بچہ جانور کا بھی ہو بڑا خوبصورت لگتا ہے، پانڈے کا بچہ، خرگوش کا بچہ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ شیر اور چیتے کے بچے بھی معصوم اور بڑے خوبصورت لگتے ہیں، اونٹ، گھوڑے اور گائے کے بچے جب دوڑتے ہیں تو کیا حسین سماں باندھتے ہیں۔ ہرن کا بچہ جب چوکڑیاں بھرتا ہے تو کس قدر بھلا لگتا ہے... انسان کا بچہ ...اس کے حسن کی تو کیا ہی بات ہے۔ میرے حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے کیا خوب فرمایا کہ ''ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، مسیحی، مجوسی اور مشرک (بت پرست) بناتے ہیں(بخاری، مسند احمد) جی ہاں! میرے حضورﷺ نے تمام انسانوں کو پیغام دے دیا کہ بچے کو اپنی مذہبی عینک کے ساتھ نہ دیکھنا۔ بچے کو بس بچے کی حیثیت سے دیکھنا اور اس کے ساتھ پیار اور الفت کا رویہ اختیار کرنا۔ میرے حضورﷺ چونکہ رحمۃ للعالمین ہیں لہٰذا آپ بچوں کے لئے انتہائی مہربان ہیں۔ اس قدر مہربان کہ حال اور مستقبل میں آنے والے بچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ماضی میں گزرے ہوئے بچوں کے ساتھ بھی مہربانی اور شفقت بھرے خیالات کا اظہار فرمانے والے ہیں۔
قارئین کرام! قوموں میں ایک نمایاں قوم بنی اسرائیل کی قوم ہے۔ اسرائیل کے معنی ''اللہ کا بندہ‘‘ ہیں۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ لقب بھی ہے چنانچہ ''بنی اسرائیل‘‘ کا معنی ہوا حضرت یعقوب علیہ السلام کے بچے، جی ہاں! وہ قرآن جو میرے حضورﷺ پر نازل ہوا اس میں ''سورۃ بنی اسرائیل‘‘ موجود ہے یعنی سورت کا نام ہی بچوں کے نام پر ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا ایک پیارا اور لاڈلا سا بچہ یوسف اپنے ہی سوتیلے بھائیوں کے ہاتھوں اغوا ہوا اور فروخت ہوتا ہوا مصر جا پہنچا۔ یہ بچہ بڑا ہو کر بادشاہ بن گیا تو یعقوب علیہ السلام کی اولاد مصر میں خوب پھیل گئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس اولاد کے بچوں کو فرعون قتل کرنے لگ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو بچانے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجنے کا فیصلہ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام شیرخوارگی میں یوں بچ گئے کہ ماں نے ننھے موسیٰ کو صندق میں بند کر کے دریائے نیل کی نذر کر دیا۔ وہاں سے صندوق محل کے ساتھ جا لگا، ملکہ آسیہ نے اس صندوق کو منگوا کر کھولا تو ننھا موسیٰ سکون سے لیٹا ہوا تھا۔ ننھا مسکرایا ہو گا تو آسیہ ننھے موسیٰ کی مسکراہٹ دیکھ کر دل کا سکون بچے پر لٹا بیٹھی اور اسے اپنی گود میں پالنے کا فیصلہ کر لیا۔ بڑا ہو کر اسی بچے نے بچوں کو فرعون کے ظلم سے بچایا۔ بچوں کا قاتل فرعون جب بحرِاحمر میں ڈوب رہا تھا تو حضرت جبریلؑ نے وہ منظر رحمۃ للعالمین کو بتلایا کہ اگر آپﷺ وہ منظر ملاحظہ کرتے تو دیکھتے کہ میں نے فرعون کے منہ میں سیاہ گارا ٹھونس دیا۔ ڈر اس بات کا تھا کہ یہ کلمہ پڑھ رہا ہے کہیں اللہ کی رحمت اس (بچوں کے قاتل) کو اپنے دامن میں نہ چھپا لے۔ (ترمذی)
یعنی بچوں پر ظلم کرنے والے کے لئے حضرت جبریلؑ کے دل میں بھی رحمت کا کوئی خانہ نہیں۔ اسی لئے رحمۃ للعالمین اپنے کمانڈروں کو وصیت فرماتے تھے، خبردار! کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا (مسلم)
قارئین کرام! غور فرمایئے، ہمارے حضورﷺ کا دیا ہوا دین یہود کے بچوں پر رحمت کے تذکرے کرتا ہے مگر آج کا یہودی میرے حضور کی امت کے بچوں کو قتل کرتا ہے۔ ایریل شیرون جو اسرائیل کا وزیر دفاع تھا۔ خود اپنے پسٹل سے فلسطینی بچوں کو قتل کرتا تھا۔ جب وہ وزیراعظم بنا تو چن چن کر فلسطینی بچوں کو مارا۔ لبنان کی جنگ میں جس بلڈنگ میں بچے چھپا کر رکھے گئے تھے وہاں حملہ کر کے 80بچوں کو شہید کر دیا۔ بچوں کا قاتل یہ یہودی فرعون آٹھ سال تک بے ہوشی کی حالت میں بستر پر پڑا رہا۔ اس کا وجود بدبودار ہو گیا تھا۔ گھر والوں نے اسے رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہسپتال والوں کی مجبوری تھی جس وارڈ میں تھا، اس میں اس بدبودار کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں وہاں جاتے تو جلدی سے واپسی کو دوڑ لگا دیتے۔ یہ چند ماہ پہلے مرا تو ہسپتال کی انتظامیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ جی ہاں! اسی اسرائیل کا تعاون اور مشورے اب مودی کو حاصل ہیں اور مودی بھی اس وقت کشمیر کے بچوں کو قتل کر رہا ہے۔ لڑکے تو بڑی تعداد میں اغوا اور پھر قتل ہو رہے ہیں جبکہ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دس سال کا بچہ مؤمن اغوا ہوتا ہے اور پھر پیلٹ گن کے چھروں سے چھلنی کی ہوئی اس کی لاش ماں باپ کو ویرانے سے ملتی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ انسان کا بچہ تو حسن کا شاہکار ہوتا ہے اور پھر بعض علاقوں کے بچے عام بچوں سے کچھ زیادہ ہی حسین ہوتے ہیں۔ فلسطینی بچے بھی ایسے انتہائی حسین بچوں میں شامل ہیں اور کشمیری بچے بھی ایسے ہی انتہائی خوبصورت بچوں میں شامل ہیں۔ چناروں اور سیبوں کے دیس میں، جھیلوں، جھرنوں، آبشاروں اور باغوں کے باسی بچے جو رخساروں پر سیبوں جیسی سرخی لئے ہوتے ہیں وہ آج انڈیا کی ظالم فوج کے ہاتھوں چھرے دار پیلٹ گن سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں، رخسار اور گلابی ہونٹ خون رنگ ہو رہے ہیں۔
آفرین اور کروڑوں بار خراج تحسین ہے مؤمن بچے کی ماں پر کہ وہ اپنے پیارے بچے کی چھلنی چھلنی اور چھیدی چھیدی لاش... ہاں ہاں! کہ جب غسل اور کفن کے بعد اس کے سامنے آتی ہے تو وہ سبز رنگ کی پٹی اس کے ماتھے پر باندھتی ہے۔ اس پٹی پر کلمہ لکھا ہوا ہے۔ آسیہ اندرابی کی تنظیم ''دختران ملت‘‘ کی ایک کارکن مومن کی ماں کو یہ پٹی دیتی ہے اور وہ اسے اپنے لال کے ماتھے پر باندھ کر پاکستان کے20کروڑ مسلمانوں کو پیغام دیتی ہے کہ ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پھر باپ آگے بڑھتا ہے، اسے سید علی گیلانی، مسرت عالم، شبیر شاہ، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی جماعت کا کوئی کارکن پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تھماتا ہے۔ وہ اسے اپنے نورنظر کے جسم پر ڈال دیتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ پھر جنازہ اٹھتا ہے اور جنازگاہ تک یہی نعرے گونجتے رہتے ہیں جب میت کو جنازگاہ میں رکھا جاتا ہے، امام کھڑا ہو جاتا ہے اور لاکھوں کشمیری صف بستہ ہو جاتے ہیں تو اب ایک اور سبز ہلالی پرچم چارپائی کے سامنے پھیلا دیا جاتا ہے تاکہ جب جنازے کی تصویر پاکستان پہنچے تو شہید مؤمن کی پیشانی، اس کا وجود اور چارپائی کا فرنٹ زبان حال سے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا نظر آئے۔ ساری کشمیری قوم کا آج یہی انداز ہے۔ اس سے بڑی رائے شماری کیا ہو گی؟ اہل کشمیر کا جو والہانہ اور دلیرانہ انداز ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں مودی کی حمایت میں پاکستان کے خلاف جو بول بولا جاتا ہے ایسے بول کو بند کر دیا جائے۔ ایسی آواز کو وجود سمیت بھارت کے سپرد کر دیا جائے جو جہاں کا خمیر ہے اسے وہیں پہنچا دیا جائے۔ اہل کشمیر کا خمیر پاکستان میں ہے پورا پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ کھڑا ہو جائے، بچوں کا جو قاتل ہے، وہ آج کا فرعون ہے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کب اور کیسے غرق ہو گا مگر میرا ایمان یہی ہے کہ جلد غرق ہو گا اور ضرور ہو گا اور عبرتناک طریقے سے ہو گا۔ مصر کا فرعون بھی بچے کی نعمت سے محروم تھا اور آج کا فرعون بھی بچے کی نعمت سے محروم ہے۔ بچوں کی نعمت سے محروم مودی کو اپنے پیشرو کا حشر یاد رہنا چاہئے۔