"AHC" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر کا حل …تجاویز

اللہ اللہ!کشمیر کے دلیر اور بہادر لوگوں نے انڈیا اور بی جے پی کے متعصب ہندو بنئے سے کس قدر ناتا توڑا ہے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ آٹھ لاکھ ظالم ہندو فوج کی موجودگی میں اہل جموں و کشمیر نے عید ہندوستان کے ساتھ نہیں منائی بلکہ اس رؤیت ہلال کو مانا جس کا اعلان جناب مفتی منیب الرحمن صاحب نے کیا۔ جی ہاں! انہوں نے عید پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ منائی۔ پاکستان کا ٹائم ہندوستان کے ٹائم سے آدھا گھنٹہ پیچھے ہے۔ اہل کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ اپنے ٹائم کا ناتا بھی توڑ لیا اور ٹائم کو 30 منٹ پیچھے کر کے پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ ناتا جوڑ لیا۔ پوری وادی میں آئے دن جبکہ 14اگست کو ہر دفعہ وادی کشمیر کے لوگوں نے پاکستان کا پرچم لہرا کر پاکستان کے ساتھ ناتا جوڑا اور 15اگست یعنی یوم بھارت کو یوم سیاہ منا کر انڈیا کے ساتھ ناتا توڑنے کا اعلان کیا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جب بھی میچ کھیلا گیا انہوں نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ ناتا جوڑ کر کھلاڑیوں کے حوصلوں کو بڑھایا۔ یہ ناتا اس قدر وسعت اختیار کر گیاکہ صرف وادی ہی نہیں پورے ہندوستان میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ نے اس ناتے کو جوڑنے کا عملی مظاہرہ کیا، نتیجے میں ان کی ہڈیوں کو توڑا گیا، ٹانگوں اور بازوئوں کو مروڑا گیا، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکالا گیا مگر ان کے طرز عمل میں کوئی فرق نہ آیا۔ 
کشمیر کی اس مسلسل تحریک میں حالیہ مضبوط ترین لہر اس وقت اٹھی جب 22سالہ برہان وانی کو شہید کر دیا گیا، برہان وانی کا جنازہ چالیس مرتبہ پڑھایا گیا۔ چالیس بار ہونے والے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ جی ہاں! یہ لاکھوں لوگ برہان وانی کے آبائی علاقے ''ترال‘‘ اور گردونواح کے تھے۔ وادی کے باقی لوگوں کو آنے نہیں دیا گیا۔ اگر باقی لوگوں کو آنے دیا جاتا تو ساری وادی کے لوگ یہاں جمع ہو جاتے۔ دوسرے لفظوں میں وادی کے لوگوں نے رائے شماری کا منظر دنیا کو ایک بار پھر اپنے عمل سے دکھلا دیا ہے کہ بقول سید علی گیلانی ''ہم سب پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ کہ انہوں نے اپنا ناتا انتہائی مضبوطی سے پاکستان کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ برہان وانی کی میت کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا ہے۔ یہ پیغام ہے کشمیری قوم کا پاکستان اور پوری دنیا کو کہ زندگی میں بھی ان کا ناتا پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور موت پر بھی ان کا ناتا پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر مضبوط آہنی عزم کی حامل قوم کو ان کے حق خودارادیت سے آخر کب تک روکا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کانگریس کا صدر ''لوک سبھا‘‘ میں بیان دینے پر مجبور ہو گیا کہ کشمیریوں کو ان کا حق رائے شماری دینا ہو گا مگر بیان دینے پر جب بی جے پی کا پریشر آیا تو کانگریس کا صدر مکر گیا۔ اس سے ثابت یہی ہوا کہ سشما سوراج جتنا مرضی شور مچاتی رہیں کہ یہ حق قیامت تک نہیں دیا جائے گا، انہیں یہ حق بہرحال دینا پڑے گا اور کشمیریوں کی قیامت جیسی تحریکوں کے سامنے آخرکار جھکنا پڑے گا۔
ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوج نے چھرے والی غیر انسانی اور یو این چارٹر کے خلاف ممنوعہ گن چلاکر سینکڑوں کشمیریوں کو جو اندھا کر دیا ہے، پانچ سال کے معصوم بچوں سے لے کر 80سال کی بزرگ خواتین تک کو نابینا کر دیا ہے، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، یہ فوج دنیا میں اخلاقی طور پر ایک بار پھر اپنے سابقہ جرائم کے ساتھ ضمیر کی عالمی عدالت کے کٹہرے میں زیربحث آ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برہان مظفر وانی، جس کو انڈیا دہشت گرد کہتا ہے، اس کی گفتگو حق اور امن کی برہان اور دلیل بن کر اس قدر مضبوطی سے سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر کے اہل انصاف کے دامن کو جھنجوڑ گئی ہے۔ انڈیا کے ہندو مقبوضہ وادی میں اپنی مشہور ''امرناتھ یاترا‘‘ میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ ''بی جے پی‘‘ کے متعصب لوگوں نے برہان وانی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لئے مشہور کر دیا کہ برہان وانی اس یاترا کے یاتریوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ برہان وانی نے اس پر سوشل میڈیا اور مقبوضہ وادی کے اخبارات کے ذریعہ سے اپنا پیغام دیا ''ہم پر ایسا الزام سراسر بہتان ہے، ہندو لوگ جو اپنی مذہبی رسوم کو سرانجام دیتے ہیں ہم ان کے خلاف ایسی کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارا یہ انداز نہیں ہے۔ ہم تو ان کے خلاف کارروائی کریں گے جو مقبوضہ وادی میں پنڈتوں کے نام پر کالونیاں بنا رہے ہیں۔ یہاں وہ ہندوستان کے ہندوئوں اور یہاں موجود ہندو فوجیوں کو بسائیں گے اور فلسطینیوں کی طرح ہمیں اقلیت بنا کر کشمیر کے مسئلہ کو ختم کریں گے۔ ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ہم اپنے کشمیر کو اسرائیل نہیں بننے دیں گے۔ یہ ہمارے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔‘‘ جی ہاں! برہان مظفر وانی نے اپنی جدوجہد پر پڑنے والی گرد کو صاف کیا اور نریندر مودی حکومت کے یہودیانہ اقدامات کو چیلنج کیا۔ برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک کو پوری دنیا میں ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ بانکی مون کا بیان اور تشویش بھی سامنے آئی، او آئی سی نے بھی انسانیت کے خلاف اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا، چین نے پہلے سے بڑھ کر کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ روس کے میڈیا نے رائے شماری کی اہمیت کو تسلیم کیا۔
جی ہاں! یہ خوش آئند ردعمل اس وقت سامنے آیا جب پاکستان سے اہل پاکستان نے اہل کشمیر کے ساتھ بھرپور انداز سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ سب سے بڑا یکجہتی کا اظہار پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعۃ الدعوۃ کی قیادت میں ہوا۔ کشمیر کارواں کے عنوان سے لاہور تا اسلام آباد کوئی تیس کلومیٹر لمبا کارواں نکالا گیا، اسلام آباد میں کوئی ایک لاکھ کے قریب لوگ تھے۔ 19جولائی کو نکالا جانے والا یہ کارواں اس یاد کی مناسبت سے تھا جب 14اگست 1947ء سے25 دن پہلے معروف کشمیری لیڈر جناب غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیریوںنے پاکستان کے ساتھ کشمیرکے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ میاں محمد نوازشریف پر ہر جانب سے دبائو بڑھ رہا تھا کہ وہ انڈیا کے ساتھ دوستی میں کشمیر کی تحریک کو نظرانداز کر رہے ہیں چنانچہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اپنے سابقہ بیانات اور یو این میں حق خود ارادیت کے دیے گئے زوردارمؤقف کے اشتہارات چلائے اور 20 جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ آزاد کشمیر میں چونکہ ان دنوں الیکشن کی مہم تھی لہٰذا آزاد کشمیر سے یکجہتی کا پیغام جانے میں دیر ہو رہی تھی۔ توقع کے عین مطابق وہاں مسلم لیگ ن جیت گئی اور اگلے ہی دن جناب وزیراعظم وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے مقبوضہ وادی کی آزادی کے لئے بھرپور پیغام دیا۔ لیاقت علی خان کی طرح مکا لہرا کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کانعرہ لگایا۔ سید علی گیلانی کے حق خود ارادیت پر مبنی چار نکات کی تائید کا بھی حکومت نے اعلان کر دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بھی کور کمانڈرز کانفرنس میں کشمیریوں کے حق کے لئے زوردار انداز اختیار کیا۔ یوں پوری پاکستانی قوم نے اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ہم جناب وزیراعظم کی خدمت میں چند تجاویز پیش کر رہے ہیں تاکہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق ملنے تک جدوجہد میں تسلسل اور مضبوطی قائم رہے:
(1)کشمیر کمیٹی جس کی عدم کارکردگی پر شدید تنقید کی گئی ہے، اس کمیٹی کی حیثیت کو بالا کر دینا چاہئے۔ میاں صاحب براہ راست اپنی نگرانی میں ایک وزارت کا اضافہ کریں اور اس کا نام ''وزارت برائے رائے شماری جموں و کشمیر‘‘ رکھیں۔ اس وزارت کی ذمہ داری راجہ محمد ظفر الحق یا خواجہ سعد رفیق جیسے معتمد اور قابل شخص کو دیں جو کشمیر کے مقدمے کو جنگی صورت حال کی طرح تسلسل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں، دنیا کی ہر قابلِ ذکر زبان میں اس پر کام کریں، دنیا بھر کے حکمرانوں، سفارت خانوں، وزارت خارجہ کے ہیڈ آفسز ہی کو قائل نہ کریں دنیا بھر کے عوام تک کو بھی کشمیریوں کے ساتھ روا ظلم اور ان کی جدوجہد سے آگاہ کریں۔ یو این میں بھی کردار ہو مگر یو این پر دنیا بھر کا اخلاقی پریشر بھی ہو۔ 57مسلمان ملکوں تک عموماً اور اہم مسلمان ممالک کہ جن کے ساتھ انڈیا کے تجارتی روابط ہیں ان تک خصوصاً حقائق پہنچا کر انڈیا کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیریوں کے حق رائے شماری کو تسلیم کرے وگرنہ اقتصادی نقصانات کے لئے تیار رہے۔
(2)دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین کشمیر کے مسئلہ پر چار جنگیں ہو چکی ہیں ہم پانچویں جنگ نہیں چاہتے لیکن انڈیا کشمیریوں کو حق نہ دے گا تو یہ جنگ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی وقت بھڑک سکتی ہے۔
(3) پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی قوت ہیں، ہم ایٹمی اسلحے چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اب جنگ ہوئی تو یہ زوردار ہو گی۔ انڈیا میں بی جے پی جیسی ہندتوا کی علمبردار حکومت ہے تو پاکستان کے عوام میں بھی کشمیریوں کا ساتھ دینے کا عملی جذبہ اور تجربہ موجود ہے۔ فوجوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ٹکرائے گا تو بات ایٹمی جنگ تک بھی جا سکتی ہے اور اللہ نہ کرے یہ نوبت آ گئی تو صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو اس کے بدترین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ چنانچہ دنیا کا ہر فرد آگے بڑھ کر حق و انصاف پر مبنی کشمیریوں کے حق رائے دہی کا ساتھ دے۔
(4)مجوزہ ''وزارت برائے رائے شماری جموں و کشمیر‘‘ کے پلیٹ فارم پر چین کی حکومت سے رابطہ کیا جائے۔ چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے مگر کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملک دنیا کو باور کروائیں، خاص طور پر چین دنیا کو بتلائے اور پیغام دے کہ میرے دو پڑوسی ملک جو ایٹمی قوتیں ہیں، اگر یہ ٹکراتے ہیں تو چین اس ٹکر کے مضمرات سے متاثر ہو گا لہٰذا مسئلہ کشمیر کا ہم فوری حل چاہتے ہیں۔ بدلے میں انڈیا کو پاک چین اقتصادی کوریڈور سے منسلک کرتے ہیں۔ اس سے بھارت کی معاشی حالت کو پَر لگ جائیں گے۔ یوں جنوبی ایشیا امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ مسلم لیگ جنگی بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کو اپنی پہلی ترجیح بنائے۔ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں