کیپٹن عمیر خارجی دہشت گردوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا ان کے باریش اور غازی والد کرنل (ر) زاہد نے فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف! ان کا دوسرا بیٹا بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لئے بھیج دیں۔ دوسرا کیپٹن بیٹا بھی حاضرِ خدمت ہے۔ بیٹے کی قربانی اور باپ کے بہادرانہ جذبے نے پوری قوم کو نیا ولولہ اور حوصلہ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم اس وقت زندہ ہے تو شہیدوں کی قربانیوں اور ان کے وارثوں کے دلیرانہ جذبوں کے طفیل۔ موجودہ دہشت گردی کی لہر سے اس ایمانی جذبے کو نکال دیں تو زندگی کے کہیں آثار نہیں ملیں گے۔ زندگی رواں دواں ہے تو ان شہیدوں کے پاکیزہ خون سے اور ان کے وارثوں کے جذبوں سے۔ یہ اللہ کے ایسے پراسرار بندے ہیں کہ زمین کے نیچے دفن ہو کر بھی زندگی کے ثبوت دے جاتے ہیں۔
جس آبادی میں میرا گھر ہے وہاں پہرہ داری کے لئے ریٹائرڈ فوجیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ حالیہ سردیوں کے دنوں میں ایک روزمیرے گھر کے سامنے آگ کا الائو روشن کر کے سردی کی شدت کو کم کیا جا رہا تھا۔ میں بھی وہاں جا بیٹھا اور ریٹائرڈ فوجی سے بات چیت ہونے لگی۔ دوران گفتگو فوجی نے اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا۔ کہنے لگا، لاہور کے نواح میں بیدیاں کے قریب فوجی شہداء کا قبرستان ہے جس میں 1965ء اور 1971ء کے شہدا مدفون ہیں، پچھلے دنوں ہمیں اپنے ایک شہید فوجی کو یہاں دفن کرنا تھا۔ قبر کھودنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہو گیا۔ میں جب قبر کھود رہا تھا تو نیچے سے ایک لاش نکل آئی۔ میرے ہاتھ میں جو کدال تھی وہ اس لاش کی کلائی کو شدید زخمی کر چکی تھی۔ وہاں سے فوارے کی طرح خون پھوٹنے لگا۔ میں نے اس خون پر ہاتھ رکھا مگر نہ رکا۔ حتیٰ کہ قریبی گائوں سے ایک ڈاکٹر کو بلایا، اس نے آ کر پٹی کی تب جا کر خون بند ہوا۔
قارئین کرام! میں یہ واقعہ سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر مذکورہ لاش 1965ء کے کسی نامعلوم شہید کی تھی تو یہ پچاس سال پرانی ہے اور اگر یہ1971ء کے کسی شہید فوجی کی لاش تھی تو 44سال پرانی ہے۔ اندازہ لگائیں 50سال نہ سہی 44سال بھی بھلا کوئی کم مدت ہے۔ نصف صدی کی مدت اور ابھی لاش تازہ اور خون بہہ رہا ہے۔ جس کا خون بہہ رہا ہے وہ اللہ کی جنتوں میں اک شہزادہ ہے۔ جہاں اس کے مقام کو جنت کے اربوں انسان جانتے ہیں، فرشتے واقف کار ہیں اور سب انسانوں اور فرشتوں کے رب کریم کے ہاں اس کا اعلیٰ مقام ہے۔ اسے دنیا میں کوئی نہ جانے، اسے دنیا کے فانی انسانوں میں پہچان کی کیا ضرورت ہے، کسی تمغے کی کیا حاجت ہے، یہ پہچان اور تمغے تو ہماری ضرورت ہیں کہ اس سے ہمیں زندگی ملتی ہے۔ ہم لوگ زمین پر زندہ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ جذبے نہ ہوں تو محض چلتی پھرتی لاشیں ہیں، محلات اور کوٹھیوں میں رہنے والے زندہ مُردے ہیں، اور بس۔
شوّال کے علاقے میں ضربِ عضب کی مار مارتے ہوئے جو چار جوان شہید ہوئے ہیں وہ اور ان کے سب شہید ساتھی ایسے ہی پاکیزہ خون کے حامل ہیں۔ میں ایک اور انداز سے دیکھتا ہوں تو مجھے ان شہادتوں میں اللہ تعالیٰ کی حکمت نظر آتی ہے۔ پاک آرمی کے چار شہیدوں کا تعلق پاکستان کے چار صوبوں سے ہے۔ کیپٹن عمیر شہید کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواسے ہے، حوالدار حاکم شہید کا تعلق بلوچستان سے ، سپاہی حمید نواز کا تعلق سندھ سے اورارشد کا تعلق پنجاب سے ہے یعنی پاکستان کے چاروں صوبوں سے پاک آرمی کے چار شہیدوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنا پاکیزہ خون پیش کیا ہے اور خارجی سوچ رکھنے والوں‘ جو سکیورٹی فورسز کے اداروں اور ان سے وابستہ جوانوں اور بچوں تک کو طاغوت کہتے ہیں، کے لیے اللہ کی طرف سے پیغام یہ ہے کہ ان کا خون راہِ حق کا پاکیزہ خون ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی طرف سے پیغام یہ ہے کہ پورا ملک اس دہشت گردی کے خلاف ہے تو کامیابی آسمانوں پر بھی ان خاکی وردی والوں کی ہے اور زمین پر بھی ان ہی کی کامرانی ہے اس لئے کہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشتیبان اور پاسبان ہے۔
میں ایک اور انداز سے بھی سوچتا ہوں اور وہ سوچ یہ ہے کہ ''ضربِ عضب‘‘ کی جدوجہد پاکستان کے اندر ''غزوہ ہند‘‘ کی جدوجہد ہے۔ میرے حضور حضرت محمد کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ''دو لشکروں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرما دیا ہے، پہلا لشکر وہ ہے جو غزوئہ ہند کرے گا‘‘۔ (سنن نسائی، البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا) غزوئہ ہند ایک مسلسل کڑی کا نام ہے جس کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوا، محمود غزنوی ہو یا شہاب الدین محمد غوری سب غزوئہ ہند کے علمبردار تھے۔ اورنگ زیب ہو یا ٹیپو سلطان، سید احمد شہید ہوں یا شاہ اسماعیل شہید، سب غزوئہ ہند کے سالار تھے۔ پاکستان بھی غزوئہ ہند کی جدوجہد سے بنا۔ اس کے سالار علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم تھے۔ 1948ء، 1965ء اور 1971ء کی جنگیں بھی غزوئہ ہند کا تسلسل تھیں۔ ہندوستان نے دہشت گردی کو پاکستان میں داخل کر دیا۔ خارجیوں کے پیچھے بھی وہی ہے اور علیحدگی پسند دہشت گردوں کے پیچھے بھی اسی کا بھیانک چہرہ دکھائی دیا ہے۔ آرمی پبلک سکول اور چارسدہ کی یونیورسٹی کے سانحات کے پیچھے بھی اسی کا خون آلود بھیانک روپ نظر آیا ہے تو پھر اس بہروپ کے خلاف لڑنے والے آج غزوئہ ہند نہیں کر رہے تو اور کیا کر رہے ہیں؟ وہ پاکستان کے اندر ضرب عضب کے نام سے غزوئہ ہند کی کامیاب یلغاریں نہیں کر رہے تو اور کیا کر رہے ہیں۔اس غزوئہ ہند کے سالار جنرل راحیل شریف نے کہہ تو دیا ہے کہ آخری مرحلے میںداخل ہو گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں آخری مرحلے میں کامیابی کے بعد بھارت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہو گا۔ جب پاکستان کے اندر غزوئہ ہند کی ضرب کامیاب ہو جائے گی تو باہر بھی کامران ہو جائے گی۔ نوشتۂ دیوار بہرحال یہی نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کا مقدر یہی ہے۔ پاک دھرتی کہ جس کی بنیاد ''لاالہ الا اللہ‘‘ ہے اور اس کے باسی جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر اور نعرئہ تکبیر لگا کر خون بہاتے ہیں تو ایسے پاکیزہ خون کا نظارہ یہی ہے کہ وہ نصف صدی بعد اپنی پاکیزگی کا رنگ دکھائے۔ ایسے پاکیزہ خون میں لتھڑے شیروں کے وارثوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پوری قوم عمیر کے جذبے کو سلام کرتی ہے کہ وہ ہم سب کی سلامتی کو یقینی بنا گیا ہے۔ (ان شاء اللہ)