ہمارے حکمران اور اشرافیہ کے لوگ اس وقت پاناما بحران کے متاثرین ہیں۔ بڑے متاثرین میں کئی قدآور شخصیات ہیں۔ ہماری رائے میں یہ لوگ قوم کے محسن بھی بن سکتے ہیں، کیسے؟ سب سے پہلے قرآن کی ایک آیت کا حصہ، اس کا ترجمہ اور شرح ملاحظہ ہو اور پھر ہمارا ہمدردانہ نسخہ اور پانامہ بحران سے نکلنے کا طریقہ ملاحظہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
''جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے (سود پر اللہ کی گرفت اور ناراضی کی) یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے وہ سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔‘‘ (البقرہ:275)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ''جو کھا چکا سو کھا چکا‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا اسے معاف کر دیا گیا بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی شخص نے سودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطۂ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا تو وہ خود اپنی اس دولت کو، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے، جن کا مال اس کے پاس ہے اس حد تک ان کا مال انہیں واپس کر دیا جائے اور جس حصۂ مال کے مستحقین کی تحقیق نہ ہو سکے اسے اجتماعی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔ (تفہیم القرآن)
قارئین کرام! مندرجہ بالا قرآنی آیت اور اس کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف صاحب کو چاہئے کہ وہ قومی اسمبلی سے ایک قرارداد پاس کروائیں جس میں گزشتہ 27سال میں حکمرانی کے ادوار کو ''سودخور کرپٹ جاہلی دور‘‘ قرار دے دیں۔ حکمرانی کا یہ دور زیادہ تر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا دورِ حکمرانی ہے۔ آج بھی مسلم لیگ ن حکمران ہے اور پیپلزپارٹی سندھ میں حکمران اور وفاق میں حزب اختلاف کی سیٹ سنبھالے ہوئے ہے۔ ساتھ ساتھ سینیٹ کی چیئرمین شپ اور آزاد کشمیر میں بھی حکمران ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت نکال کر گزشتہ ربع صدی سے موجودہ دو بڑی حکمران پارٹیاں ہی برسراقتدار چلی آ رہی ہیں اور انہی کے دور میں ''سودخور کرپٹ جاہلی دور‘‘ معرض وجود میں آیا ہے۔ مقدمات قائم کرنے سے ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کا آج تک نہ کچھ بگڑا ہے اور نہ بگڑنے کی توقع ہے لہٰذا گزشتہ ستائیس سال میں جن جن لوگوں نے امریکہ، یورپ اور دبئی وغیرہ کی ''محفوظ دنیاوی جنتوں‘‘ میں اپنا مال محفوظ کیا ہوا ہے ان کو گارنٹی دے دی جائے کہ ''سود خور کرپٹ جاہلی دور‘‘ میں بنایا ہوا مال پاکستان میں بھی محفوظ ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس مال کو ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے اندر اندر پاکستان کے بینکوں میں لے آئیں۔ ویسے تو آزاد ذرائع بتلاتے ہیں کہ بڑے دو لیڈروں کا چار سے پانچ سو ارب ڈالر تک سرمایہ دنیا میں موجود ہے اور باقی تمام سیاستدانوں اور دیگر لیڈران وغیرہ کا سرمایہ جمع کیا جائے تو کوئی سات سو ارب ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔ جناب وزیر خزانہ پاکستان اسحاق ڈار صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی اشرافیہ کا دو سو ارب ڈالر بیرونی بینکوں میں پڑا ہے۔ یوں ایک اندازے کے مطابق یہ ساری رقم آٹھ سو ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ میں کہتا ہوں ہم اس رقم کو آدھا یعنی چار سو ارب ڈالر تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ چار سو ارب ڈالر پاکستان میں آ جاتے ہیں تو اندازہ لگائیں پاکستان ایک ہفتے میں معاشی چھلانگ لگا کر کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا، تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا اس وقت کل قرضہ ساٹھ ارب ڈالر ہے۔ اس کا سالانہ سود تقریباً چھ ارب ڈالر ہم ہر سال اپنے عوام کی جیبیں کاٹ کر آئی ایم ایف وغیرہ کو دیتے ہیں اور قرضہ اسی طرح ہمارے سر پر ہے۔ ہم سود کی قسطیں دے کر اصلی رقم سے کئی گنا زیادہ ڈالر دے چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہم دو سو سے تین سو ارب ڈالر کے درمیان سود خور اداروںکو دے چکے ہیں جبکہ اصل رقم ہمارے ذمے اسی طرح کھڑی ہے اور ہم مزید قرضوں پر قرضے لئے جا رہے ہیں ہمارے حکمران جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ ہم نے کشکول توڑ دیا۔ جی ہاں! کشکولوں میں اضافہ کر لیا۔ ایک گلے میں اور دو عدد دونوں ہاتھوں میں اور دو چار پیٹ پر باندھ لیے ہیں اور جہازوں میں گھوم کر مانگنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیسے فقیر ہیں جو جہازوں میں بیٹھ کر جاتے ہیں اور مانگتے ہیں مگر سود پر قرض مانگتے ہیں۔ میں عرض کر رہا تھا کہ اشرافیہ کے یہ لوگ اپنے چار سو ارب ڈالروں میں سے ساٹھ ارب ڈالر پاکستان کو قرض حسنہ دے دیں۔ حکومت پاکستان آئی ایم ایف وغیرہ کو فارغ کر دے اور سالانہ چھ ارب ڈالر حکمران طبقہ کے اکائونٹ میں جمع کروا دیا کریں۔ دس سال بعد پاکستان مقروض نہیں رہے گا۔ اس پر مندرجہ بالا تمام لیڈروں کو پاکستان اور اہل پاکستان کا محسن قرار دے دیا جائے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری خصوصی محسنان ملت قرار پائیں ان کے ساتھ دیگر محسنین بھی اپنا سرمایہ پاکستان میں انویسٹ کریں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیاں بنائیں، میڈیکل کالج بنائیں، زرعی یونیورسٹیاں اور خلائی سائنس کے ادارے بنائیں، دیگر شعبوں میں انویسٹ کریں، پیسہ پاکستان میں گردش کرے گا یہ حکومت بھی کریں، مال بھی بنائیں اور محسنینِ ملت کا لقب بھی پائیں۔
یہ ہو گیا ان کا دنیا میں کردار جبکہ آخرت میں ان کے ساتھ کیا ہو گا وہ یہ جانیں اور ان کا اللہ۔ ہم نے قرآن کی آیت اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کی شرح ان کے سامنے رکھ دی ہے۔ اگر یہ لوگ مندرجہ بالا فارمولے پر رضامند نہ ہوں تو پھر رضاکارانہ طور پر یہ اپنی محفوظ دنیاوی جنتوں میں تشریف لے جائیں، عیش و عشرت کی زندگی گزاریں تب ایک نگران سیٹ اپ معرضِ وجود میں لایا جائے وہ امریکہ اور یورپ سے کہے کہ محفوظ جنتیں تمہارے علاقوں میں ہیں۔ سوئٹزرلینڈ، ورجن آئی لینڈز اور پانامہ وغیرہ تمہارے ہاں قائم ہیں، تم لوگوں نے ہمیں جو قرضے دیئے، ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کے لوگوں نے وہی سود کا مال اپنی ملکیت بنا کر تمہارے پاس رکھ دیا ہے۔ یہ ہمارے عوام کا پیسہ ہے، ساٹھ ارب ڈالر کاٹ لو اور باقی رقم ہمیں واپس کر دو۔ وہ یقینا نہیں مانیں گے اس لئے کہ پانامہ لیکس سے وہ بار بار جو بدبودار سڑاند خارج کر رہے ہیں وہ یہ سارا پیسہ ہضم کرنے کے لئے ہی تو کر رہے ہیں۔ آئندہ وہ وقت آنے والا ہے کہ جب وہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ایسے حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ اپنی دولت کا ذریعہ بتلائو؟ یہ بتلا نہ سکیں گے تو وہ اس پر قبضہ کر لیں گے اور یہ لوگ جعلی کرنسی اور ناجائز اسلحہ کا کاروبار کرنے والوں کی طرح کسی کو بتلا بھی نہ سکیں گے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
یاد رہے! یہ جو پاناما لیکس کا چکر ہے یہ اسی قبضے کے لئے ہے۔ اس کے لئے اب میں ایک سادہ سی مثال اپنے معاشرے سے دیتا ہوں۔ فرض کریں دو دوستوں میں سے ایک دوست نے دوسرے کو ایک کروڑ روپے قرضہ دے دیا، بات دونوں کے درمیان ہے، قرض لینے والا دوست اب چاہے گا کہ میرا دوست مر جائے تو بہتر ہے، کروڑ کا تقاضا تو نہیں کرے گا اور اگر اس نے تقاضا شروع کر دیا تو پھر یہ اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ہے جرائم کی دنیا میں انسانی فطرت۔ اور ہم آئے دن اس کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر شاہ ایران کے حشر کو دیکھ لیں، قذافی کو دیکھ لیں کہ اس کے چھ ارب ڈالر فرانس نے ڈکارنے کی خاطر اسے مروا دیا اور پورا لیبیا تباہ کروا دیا۔ پیسے ہضم کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ پانامہ لیکس کا نیا طریقہ ایک بڑی شکل اور بھیانک چال ہے۔ ہماری اشرافیہ اور ان کی اولادوں کو اس سے کچھ نہیں ملنے والا لہٰذا یہ اپنے ساتھ ہمدردی کریں اور محسنانِ ملت بنیں۔ اگر یہ نہ بنیں تو دیانتدار نگران سیٹ اپ ایک راستہ ہے۔ دیر ہو گی تو سب کچھ پانامہ کی نہر میں غرق ہو جائے گا۔ آخر میں ترمیم کے ساتھ علامہ اقبال کے اس مصرع پر اختتام کہ!
اہل پاکستان کا نہیں بنتا تو نہ بن، اپنا تو بن