل ہو۔ قارئین کرام! جو جملہ ملعون نے بولا وہ میں لکھ نہیں سکتا۔ قربان جائوں حضرت علیؓ کے حوصلے پر۔ حکم پھر بھی یہ دیا کہ میں اپنے اللہ کے پاس چلا جائوں تو میرے قاتل کو بدلے میں قتل کر دینا مگر اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کرنا۔ جی ہاں! حضرت علیؓ اپنی اہلیہ حضرت فاطمہؓ کے والد محترم ؐاور اپنے بچوں حسن و حسین اور ام کلثوم کے نانا کا کلمہ پڑھتے ہوئے فردوس میں چلے گئے اور حضورؐ کے فرمان کے مطابق جہنم کا خارجی کتا قتل ہو کر واصل جہنم ہوا۔
قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ بار بار اٹھتے رہیں گے اور ان کا قلع قمع ہوتا رہے گا، حتیٰ کہ دجال کا ساتھ بھی یہ لوگ دیں گے... جی ہاں! یہ وہی خارجی ہیں جو آج مسلمانوں کو بھی قتل کرتے ہیں، خودکش جیکٹیں پھاڑتے ہیں، مسجدوں پر بھی حملے کرتے ہیں، چرچوں پر بھی حملے کرتے ہیں، پیرس میں بے گناہوں پر حملے سے پہلے یورپ کے عوام اپنی حکومتوں پر دبائو ڈال رہے تھے کہ شام، عراق اور لیبیا وغیرہ کے لٹے پٹے لوگوں کے لئے دروازے کھولے جائیں، جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل ترکی کے ساحل پر ڈوب مرنے والے بچے کے لئے آنسو بہاتی رہیں۔ اپنے ملک کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ بڑی رقم ان کے لئے مختص کر دی۔ سوال یہ ہے کہ میچ تو جرمنی اور فرانس کے درمیان تھا جسے دیکھنے والوں پر حملہ ہوا۔ اب انجیلا مرکل اپنے عوام کو کیا جواب دے گی؟ بھارت کا وزیراعظم جو ان دنوں لندن کے دورہ پر تھا، وہاں اہل کشمیر، اہل نیپال، سکھ، عیسائی اور انڈیاکے دلت ہندو مودی کی متعصبانہ اور دہشت گردانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران، اخبار نویس اور پڑھے لکھے انگریز بھی احتجاج کر رہے تھے۔ اسرائیل ریاستی دہشت گردی میں ڈیڑھ ماہ میں 300 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ یورپی یونین نے فلسطین اردن اور شام کے مقبوضہ علاقوں میں بننے والی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ نقصان یہ ہوا کہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی بات دب گئی اور مسلمان دہشت گرد بن گیا۔ کلمہ پڑھنے والا دہشت گرد بن گیا۔ کون یہ سمجھائے کہ پیرس کے بچے اور عورتیں، مرد اور بوڑھے کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے یہ انہی لوگوں کے ہاتھوں سے مارے گئے کہ جن ہاتھوں نے آرمی پبلک سکول کے بچوں کو مارا۔ جن ہاتھوں نے سعودی عرب کی مسجدوں میں دھماکے کئے۔ یہ مسلمان ہیں نہ اسلام کے نمائندے۔ یہ خارجی ہیں ‘فسادی ہیں ‘دہشت گرد ہیں۔ اسی طرح کے دہشت گرد جس طرح کے شیوسینا، ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسٹر مودی ہیں۔ لہٰذا ہم پیرس کے مظلوموں کے بھی ساتھ ہیں، کشمیر کے مظلوموں کے بھی ساتھ ہیں اور دنیا کے ہر مظلوم کے ساتھ ہیں۔ انسانیت زندہ باد... دہشت گرد مردہ باد... ہماری اس زمین کا آخری انجام بہرحال یہی ہے اور وہ انسانیت کی تکریم ہے۔ (ان شاء اللہ)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں