اللہ کے رسولﷺ نے اپنا کلمہ پڑھنے والوں کو نصیحت فرمائی کہ ''دشمن سے جنگ کرنے کی خواہش مت کرو، جنگ ہو جائے تو ثابت قدمی سے لڑو‘‘۔ یاد رکھو! جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔(بخاری:2861ء)
جی ہاں! انسانوں کے لئے رحمت بن کر آنے والے رسول گرامی حضرت محمد کریمﷺ نے اپنے فرمان سے واضح کر دیا کہ امن ایسی نعمت ہے کہ خواہش اور تمنا اسی کی ہونی چاہئے اور جنگ ایسی خوفناک حقیقت ہے کہ اس کی تمنا نہیں کرنی چاہئے۔ لامحالہ جنگ میں جوان مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ ہوتی ہیں، بچے یتیم ہوتے ہیں، مرنے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ زخمی ہوتے ہیں۔ اموال تباہ و برباد ہوتے ہیں، لہٰذا جو شے انسانیت کے لئے تباہی لائے اس کی خواہش اور تمنا کرنا ہمارے پُررحمت رسولﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جنگ مسلط ہو جائے تو پھر ڈٹ جائو، بہادری سے لڑو، جرأت و استقامت کاپہاڑ بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ جو حق کی خاطر لڑتا ہوا شہید ہو گا سیدھا فردوس میں جا سانس لے گا۔ وہاں کا سانس سبحان اللہ اور الحمدللہ ہو گا۔ (بخاری) بحمداللہ میرا پاکستان، اس کی پاک افواج اسی پالیسی پر گامزن ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں راجیو گاندھی نے پاکستان کے خلاف جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور افواج کو بارڈر پر منتقل کرنا شروع کیا تو جنرل صاحب کرکٹ میچ کے بہانے انڈیا پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے راجیو کے کان میں ایک جملہ کہا اور پھر جنگ کی باتوں کو شکست ملنا شروع ہو گئی اور امن کی راہ کھلنا شروع ہو گئی۔ 2001ء میں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر فوج لا کھڑا کی، لیکن جنگ ہوتے ہوتے ٹل گئی، پاکستان نے تب بھی امن پسندی کا کردار ادا کیا۔ کانگریس کے ہی دور میں بمبئی کا واقعہ ہو گیا تو انڈیا نے پاکستان کو موردالزام ٹھہرا کر جنگ کی دھمکی دے دی اور فوجوں کو بارڈر پر اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔
پاکستان نے دوبارہ جنگ سے پہلو بچانا شروع کر دیا، یوں تیسری بار بھی پاکستان کی کوششوں سے امن کو فتح ملی اور جنگ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایسا صرف اور صرف پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ حالیہ تاریخ میں اب چوتھی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی ہی کے انتہا پسند وزیراعظم مسٹر نریندر مودی نے اُڑی کے واقعہ پر پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے کا عندیہ دینا شروع کر دیا ہے۔ تیاریاں عروج پر ہیں، فوجوں کو بارڈر پر اکٹھا کرنے کا آغاز کر دیا ہے مگر اس بار صورت حال مختلف ہو چکی ہے یعنی ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم نے تو امن کی راہ پر اس قدر اپنی فاختہ کو اڑایا کہ ہمارے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف صاحب نے اپنی نواسی کی شادی پر بھی مودی کو بلا لیا۔ ان کی والدہ کے لئے ساڑھیوں کا تحفہ بھی بھجوا دیا۔ ایک تیسرے ملک میں مودی نے میاں نوازشریف صاحب کو اپنے ہوٹل میں دعوت پر بلایا تو اپنے کمرے کے دروازے پر بھی استقبال نہ کیا بلکہ اپنی نشست گاہ سے کھڑے کھڑے ہی ہمارے میاں صاحب سے مصافحہ کیا۔ ہمارے وزیراعظم نے مہمان نوازی کی راہ میں اس بے ادبی کو بھی نظرانداز کر دیا۔ امن کی خاطر مودی کے متکبرانہ موڈ کو بھی بحرِہند میں ڈبو دیا۔ ہمارے وزیراعظم نے امن کی خاطر یہاں تک کیا کہ پٹھانکوٹ کے واقعہ کا مقدمہ بھی گوجرانوالہ میں درج کروا کر متکبر مودی کو امن کی خواہش کا پیغام دیا۔ عاجزی اور تواضع کا اظہار کیا تو محض امن کی خاطر کیا مگر مسٹر مودی نے اپنی جنگجویانہ بڑھکوں سے یہی بتلایا کہ میں مودی بھی ہوں اور موذی بھی ہوں۔
قارئین! میں عرض کر رہا تھا کہ اس بار یعنی چوتھی بار صورتحال مختلف ہو چکی ہے۔ حکومت پاکستان اور پاک فوج نے دشمن کی غلط فہمی کو دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے کی روش کا ازالہ کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے چنانچہ پاک فوج کے دلیر اور بہادر سالار نے مودی، را اور اس کے ہمدردوں کو واضح پیغام دیا کہ ہم دوستی کو نباہنا بھی جانتے ہیں یعنی جس طرح تم لوگ گھر آئے مہمان کو موڈ دکھلاتے ہو ہمارا رویہ ایسا نہیں ہے، ہماری تہذیب ایسی نہیں ہے۔ہم اپنی قدروں اور اعلیٰ روایات کے امین اور پاسبان ہیں لہٰذا اگر اخلاص سے دوستی کی راہ پر آئو گے تو دوستی نبھائیں گے اس کے برعکس اگر ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر دشمنی کی بات کرو گے تو ہم ایسی دشمنی کا قرض چکانا بھی جانتے ہیں۔ 1971ء کا قرض اب پاک فوج کے ہر جوان اور ہر پاکستانی کے دل میں ہلچل مچا رہا ہے کہ اسے چکا دیا جائے تاکہ مودی جیسا موذی آئندہ ڈھاکہ میں جا کر طعنہ نہ دے۔ اسی طرح میاں محمد نوازشریف نے بھی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے زبردست مدلل خطاب کر دیا۔ مودی نے بطور وزیراعظم ہندوستان اگلے دن اس خطاب کا جواب دینا تھا مگر دلائل اور برہان کے عالمی میدان میں مودی نے نہ جانے کا فیصلہ کر کے دنیا کو بتلا دیا کہ وہ اس میدان میں پاکستان کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہے البتہ جنگ کے میدان میں ہی کودتا رہے گا اور دھمکیاں دیتا رہے گا۔
میاں نوازشریف نے لاہور سے پشاور تک موٹروے بنایا، واہگہ بارڈر پر واقع گیٹ اور عمارتوں کو وسیع کیا، روڈ اچھا بنایا، فیروز پور روڈ کو بھی گنڈا سنگھ بارڈر تک دو رویہ اور اشارہ فری بنا دیا تاکہ دونوں راستوں سے انڈیا کے ساتھ تجارت ہو۔ ہمارے مخلص وزیراعظم ان کے ساتھ تجارت کے راستے بناتے اور ہموار کرتے رہے۔ وہ جواب میں ہمارے دریائوں پر ڈیم بناتے چلے گئے تاکہ جنگ کے دوران ان کو سیلاب سے ڈبو دیا جائے یا خشک سالی سے پاکستان کے شاداب علاقوں کو صحرا میں بدل دیا جائے۔ اس بات کا محبان وطن شور مچاتے رہے مگر آج مودی نے اپنے اسی منصوبے کا اظہار کر دیا ہے۔ جو کینہ دل میں چھپا تھا اسے اگل دیا ہے۔ موٹر وے بنانے پر میں پہلے بھی میاں صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا آیا ہوں مگر آج دوہرا خراج تحسین پیش کروں گا کہ یہی موٹروے لاہور سے لیکر پشاور تک بمبار طیاروں کا رن وے بن گیا۔ راشد منہاس کے وارث شاہینوں نے یہاں سے پروازیں بھریں، ان کی اڑانوں نے جنگ کی دھمکیاں دینے والوں کے دلوں کی ہوائیاں اڑا دیں، یوں موٹروے پاکستان کا ڈیفنس وے بن گیا۔ یہ جی ٹی روڈ کا متبادل روڈ بھی ہے۔ جی ٹی روڈ کی نسبت پاکستان کی گہرائی میں بھی ہے اور سینکڑوںکلومیٹر کا رن وے بھی ہے۔ میاں صاحب نے اگر ڈیفنس اور تجارت کو مدنظر رکھ کر بنایا تو ان کے ویژن کو چارچاند اور اگر صرف تجارت کی غرض سے بنایا تب بھی ان کا کارنامہ شاندار ٹھہرا کہ اس کارنامے نے بھارتی جنگجو شکروں کو مجبور کر دیا کہ اپنے موڈ کی اصلاح کریں۔
پاک فوج کے ''ضرب عضب‘‘ کو بھی سلام اور سلیوٹ کہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ تین برسوں میں ملک کے اندر جو مذہبی اور سیاسی دہشت گرد تھے اور ان کے تانے بانے انڈیا کے ساتھ تھے، ملک کو بڑی حد تک ان سے پاک بھی کر دیا اور ان کے مکروہ عزائم کو چاک بھی کر دیا۔ گھر کی اصلاح کے بعد اب پاکستان اس قابل ہو گیا کہ دلاوروں اور شاہینوں کا سالار واضح پیغام دے کہ تم باز نہیں آتے تو آ جائو، ہم تیار ہیں۔ الحمدللہ! پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہو گئی، سیاستدان اور دینی رہنما بھی اختلافات بھلا کر یکجان ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مودی کا موڈ آف ہو گیا اور اب جناب والا گفتگو کرتے ہیں تو غربت کے خلاف جنگ کی بات بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی کیا ہے کہ ہندوستانی نیتائوں نے مودی کو بتلایا ہے کہ آپ کے تجزیے کے مطابق کشمیر کے پانچ فیصد لوگ اس وقت تحریک چلا رہے ہیں۔ یہ سارے نوجوان ہیں اور ان میں سے کئی فائٹرز بھی ہیں۔ ایک کروڑ کی آبادی میں پانچ فیصد پانچ لاکھ بنتے ہیں۔ جنگ کی صورت میں ہندوستانی آٹھ لاکھ فوج کے عقب میں پانچ لاکھ جوان لڑنا شروع کر دیں، سامنے سے پاک فوج کا وار ہو اور اُڑی کہ جو جموں کا مضبوط ترین فوجی ہیڈ کوارٹر تھا جو اڑا دیا گیا ہے تو دوران جنگ فوجی مراکز میں نہ جانے ایسے کتنے گروپ گھس جائیں گے تب آٹھ لاکھ فوج کا کیا بنے گا؟ جی ہاں! یہ ہیں وہ باتیں جنہوں نے مودی کا موڈ ''غربت کے خلاف جنگ‘‘ کا بنایا ہے... مگر جنگ کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ چانکیہ کے پیروکار کہ ''بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘‘ ان کا وتیرہ ہے۔ لہٰذا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جنگ نہ ہوتے ہوتے بھی ہو جائے۔ بدر میں چودہ سو سال پہلے بھی یہی ہوا تھا کہ مسلمان بھی جنگ نہ چاہتے تھے، مشرکین مکہ ابوجہل کی قیادت میں تکبر کے ساتھ آئے تھے۔ ایک موقع پر جنگ سے بچنا بھی چاہتے تھے۔ مگر انا کا مسئلہ سامنے آ گیا اور پھر جنگ ہو گئی۔ نتیجہ یہی نکلا کہ متکبروں کا غرور خاک میں مل گیا۔ ہو سکتا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی آہیں بدر کا سماں پیدا کر دیں، مگر اس بار یقینی امر ہے کہ نہ صرف کشمیر آزاد ہو گا بلکہ انڈیا بھی سالم نہیں بچے گا۔ (ان شاء اللہ)