حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے پاکستان کا تصور پیش کیا، قوم نے حکیم الامت اور مصوّرِ پاکستان کا خطاب دیا، وہ ایک وکیل تھے یعنی کالے کوٹ والے نے پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ کا نظریہ دیا۔ پاکستان جس کے ہاتھوں معرض وجود میں آیا وہ حضرت محمد علی جناح رحمہ اللہ ہیں، قوم نے انہیں قائداعظم کا خطاب دیا، وہ بھی ایک وکیل تھے، یعنی کالے کوٹ والے نے پاکستان بنا کر ہمارے ہاتھوں میں دے دیا۔ اگست کا مہینہ جونہی شروع ہوتا ہے، 14اگست کے حوالے سے دونوں وکیلوں کے تذکرے شروع ہو جاتے ہیں، کالے کوٹ پہننے والے دونوں بزرگوں کے عظیم احسان پاکستان کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تذکرے اور باتیں دشمنانِ پاکستان کے دل پر یوں چوٹ لگاتی ہیں جیسے آتشبازی اور سنگباری شروع ہو جائے، یعنی خوشی اور پھلجھڑی کا منظر دیکھا نہ جائے اور اس منظر کو خود پر سنگباری محسوس کیا جائے۔ یہ حسد اور بغض اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاک فوج، پولیس، سکول کے بچے، صحافی، علماء اور عام لوگوں کو شہید کرنے کے بعد کالے کوٹوں پر تاریخ پاکستان کا شدید ترین حملہ ہوا ہے۔ کوئٹہ شہر میں کالے کوٹوں کو جو لہورنگ سرخ کیا گیا ہے تو یہ علامہ اقبال پر حملہ ہے، یہ قائداعظم پر حملہ ہے۔ اگست کے آغاز میں یہ یوم پاکستان پر حملہ ہے۔ کالے کوٹ پر ظالمانہ حملے کی کوریج کرنے والے جس کیمرہ مین نے لاالہ الا اللہ پڑھ کر جان دی ہے، یہ لاالہ الا اللہ پر حملہ ہے۔ میرے حضورﷺ کی پاک اور مبارک زبان نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ جس کا آخری کلمہ لا الہ الااللہ ہو گیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ اللہ اللہ! اس سے بڑی گواہی کیا ہو گی کہ مظلوم شہیدوں کے مقتل میں بلند آواز سے اک شہید کا کلمہ سارے جہان نے سنا۔ کس کس نے دل میں پڑھا، کس کس کی زبان پر آہستگی کے ساتھ آیا۔ یہ سب مولا کریم کے علم میں ہے۔ جی ہاں! اک بات تو طے ہے کہ یارو! وہ سبھی کلمے والے تھے، وہ سارے جب مدفون ہوئے تو ان کے چہرے اس کعبہ کی جانب کئے گئے جو کالے غلاف والا ہے اور اس پر جگہ جگہ لاالہ الا اللہ لکھا ہوا ہے۔ کالے کوٹ والو! تمہیں مبارک ہو کہ مظلومیت کی موت پا کر شہادت کا مرتبہ لے کر جنت کے باسی بن گئے ہو۔ (ان شاء اللہ)۔
پاکستان حالتِ جنگ میں ہے، حالتِ جنگ میں شہید ہونے والوں کو بھلا دعائوں کی کیا ضرورت ہے۔ یہ دعائیں تو ہم زندوں کی ضرورت ہیں کہ شہداء ہمارے محسن ہیں اور ہم محسن کش تو نہ بنیں۔ احسان فراموش نہ کہلائیں، ہم دعائیں کریں اور جب بھی دعا کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں ''اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا‘‘ اے اللہ ہمارے زندہ لوگوں کو بھی معاف فرما دے اور ہمارے فوت شدگان کو بھی بخش دے۔ یعنی پہلے اپنے لئے دعا اور پھر فوت شدگان کے لئے مگر کوئی اس قدر غضب میں مغلوب ہو جائے اور پتھر دِل بن جائے کہ کالے کوٹ پہننے والے شہداء کے لئے دعا مانگنے کو بھی اختلافی بحث کا موضوع بنا ڈالے اور وہ بھی پاکستان کی قومی اسمبلی میں؟ پاکستان کی قوم کیا چاہتی ہے اور قومی اسمبلی میں کیا ہو رہا ہے یہ سب کچھ قوم دیکھ رہی ہے، جی ہاں! دل کو خون کے آنسو رلا دینے والی یہ بات دہلی میں لوک سبھا کے اندر ہوتی تو ہمیں کوئی پروا نہ تھی۔ افسوس اس بات کا تھا کہ قومی اسمبلی میں ہو رہی تھی اور قومی اسمبلی میں اس بات کے خلاف سوائے چوہدری نثار کے کوئی نہ بولا وہ بھی اگلے دن اور وہ بھی نام لئے بغیر۔ پریس کانفرنس کے ذریعے سب سے پہلے جو بولا وہ دبنگ مین شیخ رشید بولا۔ اگر شیخ رشید نہ بولتا تو قرآن کے الفاظ میں ''کیا تم میں ایک بھی رجل رشید نہیں؟‘‘ اسمبلی کا ایک ممبر رشید مین ہے جس نے فوراً قرآن کے ''رجل رشید‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔
یہ سفید چادر والا بابا اگر محمود اچکزئی ہے تو میں اس بابے سے دوبار مل چکا ہوں۔ اک بار ایم این اے ہاسٹلز میں گیا، مولانا سمیع الحق صاحب کا پیغام لے کر گیا کہ دفاع پاکستان کونسل کے کاروان میں شرکت کی دعوت ہے۔ دوسری بار کوئٹہ کے ایئرپورٹ پر لائونج میں گھنٹہ بھر ملاقات رہی۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے فرمایا، اچکزئی صاحب! آج امیر حمزہ بھی موجود ہیں آج میں تمہاری گفتگو صرف سنوں گا۔ بابا سفید چادر والے بولتے بہت زیادہ ہیں،بولتے چلے گئے، کہنے لگے حافظ سعید کو کہو میرے ساتھ چلیں، حامد کرزئی سے ملتے ہیں۔ امن کی خاطر ملتے ہیں۔ میں نے کہا حافظ صاحب نہ ملیں گے، اس لئے کہ کرزئی میں امریکہ کا جن اور انڈیا کا ترنگا بولتا ہے۔ آج جس انداز سے جناب سفید چادر والے سفید بابے نے ترنگا دیس بھارت سے اٹھنے والی را کی وکالت کی ہے اور آئی ایس آئی کا نام لئے بغیر نااہلی کا فتویٰ لگایا ہے، اس نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ کرزئی میں بولتا تھا وہی کچھ اچکزئی میں بول رہا ہے۔ مجھے اس موقع پر بابا بلھے شاہ کا شعر یاد آ رہا ہے!
چٹّی چادر لاہ سُٹ کڑیے پہن فقیراں لوئی
چٹّی چادر داغ لگیسی لوئی داغ نہ کوئی
''اے جوان لڑکی، یہ جو سفید چادر پہنے پھرتی ہے اتار کر پھینک دے، فقیروں کی رنگ دار اونی چادر پہن لے کیونکہ سفید چادر کا داغ نمایاں ہو جاتا ہے جبکہ رنگ دار اونی چادر کا داغ نظر نہیں آتا‘‘
یاد رہے! بابا جی بلھے شاہ اپنے آپ کو گناہ گار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فقیر کی چادر پر داغ نظر نہیں آتا۔ بابا جی بلھے شاہ آج زندہ ہوتے تو سفید چادر والے بابے کو شعر یوں سناتے!
چٹّی چادر لاہ سُٹ بابا پہن ترنگا ٹاٹ
چٹی چادر لاوے داغ، ترنگا دیوے ٹھاٹھ باٹھ
بابا اچکزئی، سفید چادر اتار دے، ہندوستانی جھنڈے کا ٹاٹ پہن لے، سفید چادر داغ لگائے گی، ترنگا ٹھاٹھ باٹھ دے گا۔
بابا جی بلھے شاہ آج زندہ ہوتے تو بتلاتے کہ ایسا تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا کہ کوئی اس ملک کے اقتدار کے جھولے بھی جھولے اور حقِ نمک ادا کرنے کا موقع آئے تو اپنے ملک کے دفاع میں جانیں دینے والوں کو لتاڑ دیا جائے اور حملہ کرنے والے ملک کو دفاع کا سائبان فراہم کر دیا جائے۔ انڈیا کا میڈیا اب اس پر نمک، مرچ اور مسالے نہ لگائے گا تو کیا کرے گا۔ ویسے بھی انڈیا کے مرچ مسالے بڑے تیز اور مشہور ہیں اور میڈیا میڈ ان انڈیا مسالے اس وقت خوب لگاتا ہے جب ہماری طرف سے اسے مفت میں دھنیا مل جاتا ہے اور یہ دھنیا ہمارے سفید چادر بابا کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔
سفید چادر بابا جی اکیلے نہیں ہیں ایسے لوگ ہمارے پاکستان میںوافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے ٹیکسوں پر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں جب دل چاہتا ہے، دہلی جا کر دِل بہلاتے ہیں۔ وہاں داغ کے ڈر سے نہ جائیں تو کابل چلے جاتے ہیں کہ وہاں بھی دِل بہلانے کو اِک چھوٹا سا دہلی موجود ہے۔ ویسے پاک افغان بارڈر پر درجنوں دہلی موجود ہیں۔ چوہدری نثار پر ہماری جان بھی نثار کہ راج ناتھ روتا ہوا گیا مگر چوہدری نثار کی وزارت یہ کام بھی کرے کہ بابا جی سفید چادر والے جیسے لوگ جب دل چاہے دہلی نہ جاتے پھریں۔