"AHC" (space) message & send to 7575

K-2 کی چوٹی پر… پاکستان زندہ باد

اخبارات پڑھنے کی عادت چھٹی جماعت سے ہی پڑ گئی تھی۔1974ء کی بات ہے، نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ایک شہ سرخی تمام اخبارات میں مشترک تھی۔ ''وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہنزہ کی ریاست کو پاکستان میں ضم کر لیا‘‘ تب سے 42سال بعد آج میں اسی ہنزہ وادی کے شہر کریم آباد میں ہوں۔ کریم آباد ضلع ہنزہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ کریم آباد کے بعد ''پاسو‘‘ کی وادی انتہائی حسین اور کشادہ ہے۔ یہاں سے دائیں جانب انتہائی بلند اور سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سے ایک راستہ ''شمشال‘‘ میں جاتا ہے۔ 50کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شمشال ایک ایسا گائوں ہے جو چین کے بارڈر سے جا ملتا ہے۔ یہاں پاکستان اور چین کے درمیان قدرتی بارڈر ''دریائے شکسگم‘‘ بناتا ہے۔ یہ دریا K-2 کی ڈھلوانوں سے بہہ کر یہاں آتا ہے۔ آگے بڑھتے بڑھتے یہ دریا چین کے صحرائی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ویسے تو K-2پہاڑ کی چار سمتوں میں سے تین سمتیں پاکستان میں ہیں اور چوتھی یعنی شمالی سمت ہمارے دوست چین میں ہے۔ جہاں تک دریا کا تعلق ہے وہ ہمارے علاقے میں شروع ہو کر اور یہاں بہ کر سارے کا سارا چین میں چلا جاتا ہے تو یہ دریا کی مرضی ہے اور دریا اللہ کی مرضی کا پابند ہے۔ اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ دریائے شکسگم بھی پاک چین دوستی میں خوبصورت اور حسین رنگ بھرتا رہے۔ پیرسید ہارون علی گیلانی اور مجھ میں پاک چین دوستی کی طرح کچھ محبت اور دوستی زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ پیر صاحب کے چچا اور دادا ان علاقوں میں آ کر مارخور کا شکار کرتے رہے ہیں۔ پیر صاحب آج کل مودی کے نظریات کا شکار کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ یہاں گلگت میں بھی انہوں نے اتحادِ امت اور ''ہم سب پاکستان ہیں‘‘ کے عنوان سے جلسے کا انعقاد کر دیا ہے۔ جلسے میں جانے سے قبل محترم پیر صاحب نے رحمت اللہ سے ملوایا اور کہنے لگے، حمزہ صاحب! شمشال کے اس شیر کی داستان سنئے۔ شاید کہ آپ کے قلم سے اس پر اللہ کی رحمت ہو جائے۔ اس حقدار کو اس کا حق مل جائے۔
رحمت اللہ کے والد کا نام شمبی خان ہے۔ یہ شمشال کے نمبردار ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا انہیں شوق تھا۔ باپ سے ہی بیٹے رحمت اللہ کو بھی شوق پیدا ہوا۔ بیٹا اپنے باپ کی رہنمائی میں شوق پورا کرتا رہا اور پھر 2014ء میں اٹلی کی کمپنی "EV-K2-CNP" نے پاکستان کے کوہ پیمائوں کو K-2سر کرنے پر ابھارا۔ تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا اور میرٹ پر گلگت بلتستان کے آٹھ کوہ پیمائوں کو منتخب کیا گیا جن میں سے چھ کوہ پیما 26جولائی 2014ء کو چوٹی پر پہنچے، مگر ان میں سے رحمت اللہ کا کام سب سے نمایاں اور ممتاز ہے اس لئے کہ:
ادارے کے سربراہ مسٹر اگسٹینو اٹلی سے خود یہاں آئے، اپنے ساتھ کوہ پیمائی کا ایک خصوصی آلہ ''ڈیوائس‘‘ لائے اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ K-2کی درست پیمائش پاکستانیوں کے ہاتھوں سے ہو اس لئے کہ K-2پہاڑ انہی کے وطن کا ہے۔ اب یہ ڈیوائس میرے حوالے کر دی کہ (ان شاء اللہ) رحمت اللہ بہرصورت چوٹی سر کر لے گا۔ رحمت اللہ مجھے بتلا رہے تھے کہ پہاڑ چڑھنے کے لئے خاص اوزار اور خصوصی رسیاں ہوتی ہیں۔ میخوں کو چٹانوں اور سخت برف میں ٹھونکا جاتا ہے۔ رسیاں باندھی جاتی ہے اور پھر ان رسیوں کے ذریعے اوپر چڑھا جاتا ہے۔ K-2کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ یہ کام ہم پاکستانیوں نے کیا جبکہ انتہائی مہارت کا یہ کام پہلے غیر ملکی ہی کیا کرتے تھے۔ K-2سر کرنے کے لئے ہم اس کے ''بیس کیمپ‘‘ میں پہنچے۔ یہاں سے اگلے یعنی (Advanced Base Camp) میں پہنچے۔ میں نے ان دونوں کیمپوں کی پیمائش بھی کر لی۔ اب ہم نے پہاڑ پر رسیاں باندھ کر سیدھا اوپر چڑھنا تھا۔ پہاڑ کو سر کرنے کے لئے آرام اور بہتر موسم کے انتظار کے لئے چار کیمپ بنائے گئے ہیں۔ میں نے ہر کیمپ سے دوسرے کیمپ کے درمیان فاصلے کی درست پیمائش کر لی تو اب چوتھے کیمپ پر سے چوٹی پر جانے کا مرحلہ آ گیا۔ موت تو نہ جانے کتنی بار ہمیں چھو کر دور جا کھڑی ہوئی مگر کیمپ 4سے چوٹی تک تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنا تھا اور یہ سب اللہ کی مدد کے ساتھ تھا۔ اللہ کا نام لیتے ہوئے چڑھتا گیا۔ کیمپ 4سے چوٹی تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ فاصلہ 611میٹر ہے جبکہ میری پیمائش سے یہ فاصلہ غلط ثابت ہوا۔ درست فاصلہ 859میٹر ہے۔ یعنی 248میٹر زیادہ ہے۔ اب اس غلطی کی وجہ سے کوہ پیما اپنی ضرورت کے سامان کی کمی وغیرہ کا شکار ہو جاتے تھے اور واپسی پر اموات ہو جاتی تھیں۔ میری پیمائش کے مطابق اب کیمپ 5بھی بنانا ہو گا۔ یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے جس کا کام اللہ نے مجھ سے لیا۔ ایک اور امتیازی خصوصیت عرض کر دوں کہ نیپال کے کوہ پیمائوں کی 25رکنی ٹیم بھی ہمارے ہمراہ تھی مگر ہماری بندھی رسیوں کو استعمال کر کے چڑھ رہی تھی۔ ان کا تعلق نیپال کی بہادر قوم ''شیرپا‘‘ سے ہے۔ انہوں نے کیمپ 3سے آگے آکسیجن ماسک کا استعمال کیا تھا۔ ہم نے نہیں کیا تھا، جب انہوں نے ہم لوگوں کو چوٹی پر بغیر ماسک کے دیکھا تو حیران اور خوش ہو کر K-2کی چوٹی پر ''پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا اور پاکستانیوں کی جفاکشی کو سلام کیا۔ 
رحمت اللہ بیگ بتلائے جا رہے تھے کہ کیمپ 4سے میں نے رات آٹھ بجے چڑھنا شروع کیا۔ ٹارچوں کی روشنی میں رسیاں باندھ کر چڑھتے چلے گئے۔ موسم صاف تھا، آسمان پر تاروں کا عجب منظر تھا۔ ایسی جھلمل زمین پر زندگی میں نہیں دیکھی۔ اللہ کی قدرت اور اس کی عظمتوں کے عجب نشانات تھے۔ آخرکار متواتر 19گھنٹے رسیوں کے ساتھ چڑھائی کے سفر کے بعد جب میں نے چوٹی پر قدم رکھا تو اللہ اکبر کہا۔ اللہ کا ایک ایک قدم پر شکر ادا کیا کہ اسی کی مدد سے یہاں پہنچا۔ یہاں چوٹی پر اس قدر شدید سردی ہوتی ہے اور ہڈیوں کے اندر گودے کو بھی برف بنا دینے والی اس قدر تیز ہوا ہوتی ہے کہ کوہ پیما چوٹی پر پہنچتے ہی فوٹو بنواتے ہیں اور فوراً اتر جاتے ہیں اور بعض تو فوٹو بنوانے کی بھی ہمت نہیں رکھتے اور واپس اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کی مدد کہ موسم صاف تھا، میں ایک گھنٹہ یہاں ٹھہرا۔ سب سے پہلے اللہ کے حضور سجدے میں گرا پھر برف کے گلیشیر پر دو زانو ہو کر اللہ کے دربار میں بیٹھ گیا اور خوش ہو رہا تھا کہ دنیا کے سات ارب انسانوں میں اس وقت میں واحد آدمی ہوں جو اپنے اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ پاکستان اور اہل پاکستان کی سلامتی کی دعائیں کیں۔ اب میں کھڑا ہوا اور پاکستان کا پرچم لہرایا۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا کہ میرے ملک کا پرچم تاقیامت سربلند رہے۔ پھر میں نے برف کے گلیشیر کی پیمائش ایک آلے "Snow Prob Pool" سے کی۔ اس آلے کی چوڑائی اڑھائی میٹر یعنی کوئی آٹھ فٹ ہے۔ اللہ نے یہ کام بھی مجھ سے لیا۔ اسی طرح میں نے لائیکا کمپنی کی بنی ہوئی ڈیوائس سے پہاڑ کی پیمائش کی تو یہ پیمائش 8609.57 میٹر سامنے آئی جبکہ اس سے پہلی مشہور پیمائش 8611میٹر تھی۔ یوں اڑھائی میٹر اور سات پوائنٹ بلندی کم سامنے آئی۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کا کام اللہ تعالیٰ نے مجھ سے لیا۔
قارئین کرام! ان خصوصیات کی بنیاد پر میں حکومت پاکستان سے گزارش کروں گا کہ رحمت اللہ بیگ کے اس کارنامے کی وجہ سے انہیں صدارتی ایوارڈ کا حقدار بنایا جائے۔ یاد رہے 2013ء میں ثمینہ بیگ خاتون کو مائونٹ ایورسٹ چوٹی سر کرنے پر جو صدارتی ایوارڈ دیا گیا، یہ خاتون بھی شمشال کی ہے اور رحمت اللہ بیگ کی عزیزہ ہے۔ ایورسٹ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے لیکن آسان ہے۔ K-2دوسری بڑی دنیا کی چوٹی ہے لیکن مشکل ترین ہے۔ ہم کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، والی بال وغیرہ جیسے کھیلوں پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن کوہ پیمائی پر ایسا نہیں ہے، حالانکہ یہ مشکل ترین ہے اور ڈیفنس میں اہم ترین ہے۔ شمال کے پہاڑی علاقوں کے دفاع میں کیل کانٹے، رسیاں اور پہاڑ کی چوٹیاں سر کرنا دشمن کے خلاف دفاع کا حصہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی حدیث کے مطابق ایک بکریاں چرانے والا جب پہاڑ کی چوٹی پر اکیلا ہی اللہ اکبر کہہ کر اذان دیتا ہے اور پھر نماز میں سجدہ ریز ہوتا ہے تو حضورﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرشتوں کے سامنے خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔‘‘ (ابودائود) صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان ہمارے شمالی علاقے کے شیر شمشال کے رحمت اللہ بیگ کو بھی میرٹ کی بنیاد پر خوش کریں تاکہ سول نوجوانوں اور پاک فوج کے جوانوں میں کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہو۔ یوں اللہ کی رضا اور خوشی دوہری ملے گی۔ بلندی پر اللہ کی عبادت اور ملک کا دفاع۔ (سبحان اللہ) رحمت اللہ کی داستان سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بھی K-2کی چوٹی پر ہوں اور کہہ رہا ہوں، اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں