امرتسر کی تحصیل ''ترن تارن‘‘ بھی انڈیا میں شامل ہو گئی۔ اس کا گائوں ''جاتی عمرہ‘‘ بھی جاتا رہا۔ میاں محمد شریف مرحوم کو یہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ وہ لاہور کے محلہ گوالمنڈی کے باسی بن گئے۔ اللہ نے ان پر انعام کیا، کاروبار خوب چمکا اور پھر وہ یہاں سے اٹھے اور ماڈل ٹائون میں ایک قطار میں میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف کے گھر بن گئے۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے بڑے ہو جائیں تو ایک ہی گھر میں ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے رہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو سب کے الگ الگ گھر ایک ہی لائن میں بن جائیں۔ انسان کی اس فطری اور جبلی خواہش کا اللہ تعالیٰ نے بھی خیال رکھا ہے اور قرآن میں فرما دیا ہے کہ ہم جنت میں ماں باپ کو ان کی اولادوں سمیت بسا دیں گے یعنی جنت میں جائیں گے تو وہاں بھی قطار در قطار محل بن جائیں گے... میں بات کر رہا تھا میاں محمد شریف کے بیٹوں کے گھروں اور کوٹھیوں کی۔جی ہاں! میاں محمد شریف پر اللہ نے مزید انعام کیا تو ماڈل ٹائون سے وہ آگے بڑھے اور ''جاتی عمرہ‘‘ کے نام سے اک بستی بسائی اور سارے خاندان کے مکانات وہاں بنا دیئے۔ اللہ تعالیٰ یہ مکانات مبارک کرے۔ ماڈل ٹائون کے مکانات پر مشکل وقت پرویز مشرف کے دور میں آیا۔ میاں حمزہ صاحب آج بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوتے ہیں حالانکہ وہ مکانات آج بھی موجود ہیں۔ مگر مکان کی پریشانی فطری بات ہے جس کی سوچ آج بھی شریف خاندان کی آنکھوں میں تیرگی کا باعث بن جاتی ہے۔
اب ہم ضلع امرتسر کی تحصیل ترن تارن ہی کے ایک اور خاندان کی بات کرتے ہیں۔ اس خاندان کے سربراہ حاجی اسحاق مرحوم ہیں، یہ خاندان بھی مہاجر ہوا۔ اس خاندان نے بھی لاہور کے محلہ گوالمنڈی میں رہائش اختیار کی۔کاروبار کیا اور پھر رائیونڈ روڈ پر سلطان پورہ کے ساتھ کوئی باسٹھ کنال زمین خریدی۔ اسحاق صاحب کے پانچ بیٹے ہیں۔ بڑے کا
نام حاجی محمد خالد ہے جو اسحاق مرحوم کے بعد اسی طرح خاندان کے سربراہ ہیں جس طرح میاں محمد شریف مرحوم کے بعد میاں محمد نوازشریف صاحب اپنے خاندان کے سربراہ ہیں۔ گوالمنڈی میں ان دونوں خاندانوں کے مابین روابطہ کا میں خود شاہد ہوں۔ یوسف باکسر مرحوم کا شریف برادران سے گہرا تعلق تھا۔ میاں عباس شریف مرحوم سے دوستانہ تھا۔ انہی کی وساطت سے میاں عباس شریف سے میرا بھی تعلق قائم ہوا جو میاں عباس کے جنازے میں شامل ہونے کے بعد منقطع ہوا۔ اسحاق خاندان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خاندان شریف خاندان کا سپورٹر بھی ہے اور ووٹر بھی۔ مگر اس خاندان پر اب ایک افتاد پڑ چکی ہے۔ انہوں نے جو پانچ کوٹھیاں بنائی ہیں، کئی سال یہ انہیں تیار کرتے رہے، عرصہ دو سال سے اس میں مقیم ہوئے ہیں اور اب آرڈر یہ ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں کیونکہ آپ کی یہ چھوٹی بستی میٹرو ٹرین کے اس منصوبے میں شامل ہو گئی ہے جہاں میٹرو ٹرین کی ورکشاپ بنے گی۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ ہمارے گھر جو میٹرو کے ٹریک سے پانچ چھ سو گز ہٹ کر اندر آبادی میں ہیں، ان کو نہ چھیڑا جائے، ورکشاپ تو مین رائیونڈ روڈ سے ذرا آگے بھی بن سکتی ہے۔ وہاں کوئی آبادی نہیں اور اگر یہاں ہی بنانا ضروری ہے تو ساتھ اور جگہ خالی پڑی ہے وہ لی جا سکتی ہے اور اگر ہماری جگہ ضروری ہے تو ہمارے گھر جو ایک لائن میں ہیں وہ چھوڑ دیئے جائیں اور ان سے آگے جو تین چار ایکڑ جگہ پر ہم نے فارم بنا رکھا ہے، گراسی پلاٹ بنا رکھے ہیں وہ لے لئے جائیں مگر کوئی شنوائی نہیں۔ ادارے کے ٹیکنیکل لوگوں نے بھی بتلایا ہے کہ کاغذ پر پرکار گھمانے کی بات ہے باقی کوئی مسئلہ نہیں۔ اسحاق فیملی کے لوگ میرے پاس آئے۔ میں نے علاقے کو دیکھا اور پھر میٹرو ٹرین منصوبہ کے انچارج خواجہ حسّان سے فون پر بات کی۔ انہوں نے حسب معمول ٹالنے کی کوشش کی کہ ہم نے مکانوں کو نکالنے کی کوشش کی مگر چینی کمپنی نقشہ کو ناگزیر کہہ رہی ہے جس میں یہ مکانات نہیں رہیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ملاقات کے لئے کہا اور پھر جب اگلے دن فون کئے اور کئی بار کئے تو یہی جواب ملا صاحب میٹنگ میں ہیں۔ صاحب کی شہرت بظاہر اچھی ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، نمازی ہیں مگر یہ ان کا ذاتی فعل ہے، اللہ قبول فرمائے۔ حقوق العباد کا معاملہ انتہائی اہم ہے، وہ لاہور شہر
کے دوسری بار فادر سٹی بھی بننے جا رہے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ وہ اس انداز سے ان گھروں کو دیکھیں کہ لاہور ان کا گھر اور اس میں رہنے والے ان کے بیٹے بے گھر ہو رہے ہیں۔ وہ بے گھر ہونے سے بچ سکتے ہیں تو پھر بے گھر کرنا اللہ کے غصے اور غضب کو دعوت دینا ہے۔ میاں شہباز شریف اور میاں نوازشریف بھی اس معاملے کو دیکھ لیں کہ آخری اتھارٹی وہ ہیں۔ اور یاد رکھیں کہ ان کے اوپر آخری اتھارٹی اللہ تعالیٰ کی اتھارٹی ہے۔ دانائی یہ ہے کہ حکمران ہر وقت اپنے آپ کو اس کی زد میں سمجھتے ہوئے فیصلے کرتا رہے۔
ہمارے ہاں زمین حاصل کرنے کا جو قانون ہے یہ بھی محلِ نظر ہے۔ انگریز نے اپنی حاکمانہ جبریہ ضرورت کے تحت 1894ء میں عوامی زمین کے حصول کا ایکٹ بنایا تھا، اسے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں عوام کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انڈین حکومت نے اس ایکٹ میں اصلاحات کی ہیں جس میں عوامی حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے ہم سمجھتے ہیں اس ایکٹ میں ترمیم اور اصلاحات پر اپوزیشن کو فوراً زور دینا چاہئے۔ حکومت کو بھی اس کا ساتھ دینا چاہئے، اس لئے کہ آج اسحاق خاندان مین روڈ سے دور ہونے کے باوجود زد میں ہے تو کل کو جاتی عمرہ بھی دور ہونے کے باوجود زد میں آ سکتا ہے، لہٰذا اصلاحاتی قانون سب کے مفاد میں ہے۔
برطانیہ کی مثال بھی پیش نظر رہنی چاہیے چوہدری محمد سرور سابق گورنر پنجاب اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں ان کا جنرل سٹور تھا ۔ حکومت نے اسے ایکوائر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ سٹی حکومت کے لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اپنے گردونواح میں دیکھیں جہاں آپ کا کاروبار اچھا چل سکے وہ جگہ ہم آپ کو بدلے میں لے کر دیں گے اور پھر جب تک میرا متبادل بندوبست نہیں ہوا تب تک میرے سٹور کے کوئی قریب نہیں آیا ۔ اس کا نام ہے جمہوریت جو ہمارے ہاں محض لفاظی تک محدود ہے اس کا نام ہے انسانی تکریم اور حقوق العباد کی تعظیم جو ہمارے حکمرانوں سے خوف کھاتی ہے ۔
سعودی حکومت کے بارے میں ہم نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ حرمین کی توسیع کے لئے منصوبہ بنتا ہے تو مکانوں کے مکین دعائیں کرتے ہیں کہ ان کی پراپرٹی منصوبے میں آئے اور پھر منہ مانگے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر منصوبوں میں حکومت متاثرہ لوگوں کو مارکیٹ ویلیو سے ذرا زیادہ رقم دیتی ہے۔ جدہ میں ایسے لوگوں کی زمین منصوبے میں آئی جن کے پاس کاغذات نہ تھے اور وہ محض قابض تھے۔ حکومت نے انہیں بھی مارکیٹ ویلیو کے مطابق مناسب معاوضہ دیا جس سے وہ اچھا خاصا گھر بنا سکتے تھے۔ یوں وہ دعائیں دیتے اپنے گھروں کو حکومت کے لئے چھوڑ گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو بھی دعائیں لینے کی ضرورت ہے مگر ذرا سروے کروا کر دیکھیں کہ لوگوں کی بددعائوں کا کیا حال ہے۔؟ ان میں سے کوئی ایک بھی سنی گئی تو تب کیا ہو گا؟
اللہ کے رسولؐ جب مدینہ تشریف لائے تھے تو آپ کی اونٹنی جس جگہ بیٹھی، فرمایا! یہ ہماری منزل ہے، اب معلوم فرمایا، یہ کس کی جگہ ہے پتہ چلا یہ دو یتیم بچوں سہلؓ اور سہیلؓ کی جگہ ہے، وہ بنو نجار سے تھے اور حضرت سعد بن زرارہؓ کی پرورش میں تھے۔ حضورؐ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا تو لڑکوں، ان کے چچا اور خاندان سب نے اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں مفت زمین کو پیش کر دیا مگر حکمرانِ مدینہ حضرت محمد کریمؐ نے قیمت کے بغیر زمین کو لینے سے انکار کر دیا۔ پھر قیمت دی تو خوب دی، سونے کے دس دینار حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ادا کئے جو مارکیٹ ویلیو سے بھی بڑھ کر تھے۔ یہ ہے وہ اسوئہ رسولؐ جس پر آج سعودی حکومت بھی عمل کرتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی خدمت میں بھی یہی مشورہ ہے۔ اگر کوئی حکم امتناعی لیتا ہے جیسا کہ اسحاق خاندان نے لیا ہے تو خواجہ حسّان، احسان کریں غصہ نہ کریں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس حکم کا فیصلہ حکومت ہی کے حق میں ہو گا۔ آپ روتے بچوں اور عورتوں کے آنسو پونچھیں، اپنی پرکار کو ذرا بدلیں، مظلوموں کو ذرا ہنسا کر دیکھیں، اس سے جو دردمند دل کو خوشی ملتی ہے اس کے مقابلے میں میٹروٹرین کی تکمیل پر خوشی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مظلوموں کی خوشی سے جنت میں بھی محلات کی قطار بن سکتی ہے اور ان کی بددعا سے دنیا کے مکانات کی قطار بھی ہل سکتی ہے۔ ٹرین کو عربی میں ''قطار‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ایک کی قطار کا خیال رکھئے گا جناب! ''کر بھلا ہو بھلا‘‘۔