اللہ کے رسول اللہﷺ نے خواتین کو مارنے سے منع فرمایا ہے بلکہ اس شخص پر تعجب کیا ہے کہ جو ایک وقت میں بیوی کو مارتا ہے اور پھر دوسرے وقت میں اسے اپنے پاس بلاتا ہے۔ (بخاری : 5204) یعنی نا پسندیدہ حرکت کا ارتکاب کرتا ہے ۔ ایسی بدذوقی پر اللہ کے رسول ﷺکا تعجب ایک ایسی فہمائش ہے جو عقلمند انسان کے لیے زبردست اخلاقی کوڑا ہے جو سیدھا کھوپڑی توڑ کر دماغ کے بھیجے پر جا لگتا ہے لیکن اس کا احساس اسے ہی ہو سکتا ہے جو صاحب دماغ ہو۔ اللہ کے رسولﷺنے عورت کو شیشہ قرار دیا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔(بخاری) شیشے کو صاف شفاف اور چمکا کر رکھا جاتا ہے اور ہلکی سی ٹھوکر سے وہ ٹوٹ جاتا ہے یعنی حضورﷺعورت کے دل کو ٹھوکر نہیں لگانے دیتے ٹھیس نہیں پہنچانے دیتے یہاں تک تحفظ فرماتے ہیں اس صنف نازک کا اللہ کے رسولﷺ ‘کہ فرمایا :
''عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو کیونکہ عورت (آدمؑ)کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر والا ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا شروع کر دو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی لہٰذا عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے ہی رہو۔‘‘ (بخاری :3331)
یہاں بھی مارنے سے منع کیا گیا ہے یعنی اگر کوئی عورت کو مارے گا تو پسلی توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ علیحدگی ہو جائے گی لہٰذا صبر کرنا چاہیے اور حسن سلوک سے ہی معاملہ حل کرنا چاہیے اسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے کبھی کسی کو بھی نہیں مارا۔ یہ ہے حسن سلوک جو اللہ کے رسولﷺکو مطلوب ہے۔ عورت کو مارنا کس صورت میں جائز ہے اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ سورۃ نساء کی آیت نمبر15میں ان عورتوں کا ذکر فرماتے ہیں جو صریح بدکاری کا ارتکاب کر لیتی ہیں سزا کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے اس کے بعد آیت نمبر91میں پھر واضح بدکاری کرنے والی عورتوں کا تذکرہ ہے۔ آیت نمبر 25 میں تیسری بار ''بفَاحِشَۃٍ‘‘کا لفظ لا کر ایسی ہی عورتوں کا تذکرہ ہے۔ پھر آیت نمبر 34 میں واضح کیا گیا ہے کہ مرد عورتوں کے نگران ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت یعنی برتری دی ہے، مثال کے طور پر کوئی کمزور ہے تو کوئی طاقتور ہے کوئی خوبصورت ہے تو کوئی واجبی سی شکل والا ہے کوئی کالا ہے تو کوئی گورا ہے اسی طرح عورت فطری طور پر کمزور اور زود رنج ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مرد کی فضیلت کا سبب یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مال خرچ کرتا ہے یعنی کما کر لاتا ہے اور کھلاتا ہے مرد کی یہ صفت بیان کر کے اب اللہ تعالیٰ مردوں کو مخاطب کر کے اسی آیت میں فرماتے ہیں کہ جن عورتوں سے تمھیں سر کشی کا اندیشہ ہو انہیں نصیحت کرو، سمجھاؤ (اگر اس سے معاملہ ٹھیک نہ ہو) تو بیڈ روم میں انہیں اکیلی چھوڑ دو (اس سے بھی سدھارنہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ اب اگر وہ تمھاری بات ماننا شروع کر دیں تو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی ترکیب نہ سوچنا شروع کر دو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بلند اور سب سے بڑا ہے۔
قارئین کرام ! غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کیسے تربیت فرما رہے ہیں اور کس طرح عورت کو تحفظ دے رہے ہیں یعنی اگر برے اور غیر اخلاقی راستے پر چلنے کا ڈر پیدا ہو جائے اور سمجھانے پر بھی سر کشی جاری رکھے۔ اور بیڈروم سے خاوند کی علیحدگی کی بھی پرواہ نہ کرے کہ یہ چیز عورت پر بہت گراں گزرتی ہے تو آخری چارہ کار مارنا ہے، اب یہ مار کیسی ہو، اللہ کے رسولﷺنے اس کے بارے میں بھی واضح کر دیا،فرمایا عورتوں سے بھلائی والا حسن سلوک کرو کیونکہ یہ عورتیں تمھاری معاون ( یعنی دکھ سکھ میں کام آنے والی) ہیں تم لوگوں کو انہیں( مارنے کا) بالکل کوئی اختیار نہیں ہے ہاں صرف ایک صورت ہے کہ وہ واضح بے حیائی کا ارتکاب کریں اگر ایسا کریں تو انہیں بیڈروم میں الگ چھوڑ دو اور ان کو مارو تو ایسا مارو کہ جس سے (جسم پر) نشان نہ پڑے۔ (ابن ما جہ : 1801۔صحیح)
بعض حضرات نے معاون یعنی ''عَوَانٍ‘‘ کا معنی قیدی کیا ہے۔ اگر یہ ترجمہ بھی مانا جائے تب بھی اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ نکاح کے بندھن میں بندھ کر اب تمھاری ہو چکی ہیں ان کی حیثیت ایسی ہے جیسی تمھاے ساتھ ایک محبت کے قیدی کی ہوتی ہے لہٰذا ان کا خیال رکھو، جی ہاں! یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے فرمان کی شرح کر دی ہے کہ مار ایک ہی صورت میں ہونی چاہیے اور وہ صورت حیا باختگی اور بد چلنی کی ہے مگر اس میں بھی '' غیر مبرح‘‘ کا لفظ ہے یعنی اس مار میں بھی جلد پر نشان ڈالنے کی مار مت مارے۔ امام جمال الدین ابن منظور اپنی معروف لغت '' لسان العرب‘‘ میں ''برح‘‘ کے معنی کے بارے میں لکھتے ہیں ''وھو البارز الظاہر‘‘ یعنی نمایاں اور واضح نشان اور اس کا یہ بھی معنی ہے ۔ ''ظَھَرَ مَاکَانَ خَافِیاً وانْکَشَفَتْ‘‘ جو چھپا تھا وہ ظاہر ہو گیا اور نمایاں ہو گیا۔ پنجابی میں اس کا معنی ہو گا ایسی مار کہ جس سے ''لاس‘‘ پڑ جائے۔ مذکورہ حدیث کا حوالہ دے کر امام جمال الدین بات کو مزید واضح کرتے ہیں ''ضربا غیرمبرح‘‘ ''ای غیر شاق‘‘ یعنی تکلیف میں مبتلا کر دینے والی لاس نہیں پڑنی چاہیے ۔بعض جلدیں انتہائی نازک ہوتی ہیں معمولی لاس پڑ بھی جائے تو تھوڑی دیر میں جلد نارمل ہو جائے امام جمال الدین اس عمل کو ''برح الخفاء‘‘ کہتے ہیں جس کا معنی ہے '' زال الخفاء‘‘ یعنی وہ لاس یا نشان جو چند ثانیوں اور منٹوں میں ختم ہو جائے اور اگر نشان دیر پا ہو گیا تو اس کی اجازت نہیں، اللہ کی قسم! کیسا تحفظ کیا ہے اللہ کے رسول ﷺ نے عورت کا کہ ایسی بے ضرر مار پر بھی مزید پابندیاں لگا دیں فرمایا: چہرے پر نہیں مارنا ۔برا بول نہیں بولنا۔ اسے الگ کرنا ہے تو گھر میںہی کرنا ہے۔(ابو داؤد: 2142۔ صحیح)یعنی عورت کو گھر سے باہر نہیں نکالنا اسے گھر میں ہی اس کے بیڈ روم میں اکیلا چھوڑ دو کمال مہربانی ہے ثابت ہوا مذکورہ مار صرف عورت کو احساس دلانا ہے کہ تمھارا جو چلن ہے وہ تمھیں اس سطح پر لے آیا ہے کہ مجھے تم جیسے نازک شیشے اور آبگینے پر ہاتھ اٹھانا پڑ گیا ہے یہ مار نہیں ہے محض ناراضی کا انتہائی انداز ہے کہ ایک سمجھدار اور عزت دار خاتون کو اپنی عزت کا احساس ہو اور خاوند کے ایسے تیور دیکھ کر وہ ٹھیک ہو جائے اس کا مقصد کیا ہے اگلی آیت میں واضح کر دیا، فرمایا :
''اور اگرتم لوگ ایسے میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ جانے سے خائف ہو جاؤ تو یوں کرو کہ ایک منصف مرد کے خاندان میں سے لے لو اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے لے لو اگر یہ دونوں اصلاح کی نیت رکھتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درمیان یگانگت پیدا فرما دے گا حقیقت تو بہر حال یہی ہے کہ اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ (النساء : 35)
یعنی خاوند کی کوششوں کے بعد اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان مذکورہ طریقے سے صلح کروا دی جائے۔
اے ممبران اسمبلی! غور فرمائیں اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول ﷺکس طرح ایک گھر کو بچا رہے ہیں خاندان کو محفوظ کر رہے ہیں گھریلو اور خاندانی معاملے کو وہیں تک رکھ کر فطری انداز سے حل کرنے کا طریقہ بتلا رہے ہیں لیکن تحفظ خواتین بل میں '' گھریلو تشدد، جنسی تشدد اور نفسیاتی دباؤ‘‘جیسے الفاظ استعمال کر کے عورت کو ابھارا جاتا ہے کہ وہ اس بل کے تحت بنائے گئے '' رابطہ ضلعی افسر‘‘ کے پاس جائے، پولیس کو فون کرے اور پھر خاوند حوالات میں رہے۔ نتیجہ کیا نکلے گا، ہاں وہ تو نکل آیا کہ اب تک دو تین ایسے کیس ہوئے کہ مردوںنے حوالات سے واپس آ کر بیویوں کوطلاق دے دی۔ایسے رزلٹ کے بعد ضروری ہے کہ علماء کی مشاورت سے بل کو مؤثر ، مفید اور کتاب وسنت کی روشنی میں مرتب کیا جائے ۔