مقبوضہ جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ اسے پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی متنازعہ تسلیم کیا تھا۔ یو این میں بھی یہ متنازعہ اور حل طلب مسئلہ ہے۔ پوری دنیا میں اس کی متنازعہ حیثیت مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے۔ کشمیر اور جموں کی اس حیثیت کو 70 سال ہونے کو آئے ہیں‘ لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ کشمیریوں نے اپنا حق لینے کے لئے پُرامن اور جمہوری جدوجہد کی تو انڈیا نے انہیں بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنائے رکھا۔ جواب میں کشمیریوں نے گن اٹھا لی‘ تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ پھر ان کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ پُرامن اور جمہوری جدوجہد کرو، دنیا کی حمایت حاصل کرو۔ یہ مظلوم لوگ اسی جدوجہد میں لگ گئے۔ جواب میں انڈین حکومت نے وہی پہلے والا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ پھر ہزارہا نوجوان غائب کر دیے گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ ہر علاقے میں قبرستان بن گئے۔ لاکھوں یتیم بچے بے آسرا ہو گئے۔ گھر جل گئے۔ باغ ویران ہو گئے۔ جنگل اپنے درختوں سے محروم ہونے لگے۔ ہندو پنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے پروگرام بننے لگے تاکہ کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ نریندر مودی حال ہی میں لاہور میں آئے‘ لیکن کشمیر پر بات کئے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ الغرض! ستر سال کی جدوجہد کے بعد کشمیریوں کو پھر راستے بند ہوتے محسوس ہونے لگے۔
انڈیا بڑا طاقتور ملک ہے۔ امریکہ اور یورپ اس کی پشت پر ہیں۔ وہ امریکہ اور روس سے اسلحے کا بھی خریدار ہے۔ بھارت ایٹمی قوت ہے اور اقتصادی طاقت بھی۔ چلو ہم اس طاقت کو شیر مان لیتے ہیں۔ جناب مودی خود کو شیر محسوس کرتے ہیں اور اپنی ہندو قوم کو بھی شیر بنا رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تمام اقلیتیں انہیں بلیاں نظر آتی ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے ہر بلی کھا جانا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی بلی پر بھی وہ ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ شیر نے اسے گھیر لیا ہے، کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ ایک شیر اور ایک انسان کے‘ دو واقعات بے حد مشہور ہیں، دونوں کا پالا بلیوں سے پڑا تھا۔
کسی شخص نے اپنے کمرے میں بلی کو گھیر لیا اور اس کے باہر نکلنے کا ہر راستہ بند کر دیا۔ دروازہ بند، کھڑکیاں بند اور روشن دان بھی بند۔ اب اس نے بلی کو مارنے کے لئے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔ ظاہر ہے بلی ڈنڈے کے ایک ہی وار کی مار تھی۔ وہ جان بچانے کے لیے دوڑتی پھر رہی تھی۔ دروازے کی طرف گئی تو وہ بند، ہانپتی ہوئی کھڑی کی طرف بھاگی تو وہ بند۔ اب اس نے پوری قوت جمع کر کے چھلانگ لگائی اور روشن دان کے راستے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی بند تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈنڈا تیار تھا۔ اب بلی نے زور سے جمپ لگایا‘ ڈنڈا بردار کی گردن دبوچ لی اور اس کی شہ رگ کاٹ دی۔ جی ہاں! وہ کمزور تھی مگر اس نے ایک طاقتور کو جان سے مار دیا۔
دوسری مثال شیر کی ہے۔ شیر نے بلی کو گھیر لیا، کوئی راستہ نہ چھوڑا۔ بلی نے جب دیکھا کہ وہ شیر کا لقمہ بننے والی ہے تو اس نے آخری چارہ کار کے طور پر شیر کے منہ پر جمپ لگایا اور اپنے پنجے سے اس کی آنکھ پھوڑ دی۔ بلی بھاگ چکی تھی اور شیر ایک آنکھ سے محروم ہو چکا تھا۔ اسی لئے سمجھدار لوگوں نے یہ محاورہ بنایا کہ روشن دان کھلا رہنے دو، کسی کو دیوار کے ساتھ نہ لگائو، کوئی نہ کوئی راستہ باقی رہنے دو۔ مگر ستر سال کے تجربے نے کشمیریوں پر واضح کر دیا کہ انڈیا شیر ہے مگر اس نے راستہ بند کر دیا ہے، انڈیا میں بی جے پی کا ہر فرد‘ جو ہندتوا کا علمبردار ہے، ترشول تھامے سارے راستے بند کر رہا ہے، لہٰذا اس پر حملہ کر دیا جائے۔ جی ہاں! متحدہ جہاد کونسل نے کشمیر میں حملہ نہیں کیا، پٹھانکوٹ میں حملہ کر دیا ہے۔ لیکن پٹھانکوٹ تو دنیا میں متنازعہ علاقہ نہیں، اس پر حملہ تو انڈیا پر حملہ ہے، یہ دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے فلاں ہے اور فلاں ہے... جواب آتا ہے: یہی تو وہ جگہ ہے، یہی وہ فوجی ایئربیس ہے جہاں سے فوجی کمک کشمیر میں پہنچتی ہے اور کشمیریوں پر ہر راستہ بند کرتی ہے، لہٰذا مقبوضہ کشمیر کی جہاد کونسل اب جموں اور کشمیر سے آگے بڑھ کر شیر پر حملہ آور ہوئی ہے۔ اس سے بلی کی جان جا سکتی ہے مگر شیر کی آنکھ بھی ضائع ہو سکتی ہے اور ڈنڈا بردار کی شہ رگ بھی لہولہان ہو سکتی ہے۔ اب کیا ہو گا؟ سرمایہ دار بھاگیں گے، ''چمکتے انڈیا‘‘ کا جو نعرہ ہے وہ اپنی چمک سے پہلے ہی دمک کھونا شروع کر دے گا۔ وہ سرمایہ دار جو نریندر مودی کو برسر اقتدار لائے ہیں اور میاں نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے لئے جاتی امرا تک لے آئے ہیں، انہیں بلی کے تیور دیکھنا ہوں گے کہ وہ جھپٹنے کے لئے تیار ہو چکی ہے، اس نے تو جھپٹنا شروع کر دیا ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے، وہی حق جس کا نام ''حق خود ارادیت‘‘ ہے، جس کا وعدہ پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔
یہ حق دینے کے بعد انڈیا کس قدر فائدے میں رہے گا، اس کا اگر وہ ادراک کر لے تو اسے کشمیر بھول جائے گا۔ اسے اقتصادی کوریڈور میں راستہ مل جائے گا۔ یہ ایسا راستہ ہے کہ جو افغانستان سے ہو کر وسط ایشیا تک جاتا ہے اور افغانستان کے بغیر بھی وسط ایشیا جاتا ہے۔ واہگہ سے اسلام آباد، وہاں سے سنکیانگ اور وہاں سے سارا وسط ایشیا اور آگے سارا یورپ۔ الغرض! انڈیا کو بے حد معاشی فائدہ ہو گا۔ اس کے پاس تیل اور گیس نہیں۔ یہ سب کچھ براستہ پاکستان مل سکتا ہے۔ اس سے اس کی انڈسٹری چلے گی تو چین کے مقابلے کی اقتصادی پاور بن سکتا ہے، خطے میں امن آ سکتا ہے۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان بلوچستان میں اس کے وار کو اپنی ڈھال پر روک کر جواب کے لئے تیار ہو چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کامیاب ہو چکا ہے، لہٰذا بہترین آپشن یہ ہے کہ کشمیر کی مظلوم اور ہانپی ہوئی بلی کے سامنے سے راستے بند نہ کرے بلکہ بھارت اس کے حصے کا دودھ اس کے سامنے رکھے اور کشمیر کے دروازے سے باہر نکل آئے۔ خیر اور عزت و امن اسی میں ہے وگرنہ بلی آج پٹھانکوٹ میں ہے تو کل کسی اور کوٹ میں بھی ہو سکتی ہے... اور پھر؟