"AHC" (space) message & send to 7575

نواز‘ راحیل اور گورنر سندھ

جنرل راحیل شریف61سال کی عمر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ قد آور بھی ہیں‘ خوبصورت بھی‘ وجیہ اور باوقار بھی اور اللہ کے فضل سے صحت مند بھی۔ پہلی نظر میں وہ پچاس سال کی مضبوط شخصیت دکھائی دیتے ہیں یعنی اپنی اصلی عمر سے وہ بارہ تیرہ سال چھوٹے نظر آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی ذہنی اورجسمانی صحت کے ساتھ آئندہ پندرہ سال تک کسی بھی میدان میں بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں مگر وہ تو جا رہے ہیں اور انہوں نے آٹھ ماہ قبل ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے یعنی میرٹ کو سامنے رکھیں گے اپنی مدت پوری کر کے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کر دیں گے۔''راحیل‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی یہ بھی ہے ‘ اپنا کام مکمل کر کے آگے بڑھ جانے والا۔ جنرل راحیل نے اپنے گرامی قدر والدین کے رکھے ہوئے نام کی لاج اور عزت رکھی ہے وہ اپنا کام کر کے آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان کے کام پر ان کو ہر ایک خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ سلامیاں دے رہا ہے سلیوٹ مار رہا ہے۔
ایوب خان مرحوم1965ء کی جنگ میں صدر پاکستان تھے‘ سپریم کمانڈر بھی تھے۔ راجہ عزیز بھٹی تو میجر رینک کے فوجی افسر تھے‘ شہید ہوئے اور نشان حیدر پا گئے۔ اس واقعہ کو پچاس سال بیت گئے‘ نصف صدی گزر گئی۔ میں کہتا ہوں لوگوں سے پوچھ لو۔ ایوب خان کو جاننے والا کوئی کوئی ہو گا‘ راجہ بھٹی کوجاننے والا بچہ بچہ ہے‘ پھر ایوب خان تھوڑی سی عزت اور ڈھیر ساری بدنامی کے ساتھ جانے جاتے ہیں‘ جبکہ راجہ بھٹی سو فیصد عزت و احترام کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ راجہ عزیز بھٹی جنرل راحیل کے ماموں جان ہیں۔ میں کہتا ہوں جنرل راحیل کے کندھے پر جو چار عدد ستارے لگے ہوئے ہیں‘ فور سٹار جرنیلی کے ان ستاروں میں نشان حیدر کی خوشبو اور عزت کا اثاثہ چمک رہا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جنرل راحیل اس خوشبو اور عزت کا خیال نہ کرتے۔ جنرل یحییٰ خان نے 1971ء کی جنگ لڑی‘ اس کا نام ہر کوئی نفرت‘ حقارت اور کراہت سے لیتا ہے۔ مگر 1971ء میں ہیڈ سلیمانکی سے آگے بڑھتا ہوا میجر شبیر صبونہ نہر پر جا قبضہ کرتا ہے۔ دس مربّع کلو میٹر کے قریب دشمن کا علاقہ فتح کرتا ہے‘ نشان حیدر پاتاہے۔ میجر شبیر شریف شہید کو بھی پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے عزت و احترام کے جذبات کی پلکیں بچھاتا ہے۔ مذکورہ شہید جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی ہیں۔ جنرل راحیل کے دوسرے کندھے پر جو چار ستارے چمکتے ہیں ان میں میجر شبیر شریف کی شہادت کی دمک اور چمک وہ اثاثہ ہے جس کا مبارک بوجھ جنرل راحیل کے کندھے پر ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ توسیع لے کر اس دمک اور چمک میں فرق آنے دیتے۔ انہوں نے میرٹ کا خیال رکھا۔ اپنے بعد والوں کے حق کا خیال رکھا اور آگے بڑھ گئے۔
قارئین کرام! ''شریف‘‘ عربی لفظ ہے اس کی جمع''شرفاء‘‘ ہے صاحبِ مال‘ اثرورسوخ کے حاملین‘ صاحبان اقتدار وغیرہ کو عربی میں شرفاء کہا جاتا ہے۔ یہی لفظ جب ہمارے اردو میں داخل ہوا تو اس کا عمومی مفہوم یہ بن گیا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو اور کر کچھ نہ سکتا ہو تو کہا جاتا ہے‘ بے چارہ شریف آدمی ہے۔ ہمارے میاں نواز شریف صاحب عربی زبان والے شریف ہیں انہوں نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا تو یقیناً یہ سوچ کر بنایا کہ میں عربی شریف رہوں گا اور راحیل صاحب اردو شریف رہیں گے مگر آفرین ہے راحیل شریف کے لیے کہ وہ نہ عربی شریف بنے اور نہ ہی اردو شریف بنے۔ ان کی شرافت یعنی باوقار کردار صرف اسلام اور پاکستان کے لیے تھا۔ یہ ہے وہ اثاثہ جسے وہ بچا کر گھر جا رہے ہیں۔ آنے والوں وقتوں میں جب نواز شریف صاحب کو بھی وزارت عظمیٰ چھوڑے وقت گزر رہا ہو گا تو تاریخ اپنی اس کہانی کو دہرائے گی کہ راحیل کا نام بچہ بچہ عزت سے جانے گا اور نواز شریف کا نام ان ایشوز کے ساتھ لے گا جو اک عرصہ سے میڈیا کی زینت اور زبان کا چسکا بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ یہ بتلائے گی کہ جب میاں نواز شریف سے جنرل راحیل رخصت ہو رہے تھے تو انہی دنوں میاں صاحب اک80سالہ بزرگ کو گورنر سندھ بنا رہے تھے جو حلف اُٹھاتے
ہوئے ہانپ رہے تھے اور حلف اٹھاتے ہی ہسپتال میں صاحب فراش ہو گئے تھے۔ ایسی گورنری لینے والا اور دینے والا عزت و شرافت کے کس مقام پر ہیں اور جنرل راحیل جیسا کڑیل جوان نظر آنے والا کس مقام پر ہے۔ تاریخ تو بن گئی ہے اور ابھی سے اس نے اپنا فیصلہ سنانا شروع کر دیا ہے۔
میں اپنے اللہ کا انتہائی گنہگار بندہ ہوں‘ شب زندہ بیدار نہیں ہوں‘ بس کبھی کبھار رات کو آنکھ کھل جائے تو مُصلّے پر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ میں نے اپنی 57سالہ زندگی میں رات کی گھڑیوں میں رو کر اپنے اللہ سے اگر کسی حکمران کے لیے دعا کی ہے تو صرف جنرل راحیل کے لیے کی ہے اور آج میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جنرل راحیل اب حکمرانی کی صف سے نکل رہے ہیں۔ اک میں ہی کیا نہ جانے کتنے لاکھوں نے جنرل کے لیے رات کی گھڑیوں میں دعائیں کی ہیں۔ یہ ہے سچی عزت جو اللہ دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جناب جبریل کو بلا کر فرماتے ہیں: میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی محبت کرو اور آسمانوں میں اس کی محبت کا اعلان کر دو۔ پھر اس بندے کی محبت کا قبول زمین پر رکھ دیا جاتا۔(بخاری) اللہ اللہ! آسمانوں کے کھرب ہا فرشتوں میں محبت کی حامل شہرت کا اعلان اور زمین پر انسانوں کے دلوں میں اس کی محبت کا پیغام۔ کاش! میڈیا میں جھوٹی‘ بناوٹی اور وقتی شہرتوں کی خاطر عجیب و غریب حرکتوں کی بجائے حکمران سچی عزتوں کی تلاش میں اللہ سے جڑ جائیں۔ انسانوں کی خدمت اخلاص سے کریں تو تبھی یہ نعمت مل سکے گی۔
مشہور تو یہی ہے کہ جمہوریت کا حسن حوصلہ‘ برداشت ڈائیلاگ‘ اخلاق اور حسنِ کلام ہے اور سیاستدان چونکہ جمہوری نظام کے
عمائدین ہوتے ہیں اس لیے ان میں مندرجہ بالا خوبیاں ہوتی ہیں جبکہ فوجی حضرات عسکری تربیت کی وجہ سے جمہوری سیاستدانوں جیسا حوصلہ اور برداشت نہیں رکھتے۔ اس میں کسی حد تک سچائی اور حقیقت ہو گی مگر جب میں جنرل راحیل شریف اور معاصر سیاستدانوں کو دیکھتا ہوں تو حقائق یوں سامنے آتے ہیں کہ دبئی میں بیٹھنے والے ایک سیاستدان ہمالیہ سے بلند بول بولتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم تو تین سال کے لیے ہو ہم ہمیشہ رہیں گے۔ اوراب ان کی واپسی کی بھی خبریں ہیں۔ ڈاکٹر عاصم جیسے لوگ ابھی زیر حراست ہیں مگر پارٹی کی طرف سے کراچی ڈویژن کے سربراہ بنا دیئے گئے ہیں کراچی میں عسکری نمائش کے دوران میاں نواز شریف اور جنرل راحیل کی تصویر ایک اخبار صفحہ اول پر شائع کرتا ہے جس میں میاں صاحب ہاتھ میں بندوق پکڑے ہوئے ہیں اور تصویر کے اوپر یہ تحریر کیا جاتا ہے۔''بھاری مگر قابو میں‘‘ اسی طرح جناب پرویز رشید کا وزارت سے ہاتھ دھونا کس پس منظر میں تھا؟ اور اس طرح کی کتنی ہی باتیں جنرل راحیل شریف عربی لفظ والا شریف ہو کر بھی پیتے گئے۔ ملک کی بہتری کی خاطر کڑوے گھونٹ پیتے ہی گئے۔ اصلاح کی کوشش کرتے چلے گئے۔ ملک میں امن کی فاختہ کو اڑاتے چلے گئے۔ اپنے جوانوں کی قربانیاں دیتے چلے گئے۔ پانچ سو فوجی شہدا کے جنازوں کو کندھا دیتے چلے گئے۔ پانچ ہزار کے قریب دہشت گردوں کو ختم کر کے ہمارے سکھ اور چین کا بندوبست کرتے چلے گئے۔ میں ان کی برداشت کو سلام پیش کرتا ہوں‘ حوصلے کی داد دیتا ہوں۔ انتہائی باوقار انداز کو سلیوٹ کرتا ہوں‘ ان کے جانشین کے لیے دعا اور اس عزم کا اظہار کرتا ہوں کہ ان کا نقش قدم مضبوط ہوتا چلا جائے۔ میاں نواز شریف صاحب کے لیے بھی گزارش کرتا ہوں کہ ہر سول محکمے میں کہیں نہ کہیں ایک دو نہیں کئی راحیل بیٹھے ہیں۔ آپ کے فیصلے سے ہی ہمیں راحیل صاحب ملے تھے۔ ہر محکمہ کو اک راحیل دے دیں پاکستان بلند پرواز ہو جائے گا۔ نواز نام بھی عزت دار ہوجائے گا۔ میرٹ ہی پاکستان اور اہل پاکستان کو اٹھان اور اڑان دے گا۔ شکریہ راحیل صاحب!آپ کو رب رحیم دیاں رکھاں!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں