ہمارے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنی نواسی کی شادی کی تو نریندر مودی کابل سے سیدھے لاہور آئے اور جاتی عمرہ میں میاں صاحب کی نواسی کی خوشیوں میں حصہ ڈال کر گئے۔ نریندر مودی اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کر گئے کہ میاں صاحب پاکستان کے وزیراعظم ہیں تو اپنے خاندان کے بھی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ محترمہ کلثوم نوازشریف جیسی سلیقہ شعار گھریلو خاتون کے شوہر ہیں۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے باپ ہیں۔ پوتوں پوتیوں کے دادا اور نواسوں نواسیوں کے نانا ہیں اور اب تو اس سے اگلی نسل کے گرینڈ فادر بھی بننے جا رہے ہیں۔ ان کے دونوں چھوٹے بھائیوں میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف کی فیملیاں بھی ان کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں، یوں وہ اب ایک بڑے خاندان کے سربراہ ہیں۔ بیوی کی خواہشات اور تمنائیں کیا ہوتی ہیں وہ اسے بخوبی جانتے ہیں۔ بیٹیوں کے کیا مسائل ہوتے ہیں۔ بہو کو کس طرح بیٹی بنا کر رکھتے ہیں۔ بہو کے باپ یعنی سمدھی کو کیا عزت و تکریم دی جاتی ہے۔ وہ یہ سب جانتے بھی ہیں اور کر کے دکھلا بھی رہے ہیں۔ چھ ماہ، سال، تین سال اور پانچ سال کے پوتے، نواسے اور بچیاں کس طرح اپنے دادا اور نانا کا پیار لیتے ہیں۔ گود میں کھیلتے ہیں، بانہوں میں جھولتے ہیں اور لیٹے ہوئے نوازشریف کے سینے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ہاں! البتہ اب محترمہ کلثوم نواز یقینا بچوں کو جھڑک کر اور آنکھیں دکھلا کر دور ہٹ جانے کا حکم صادر فرماتی ہوں گی کہ میاں صاحب کے سینے کے ٹانکے ابھی کچے ہیں، پختہ نہیں ہوئے۔ الغرض! میاں صاحب تمام انسانی رشتوں سے کہ جو اس سے متعلق ہو سکتے ہیں تعلق رکھتے بھی ہیں اور نبھا بھی رہے ہیں۔ وہ ان رشتوں کے تقدس اور محبت سے بھی واقف ہیں۔
ان کے والد گرامی مرحوم میاں شریف صاحب خاندان سے باہر بھی تعلق داری کو نبھانا جانتے تھے۔ جناب مجید نظامی مرحوم سے ان کا تعلق سگے بھائیوں سے بڑھ کر تھا۔ کارگل کے پہاڑوں پر جب جھڑپیں جاری تھیں ان دنوں وزیراعظم میاں نوازشریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔ کارگل کی چوٹیوں سے پروفیسر حافظ محمد سعید اور راقم واپس آ ئے تو مجید نظامی مرحوم کے گھر میاں شریف مرحوم تشریف لائے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی یہاں موجود تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملاقات کے اختتام پر رخصت ہوتے وقت میاں محمدشریف نے حافظ عبدالرحمن مکی کو گلے لگایا اور مجھے سینے کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا، ہمارا تعلق قائم رہے گا۔ میاں شریف مرحوم کے اس جملے کو جو میں نے سمجھا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ جو لاالہ الا اللہ کا رشتہ ہے وہ قائم رہے گا۔ آپ لوگ اس جدجہد میں ہراول دستے جیسی جو کوششیں کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعلق قائم رہے گا۔ اہل کشمیر کے ''حق خودارادیت‘‘ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے آپ کا جو کردار ہے اس حوالے سے تعلق قائم رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں اس تعلق کی لاج رکھنا میاں محمد شریف کے فرمانبردار بیٹوں کے ذمے ہے اور ہم ان سے اسی کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ خاندان کے اندر اور باہر رشتوں کی نزاکت اور تعلق داری کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ تعلق داری کی میزان میں یہ ہیں میاں نوازشریف جنہیں دیکھا جا سکتا ہے، دوسری جانب ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، آیئے! اب ہم ان کو دیکھتے ہیں!
نریندر مودی نے شادی کی ہے، ان کی بیوی بھی ہے مگر اسے جوانی میں ہی چھوڑ کر آر ایس ایس یعنی ''راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کے دفتر میں رضاکار بن کر چلے گئے تھے۔ پھر وہ گجرات کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور وزیراعظم ہندوستان بھی بن گئے مگر بیوی جو ابھی تک بیوی ہے، گائوں میں دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے دروازے پر پھٹک بھی نہیں سکتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساس، سسر، سالے، سالیاں جیسے سارے رشتے مودی جیسے موڈی کے پائوں تلے مسلے گئے۔ بیوی سمیت جب سسرال ہی پائوں تلے روند دیا گیا تو بچے کہاں سے آئیںگے؟ لہٰذا مودی صاحب بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور پوتیوں کی ضرورتوں، ان کے ناز نخروں، ان کی پیار بھری شرارتوں اور ان سے لطف اندوز ہونے کی نعمتوں سے محروم ہیں۔ بہو کو کس طرح بیٹی بنا کر رکھا جاتا ہے، داماد کو کس طرح بیٹے کا پیار دیا جاتا ہے وہ ان سب رشتے ناطوں کی سچی اور عملی تعلق داری سے ناآشنا ہیں۔ ان رشتوں کے بارے میں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے منہ میں ذائقے کی حس ختم ہو جائے اور وہ زندہ رہنے کے لئے پیٹ تو بھرے مگر ذائقے سے محروم رہے یا سونگھنے کی حِس ختم ہو جائے۔ وہ گلستانوں میں چہل قدمی تو کرے مگر وہاں پھولوں کو دیکھنے کے باوجود ان کی خوشبو سے محروم رہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم کے ساتھ یہ ایک انسانی المیہ اور حادثہ ہو گیا ہے لہٰذا بھارت کا وزیراعظم جو گجرات کا وزیراعلیٰ رہ کر انسانیت کو دردناک اور کربناک المیے سے دوچار کر چکا ہے وہ کشمیر میں انسانیت کے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ میاں محمد نوازشریف جو وزیراعظم ہونے کے ساتھ وزیر خارجہ بھی ہیں انہیں اس بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ میں نے ہندوستان کے لیڈروں کو جو پڑھا ہے، نہرو اور گاندھی میں بھی ایک حد تک انسانیت کی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم مرارجی ڈیسائی میں بھی انسانیت تھی۔ اندرا گاندھی بھی اپنے مسلمان خاوند فیروز سے دو بچوں راجیو اور سنجے کی ماں تھی۔ واجپائی بھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا ایک پہلو رکھتے تھے مگر نریندر مودی ایک بالکل مختلف وزیراعظم ہے جو انسانی رشتوں اور انسانیت سے بالکل ناآشنا ہے۔
وہ اپنے کمرے میں ہمارے وزیراعظم کا استقبال کرتا ہے تو اپنی کرسی کے ساتھ ہی کھڑا رہتا ہے۔ یہ تکبر ہے اور میزبانی کے اعلیٰ انسانی ظرف کے خلاف ہے۔ اس کا وزیرداخلہ راج ناتھ اسلام آباد آتا ہے تو اجلاس میں اپنی بات تو کرتا ہے مگر اسے چوہدری نثار جو جواب دیتے ہیں وہ اس سے سیخ پا ہو کر اجلاس چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ جمہوری رویے، ڈائیلاگ اور انسانی شرف کے صریحاً خلاف طرز عمل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی پانچ پانچ سال کے بچوں اور بچیوں کو پیلٹ گن کے چھروں سے دائمی نابینا کر رہا ہے، کیا کوئی باپ اور دادا ایسا کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں! انسانیت اور انسانی شرف و عزت سے ناآشنا جناب نریندرمودی صاحب اب کشمیر پر دہلی میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر تو ہمارا ہے ہی، پاکستان کا آزاد کشمیر بھی ہمارا ہے اور بلوچستان پر بھی بات ہو گی۔ واہ واہ! بات واضح ہو گئی کہ بلوچستان میں آگ بھی مودی کی بھڑکائی ہوئی ہے اور ہمارے یہاں جو لوگ را کے ساتھ ہم آواز ہیں وہ درحقیقت مودی کے ہم آواز ہیں۔ مودی جب بے خاندان انسان ہے تو مقبوضہ کشمیر میں خاندان کی تباہی کا ایسے انسان کو کیا احساس ہو سکتا ہے؟ لہٰذا وہ آگے بڑھ کر آزاد کشمیر اور بلوچستان ہی نہیں سارے پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ انہیں کون بتلائے کہ تمہارے روحانی سیاسی والد گرامی پنڈت جواہر لعل نہرو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو یو این لے کر گئے تھے۔ یو این میں یہ مسئلہ آپ کے بڑوں کی ڈھٹائی سے حل نہیں ہوا۔ شملہ میں اندرا گاندھی نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا تھا کہ ہم باہم مل کر حل کریں گے، 45سال بیت گئے باہم بھی حل نہیں ہوا لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ یہ حل ہو گا تو بین الاقوامی فورم پر ہی حل ہو گا۔ میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ میری ذمہ داری ہے، اسے یو این میں اٹھائوں گا اور حل کروں گا... میاں صاحب! آپ کا ہم منصب انسانی رشتوں کی خوشبو سونگھنے کی قوت سے محروم ہے، آپ ماشاء اللہ مالا مال ہیں، کشمیر کے ہر بزرگ، بھائی اور بہن کے بھائی بن کر آگے بڑھئے، جوانوں کے باپ اور مریم کی ہم عمر خواتین کے باپ بن کر آگے بڑھئے۔ کشمیری بچوں کے دادا اور نانا بن کر آگے بڑھئے، وزارت رائے شماری برائے مقبوضہ جموں و کشمیر قائم کیجئے، پارلیمنٹ سے باہر کی مؤثر جماعتوں سے بھی تعلق داری زندہ کر کے اپنے والد گرامی کی بات کو پورا کیجئے، جس طرح باپ اور دادا بچوں کی حفاظت کے لئے میدان میں آتا ہے۔ مودی جیسے موڈی اور بقول مجید نظامی انسانیت کے موذی کے لئے اس طرح بین الاقوامی میدان میں آئیں گے تو تب کشمیر آزاد ہو گا اور ضرور ہو گا ۔ (ان شاء اللہ)