اسامہ وڑائچ ڈپٹی کمشنر چترال بھی اے ٹی آر طیارے کے مسافر تھے۔ ان کی شہادت پر میں نے ان کے ماموں جان ذوالفقار چیمہ سے تعزیت کرتے ہوئے بتلایا ہمارے حضور نبی کریمﷺ نے آگ میں جل کر فوت ہونے والے کو بھی شہید کہا ہے اور حادثاتی موت کا شکار ہونے والے کو بھی شہید کہا ہے، یوں آپ کے دیانتدار اور نیک بھانجے کو ڈبل شہادت کا اعزاز ان شاء اللہ ملے گا۔ میری اس بات پر چیمہ صاحب خوش ہوئے تو میں نے دوبارہ حضور نبی کریمﷺ کی خوشخبری کو دہرایا تب چیمہ صاحب کے دل کو قرار اور اطمینان کی نعمت نے اپنے دامنِ سکون میں چھپا لیا۔ اسی بات کا اظہار انہوں نے اپنی ہمشیرہ محترمہ سے کیا تو اسامہ شہید کی والدہ نے اپنے پہلے اخباری بیان میں جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدمہ تو بہت بڑا ہے مگر علماء کے تعزیتی حوصلوں نے دل کو سکون سے ہمکنار فرما دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی کا نام تعزیت ہے۔ اس کا معنی دل کی ڈھارس بندھانا ہے۔ ایسی ڈھارس کہ جس سے دل کو اطمینان مل جائے۔ اطمینان، ایمان سے ملتا ہے اور ایمان کی نعمت حضرت محمد کریمﷺ کے ارشادات عالیہ سے ملتی ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں حدیث لائے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق پہلی امت میں ایک بے عمل مالدار کی موت کا وقت آن پہنچا تو اس نے اپنے بیٹوں کو جمع کر کے وصیت کی کہ مرنے کے بعد اس کے وجود کو آگ میں جلا کر راکھ بنا دینا اور پھر ہوائوں میں اڑا دینا تاکہ اللہ کے حضور پیشی سے بچ جائوں۔ بیٹوں نے وصیت پر عمل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کے ذرات کو جمع کر کے دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کر لیا اور پوچھا، تم نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا، آپ کے ڈر سے، اللہ نے فرمایا، جا جنت میں چلا جا... یاد رہے! انسان کے وجود نے آخرکار مٹی کا ہی حصہ بننا ہے۔ وہ مٹی میں دفن ہو جائے تب بھی اس کا وجود مٹی کے ذرات بن جائے گا۔ سمندر میں وجود چلا جائے تب بھی اس کے ذرات مٹی میں ہی دفن ہو کر مٹی کا حصہ بن جائیں گے مگر اے ٹی آر طیارے کے شہداء کا امتیاز یہ ہے کہ فضا میں وہ آگ کے شعلوں کا شکار ہوئے۔ گھبراہٹ اور بے بسی کے لمحات کے اسیر بنے اور پھر زمین پر حادثے سے دوچار ہوئے۔ یہ سارا عمل دو تین منٹوں پر مشتمل تھا مگر موت سے پہلے ہی اجروثواب کے خزانوں میں کئی گنا اضافہ کر گیا۔ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ زمین پر شہید ہونے والے کی نسبت پانی یا سمندر میں شہید ہونے والے کو دو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جی ہاں! اس لئے کہ سمندر میں جان بچنے کا چانس کم ہوتا ہے اور اس اعتبار سے فضا میں تو چانس انتہائی کم ترین ہوتا ہے یوں حضورﷺ کے فرمان کی روشنی میں فضا کے شہید کا درجہ یقینا اللہ کے ہاں کہیں زیادہ ہو گا۔ اس لحاظ سے اے ٹی آر طیارے کے شہداء خوش قسمت ہیں کہ اجروثواب اور درجات کی بلندی بہت زیادہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں بلندیوں پر شہید ہونے والے لوگ درجات بھی بلند ہی رکھتے ہیں۔ (ان شاء اللہ)
''اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی حضرت اُمِّ کلثومؓ جو حضرت عثمان بن عفانؓ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ جب فوت ہوئیں تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں یہ روایت لائے ہیں کہ انہیں قبر میں اتار دیا گیا۔ لحد کے آگے اینٹیں لگا دی گئیں تو اللہ کے رسولﷺ نے درخت کی ٹہنیاں دیں اور فرمایا خالی جگہوں کو پُر کر دو پھر فرمایا، اس سے ہوتا کچھ نہیں مگر زندہ لوگ (وارثانِ میت)مطمئن اور خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘ یعنی انسانی بدن کے احترام کا تقاضا ہے کہ اسے غسل دیا جائے، خوشبو لگائی جائے، کفن پہنایا جائے، لحد کے سوراخوں کو اچھی طرح بند کیا جائے تاکہ مٹی اندر نہ جائے۔ اس سے میت کے وارثوں کو اطمینان ملتا ہے مگر حقیقت تو بہرحال یہی ہے کہ اس نے مٹی کے ساتھ مٹی ہی ہونا ہے۔ جی ہاں! پھر اہمیت کس چیز کی زیادہ ہے اور انتہائی زیادہ ہے۔ وہ تو روح ہے جس کی طرف ہم لوگ دھیان نہیں کرتے۔ ایک دوسری حدیث ہے حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی بندے کی روح کسی خاص علاقے یا زمین میں قبض کرنا چاہتے ہیں تو وہاں اس کی کوئی ضرورت پیدا فرما دیتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل: 15624) جیسا کہ ایئرہوسٹس اسماء عادل جا تو رہی تھی جدہ میں مگر ڈیوٹی کسی ضرورت کے تحت چترال والی فلائٹ میں لگوا لی۔ اصل بات یہ تھی کہ موت کی زمین حویلیاں کا پہاڑی علاقہ تھا۔
مذکورہ فلائٹ میں جنید جمشید جیسا پرہیزگار اور خیر کا داعی بھی تھا۔ وہ تو نیکی اور اعلیٰ اخلاق کی خوشبو چترال میں پھیلا کر واپس آ رہا تھا۔ میں کہتا ہوں ہم تو ظاہری طور پر یہی دیکھتے ہیں کہ اے ٹی آر طیارہ فضا ہی میں شعلوں کی نذر ہو گیا مگر وہ جو شعلوں کی نذر ہوئے ان کا موسم اللہ ایسا بھی بنا سکتا ہے جیسا اس نے حضرت حرامؓ کا بنایا تھا۔ یہ وہ ہستی ہیں جو اسلام کی تبلیغ کے لئے گھر سے نکلی تھیں اور نکالنے والے اللہ کے رسولﷺ تھے۔ دھوکے سے جب انہیں شہید کیا گیا، نیزہ آر پار ہوا تو ان کی زبان سے یہ جملہ نکلا ''فُزْتُ وربِّ الْکَعْبَۃ‘‘ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ (بخاری) یعنی ظاہری حالت یہ ہے کہ نیزہ جسم سے آرپار ہو رہا ہے مگر اللہ نے اپنے خوبصورت فرشتوں کا نظارہ کروایا جو انہیں لینے آ رہے تھے۔ ساتھ ہی جنت پر نگاہ پڑی تو نیزے کی درد جاتی رہی کہ وہ تو جسم کے ساتھ متعلق تھی اور روح جس نے نظارہ کیا وہ کامیابی کا بول بولتے آسمان کی جانب محو پرواز ہو گئی۔ ہمیں کیا معلوم کہ جنید جمشید، اسامہ وڑائچ اور دیگر باکردار لوگوں کی زبانوں پر کیا جملے ہوں گے جب ان کی روحیں اپنے اجسام کو خیرباد کہہ رہی تھیں؟ پائلٹ کیپٹن صالح حیات انسانی ہمدردی کی کس قدر صالح چوٹی پر تھا کہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی نیچے بستی والوں کو بچا رہا تھا کہ جہاز ان پر نہ گر جائے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو جب حجاج بن یوسف نے سولی پر لٹکایا تھا تو ان کی والدہ محترمہ حضرت اسماءؓ جو حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کی بہن تھیں اور حضور نبی کریمؐ کی خواہر نسبتی تھیں۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگیں، شاہسوار خوب ہے، بکری ذبح ہو جائے پھر اسے کیا پروا کہ گوشت کے ساتھ قصائی کیا کرتا ہے؟ یعنی میرا بیٹا تو جنت جا چکا، ثابت ہوا اصل اہمیت تو روح کی ہے جسے ہم مادی لوگ اہمیت نہیں دیتے، بس جسم کو ہی سنوارنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ حرام و حلال کی تمیز روا نہیں رکھتے۔
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! ''دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے‘‘ (بخاری) جی ہاں! جسم بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ سب سے بڑا قید خانہ یہی ہے۔ اس کے پیٹ کی غلاظت ملاحظہ ہو، پیٹ خراب ہو تو نزلہ، زکام اور فلو کی کیفیت دیکھو، کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریاں دیکھو، پسینہ دیکھو... یہ بے چارہ اس جیل خانے کو کس قدر روزانہ سنوارتا ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے، نہلاتا ہے، اعلیٰ صابن اور شیمپو استعمال کرتا ہے۔ خوشبویات اور اعلیٰ لباس زیب تن کرواتا ہے۔ یعنی متواتر خدمت کرتے چلا جاتا ہے۔ اچھی بات ہے مگر اے پگلے اور نادان انسان! روح کی جانب تیرا دھیان ہی نہیں۔ عِلِّیِّین کی جانب تیرا خیال ہی نہیں۔ جنت کے اس دروازے پر تیری نظر ہی نہیں جس کی چوڑائی ایک سو سال کے سفر جتنی ہے۔ وہ جنت کہ جس کی مٹی سفید کستوری کی ہے۔ جس کا محل ایک ہی چمکتے سفید موتی کا بنا ہوا۔ بلندی میں 90کلومیٹر بلند ہے۔ ایسا مقام کہ جہاں اللہ کریم کا دیدار ملے گا... دیدار ایسی نعمت ہے کہ جنت کی نعمتیں بھلا ڈالے گی۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ ساری کائنات کے خالق کا دیدار ہے۔ دنیا میں موجودہ جسم کے ہوتے ہوئے ایسا ناممکن ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم رسول کے لئے بھی ناممکن ہے۔ افسوس اس روح کے پاکیزہ کرنے کے لئے تجھے کوئی فکر نہیں۔
پاکستان میں اے ٹی آر طیارے کی تحقیق ہوتی رہے گی مگر جو روحیں گندی، گدلی اور دنیا کی کرپشن میں بدبودار ہو چکی ہیں وہ وہی کریں گی جو پہلے حادثات پر کر چکی ہیں۔ نہ ان سے پہلے کوئی امید تھی نہ بہتری کی اب کوئی امید ہے۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ مولا کریم ایسے حکمران عطا فرما دے جن کی روحیں پاکیزہ ہوں، جنید جمشید جیسی، اسامہ وڑائچ جیسی، باقی میں نے تو لکھا ہے اے ٹی آر میں شہداء کے وارثوں کے لئے کہ غم نہ کرو۔ ہم بھی وہیں جانے والے ہیں۔ ''اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ باقی قیامت کے دن وہ چہرہ سامنے آ جائے گا جس نے ناکارہ طیاروں کو اہل پاکستان کی اڑان کے لئے منتخب کیا ہے یہ کس قدر سیاہ چہرہ ہے،وقت دور نہیں ہے۔ بس چند دنوں کی بات ہے۔ کاش! اس پر یقین ہو جائے تو میرا ملک سنور جائے۔ اہل پاکستان کی زندگیوں میں بہار آ جائے، ہماری بہاروں کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ کر سکے۔ اللہ ایسا کرے۔ (آمین)