اللہ اور اس کے عالیشان رسولؐ پر ایمان کے بعد اسلام کا دوسرا اہم ترین رکن نماز ہے۔ نماز کے اوقات کا تعلق آفتاب سے ہے۔ قرآن نے اپنے ماننے والوں کو ہدایت کی ہے کہ آفتاب طلوع ہونے سے قبل اور غروب سے پہلے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ اس ذکر کو صبح و شام کے اذکار کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ، صحابہ اور اہلِ بیت یہ اذکار تسلسل کے ساتھ کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد صبح کا جو پہلا ذکر ہے اس میں ایک مسلمان اپنے اللہ سے کچھ یوں فریاد کرتا ہے... ''میں نے بھی اللہ کی خاطر صبح کر لی اور کائنات کے ایک حصے نے بھی اللہ کی خاطر صبح کر لی۔ اللہ کا شکر ہے... اے اللہ! اس صبح میں جو خیر ہے اور اس کے بعد جو بھلائی ہے میں اس کا سوال کرتا ہوں اور اس صبح میں جو شر اور دہشت ہے اور اس کے بعد جو وحشت ہے میں اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ یہ ہے ایک مسلمان کا کردار کہ وہ ہر روز صبح ہوتے ہی اپنے اللہ سے امن و سلامتی کا خواستگار ہوتا ہے اور جب شام ہونے لگتی ہے تو سورج کے غروب ہونے سے پہلے پہلے اپنے اللہ سے رات بھر کا امن مانگتا ہے اور دہشت و شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ جو شخص صبح و شام ایسا ورد کرے وہ اگر دہشت گرد بنتا ہے تو اس نے قرآن اور حدیث کے پیغام کو جھٹلا دیا ہے۔ جی ہاں! مومن تو وہ ہے جو آفتاب کے ساتھ وابستہ 24 گھنٹوں میں اپنا کردار امن اور سلامتی کا پیش کرتا ہے۔
اسلام کا دوسرا رکن''روزہ‘‘ ہے۔ اس کی ادائیگی کا تعلق ماہتاب یعنی چاند سے ہے اور آفتاب سے بھی ہے۔ رمضان کے مہینہ کا آغاز چاند یعنی ہلال دیکھ کر ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ اپنے صحابہ کے ہمراہ جونہی ہلال دیکھتے تو اللہ کو مخاطب کرکے یوں دعا مانگتے: ''اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن اور ایمان کے ساتھ روشن کیے رکھنا۔ سلامتی اور اسلام کے ساتھ منور کیے رکھنا۔ اے چاند! میرا رب بھی اللہ ہے اور تیرا رب بھی اللہ ہے‘‘ قارئین کرام! سال کے 12 مہینے ہیں۔ ہر قمری مہینے کا ہلال دیکھ کر جب ایک مسلمان مندرجہ بالا مسنون دعا مانگے گا تو وہ سارا سال کس طرح بدامنی چاہے گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو شخص بدامنی پھیلاتا ہے۔ دہشت اور وحشت کا کاروبار کرتا ہے اس نے حضور رحمۃ للعالمینؐ کے پیغام کو سمجھا ہی نہیں۔ اسلام کے تیسرے رکن ''صیام‘‘ پر عمل کرنے والا‘ روزوں کا ہلال دیکھے گا تو اس میں امن کا پیغام۔ سحری کے بعد صبح کی دعا مانگے گا تو اس میں امن کا پیام اور افطاری سے پہلے شام کا ذکر کرے گا تو اس میں بھی امن کا پیغام اور جب عید کا ہلال دیکھے گا تو اس میں بھی امن کی خواہش کا احترام۔ جی ہاں! اسلام کا چوتھا رکن ''زکوٰۃ‘‘ ہے۔ یہ رکن عام طور پر رجب کے مہینے میں پورا کیا جاتا ہے۔ اس مہینے کا آغاز بھی امن کی دعا کے ساتھ ہوتا ہے‘ اور پھر اپنا مال ضرورت مند اور حاجت مند کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ معاشرہ سکون اور امن میں رہے۔ پانچواں اور آخری رکن حج ہے۔ حج کے خطبہ میں حضور نبی کریمؐ نے واضح کر دیا کہ جس طرح حج کے دن کی حرمت ہے‘ حج کے مہینے کا احترام ہے اور مکہ شہر کی حرمت ہے‘ اسی طرح ہر مسلمان مرد اور عورت کی جان اور عزت کی حرمت ہے۔ الغرض! اسلام کے پانچوں ارکان اپنے ماننے والے کو امن و سلامتی کا درس دیتے ہیں‘ اور جس نے مسلمان ہو کر اس پیغامِ امن کو نہیں سمجھا‘ اس نے اسلام اور ایمان کو نہیں سمجھا۔ یاد رہے! ایمان میں بھی امن کا پیغام ہے اور اسلام کے لفظ میں بھی سلامتی کا پیام ہے۔
امن اور سلامتی کے اس پیغام کو اللہ کے رسولؐ کے ساتھیوں نے کس قدر مشکل ترین حالات میں بھی سنبھالے رکھا‘ اس کا اندازہ قمری مہینہ کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے۔ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروقؓ نے کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کے امیرالمومنین ہیں۔ معلوم دنیا کے سب سے طاقتور ترین حکمران ہیں۔ ایک غیر مسلم ذِمّی (اقلیتی فرد) نماز کے دوران ان پر خنجروں کے وار کرتا ہے۔ شدید زخمی کر دیتا ہے۔ اپنے دور کا عظیم ترین فاتح اور مہذب ترین دنیا کا حکمران بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ منہ میں پانی ڈالا جاتا ہے تو پیٹ کے سوراخوں سے باہر نکل جاتا ہے‘ یعنی خنجر کے واروں سے انتڑیاں کٹ چکی ہیں۔ موت سامنے نظر آ رہی ہے۔ وہی موت جس کی حضرت عمرؓ نے خواہش کی تھی۔ 'اے اللہ! اپنے نبیؐ کے شہر میں شہادت عطا فرما دے‘۔ قبولیت کا وقت قریب ہے۔ لوگوں کو نظر آ رہا ہے‘ لہٰذا اُمّت کے لیے وصیت کی درخواست کرتے ہیں۔ امام بخاری اپنی صحیح میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وصیت کرتے ہوئے فرمانے لگے: ''میں تم لوگوں کو (ذمیوں کے حقوق کی پاسداری کے ضمن میں) اللہ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں (اس میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ یہ تمہارے نبیؐ کا ذِمہ ہے‘‘۔ اللہ اللہ! حضرت عمرؓ کو فکر دامن گیر ہو گئی کہ میں تو ابھی شہادت پا کر اپنے پیارے اور محبوب رسولؐ سے جا ملوں گا مگر میرے بعد مسلمان جذبات سے مغلوب ہو کر کہیں بے قابو نہ ہو جائیں۔ اقلیتوں کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دیئے ہوئے حفاظتی ذِمّہ کو توڑ نہ دیں۔ اسلام کو بدنام نہ کر دیں۔ حضورؐ کے پُرامن دین کو داغ نہ لگا دیں۔ اپنی آخرت کا نقصان نہ کر لیں۔ جی ہاں! عدلِ فاروقی آخری وقت پر یکم محرم الحرام کو بھی آفتاب و ماہتاب بن کر چمکا‘ سورج اور چاند بن کر منور ہوا۔ یہ ہے محرّم الحرام کا پیغام۔ محرم خود حرمت والا مہینہ ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح کر دیا کہ جس دن اللہ نے کائنات کو بنایا‘ اسی دن سال کے بارہ مہینے بنائے۔ چار حرمت والے بنائے۔ جی ہاں! ان چار میں سے ایک محرّم الحرام ہے۔ حج کا مہینہ سال کا آخری حرمت والا مہینہ ہے۔ حاجی حضرات واپس آئیں تو محرم کا مہینہ بھی واپسی میں ان کے امن اور حرمت کو یقینی بناتا ہے۔ اپنوں کے لیے بھی امن۔ غیروں کے لیے بھی امن۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے پاکیزہ خون کا یہی پیغام ہے۔ امن کی خوشبو ہے۔ اپنے قاتلوں کے لیے بھی یہ خوشبو کستوری سے بڑھ کر ہے کہ قصور ایک کا ہے‘ باقیوں کا نہیں ہے۔ ان کے لیے امن ہی امن ہے۔
محرّم الحرام کے اسی مہینے کی دس تاریخ کو حضرت محمد کریمؐ کے محبوب نواسے حضرت حسینؓ کی شہادت کا دن ہے۔ حضرت ابوبکرؓ سے لے کر حضرت حسنؓ تک پانچ خلفا‘ خلیفے بنے تو ان کا انتخاب امت کے لوگوں نے کیا۔ کتاب و سنت کے دستور اور انتخاب کے اس راستے کو اللہ کے رسولؐ نے ''خلافت کا نبوی راستہ‘‘ قرار دیا۔ حضرت حسنؓ نے چھ ماہ خلافت اسی نبوی راستے پر کی اور پھر اپنے نانا جان کی پیشگوئی پر عمل کر دیا۔ ننھا حسن اپنے نانا جان کی گود میں تھا۔ حضورؐ نے اشارہ کرکے صحابہ کو بتلایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ یہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا۔ جی ہاں! سرداری قربانی سے ملتی ہے اور حضرت حسنؓ نے اپنی خلافت‘ جو نبوی راستے پر تھی‘ کو قربان کر دیا اور حضرت معاویہؓ کے سپرد کر دیا۔ ان کے کردار کی سرداری رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ آخری زمانے میں امام مہدی آئیں گے تو انہی کی اولاد سے خلافت کے نبوی راستے سے حکمران بنیں گے۔ لوگ انہیں حکمران بنائیں گے۔ وہ انکار کرتے رہ جائیں گے اور لوگ اصرار کرکے اپنے اصرار پر عمل کر دکھلائیں گے۔ جی ہاں! دنیا میں بھی سرداری اور آخرت میں اس طرح سرداری کہ حضورؐ کے فرمان کے مطابق جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ دوسرے سردار ان کے چھوٹے بھائی حضرت حسینؓ ہیں۔ شیخ ناصرالدین الہانی اپنے ''صحیحۃ‘‘ میں جو حدیث لائے ہیں‘ اس کے مطابق اللہ کے رسولؐ نے ان کی شہادت کی پیشگوئی فرما دی تھی۔ ننھے حسین گود میں تھے اور چھم چھم آنسو گر رہے تھے۔ فرمایا: میری امت کے لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کریں گے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت انتہائی مظلومانہ ہے۔ ان کا جرم فقط یہ تھا کہ خلافت راشدہ کی گاڑی جو ''خلافت کے نبوی منہج‘‘ پر تھی‘ وہ اپنے ٹریک سے ہٹ رہی تھی۔ حضرت حسینؓ اس کو واپس ٹریک پر لانا چاہتے تھے۔ اسی جدوجہد میں ان کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے بڑے بھائی حضرت حسنؓ کے ساتھ جنت فردوس میں اس تخت پر جلوہ افروز ہیں جو جنت کے نوجوانوں کے سرداروں کا تخت ہے... امت کے لیے اس کردار میں سبق یہ ہے کہ امت کو امن کی شاہراہ پر لانے کے لیے اپنا کردار پیش کرتے رہیں۔ جدوجہد کرتے رہیں۔ پُرامن کوشش کرتے رہیں۔ اگر طاقتوروں کو پُرامن جدوجہد بھی راس نہ آئے اور وہ جان لینے پر آ جائیں تو یہ جان اگر بزرگ ہے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کی سرداری میں جنت کے مزے لے گی اور اگر جان جوان ہے تو حسنؓ و حسینؓ کی سرداری میں جنت کے لطف اٹھائے گی۔ اے اللہ کریم! اپنے پیارے رسولؐ کی امت کو امن عطا فرما (آمین)