بے گناہ مسیحی جوڑے کو جب زندہ جلایا گیا، پشاور کے چرچ میں دہشت گردوں نے عورتوں اور بچوں کو خون میں نہلا دیا‘ یہ اور دیگر ایسے تمام مواقع پر ''روزنامہ دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے میرے مضامین کو مسیحی برادری ملاحظہ کرتی رہی‘ خراج تحسین پیش کرتی رہی، چنانچہ ان کے ایک اہم مسیحی رہنما جناب آفتاب جاوید صاحب میرے پاس آئے اور دعوت دے گئے کہ آپ 20 دسمبر کو ہمارے چرچ سینٹ پیٹرز تشریف لائیں۔ اس کے لائلا ہال میں تمام مذاہب کے اسکالرز کی گفتگو اور دعائیں ہوں گی۔ آپ کا خصوصی خطاب ہو گا۔ میں نے ہاں کر دی اور پھر چرچ جا پہنچا۔ چرچ میں کثیر تعداد میں مسیحی خواتین و حضرات موجود تھے۔ مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کی نمائندگی بھی تھی۔ قرآن مجید کی تلاوت سے تقریب کا آغاز کیا گیا۔ اس کے بعد مسیحی راہبہ نے بائبل کی تلاوت کی۔ سکھوں کے گیانی سردار کلیان سنگھ نے گورو گرنتھ صاحب سے بابا جی گورونانک کی مناجاتیں جو اللہ کے حضور کی گئیں،پڑھیں۔ آخر میں ہندو گورو امرناتھ رندھاوا نے سنسکرت میں ''اوم‘‘ یعنی اللہ کی تعریف کی۔
یاد رہے! ہندو مذہب میں لاکھوں دیویاں اور دیوتا ہیں‘ سب کی مورتیاں موجود ہیں مگر سب کے خالق ''اوم‘‘ کی کوئی مورتی نہیں ہے۔ چند شعراء نے اپنے کلام پیش کئے، اسکالرز نے گفتگو کی، ان اسکالرز میں جناب پوپ فرانسس کی دنیا بھر میں چھ سفیروں میں سے ایک سفیرہ رومانہ بشیر بھی تھیں اور پھر آفتاب جاوید صاحب نے میرا نام پکار دیا۔
ڈائس پر میرے سامنے بائبل پڑی تھی، میں نے اسے اٹھایا اور حاضرین کو مخاطب کر کے بتلایا کہ یہ بائبل جو عہد نامہ قدیم اور جدید پر مشتمل ہے میں نے اسے پڑھ رکھا ہے۔ عہد نامہ قدیم کا آغاز پانچ کتابوںسے ہوتا ہے، ان کا نام تورات ہے۔ تورات کی پہلی کتاب ''پیدائش‘‘ ہے۔ اس میں آسمان اور زمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کا تذکرہ ہے۔ آج کا سیمینار چونکہ خصوصی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے اس لئے میں تورات اور انجیل کہ جسے قرآن نے ہدایت اور نور قرار دیا ہے، حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے آغاز کی بات کروں گا۔ میں کہتا ہوں، کائنات کی پیدائش بھی ہو گئی، انسان بھی وجود میں آ گئے، اب انسانیت کی بات کریں، انسانیت کے ساتھ محبت کی بات کریں۔
کائنات کے خالق مولا کریم ''بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم o‘‘سے آخری کتاب کا آغاز کرتے ہیں۔ اپنے بندے انسان کو آگاہ کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کے ساتھ اس کتاب کا آغاز کر کہ جو انتہا درجے مہربان اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔ اگلی آیت میں اسے اپنی تعریف کا یوں سبق دیا جاتا ہے۔ ''سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہان والوں کا رب ہے‘‘۔ رب کا معنی پالنے پوسنے والا اور پرورش کرنے والا ہے اور پرورش محبت کے بغیر نہیں ہوتی۔ اللہ کی محبت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے مقابلے میں انتہائی ہلکا یعنی ایک بوند سا نظارہ ماں کی محبت کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ وہ ماں جو 9ماہ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے۔ بچہ ماں کے خون پر پلتا ہے۔ جب دنیا میں آتا ہے تو آنول کو لیڈی ڈاکٹر کاٹ دیتی ہے اور ماں کے ساتھ جسمانی رابطے کو قطع کر دیتی ہے۔ اب یہی بچہ ماں کے دودھ پر پلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ دودھ بھی ماں کے خون سے بنتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ شکم میں خون سے پلتا تھا تو پیشاب اور پاخانہ نہ کرتا تھا۔ اب دنیا میں آ کر خون سے بننے والے دودھ کو منہ کے ذریعہ خوراک بنانے لگ گیا تو پیشاب پاخانہ بھی کرنے لگ گیا۔ ماں اسے صاف کرتی رہی، نہلا دھلا کر پائوڈر لگا کر جب اسے بانہوں میں لے کر اپنے چہرے کے سامنے لائی تو بے ساختہ اسے چومنا شروع کر دیا۔ حضرت فاطمہؓ بھی اپنے پہلوٹھی کے لخت جگر حضرت حسنؓ کو اسی طرح سامنے لائی تھیں اور کہا تھا، حسن کی صورت علیؓ پر نہیں، نبیﷺ پر ہے۔ (سبحان اللہ)
جی ہاں! اللہ کو اپنے بندے سے جو محبت ہے وہ سمندر ہے تو ماں کو اپنے بچے سے جو محبت ہے وہ سمندر کی ایک بوند اور قطرہ ہے اور محبت کی یہ بوند بھی تو اللہ کی عطا ہے۔ ماں تو پیدائش کا اک ذریعہ ہے جبکہ اللہ خود خالق ہے پھر خالق کی محبت سمندر نہ ہو تو کیا ہو؟ رب کا معنیٰ پرورش کرنے والا ہے تو پرورش کے ساتھ سمندر سے بڑھ کر محبت کی جوش مارتی لہریں اور موجیں بھی ہیں اور وہ تو سارے انسانوں کا رب ہے کہ ''رب العالمین‘‘ کی آیت کے بعد پھر '' الرحمن الرحیم‘‘ ہے۔ یعنی آگے پیچھے رحمن و رحیم کی صفتیں ہیں اور درمیان میں انسان ہے جس کو پالنے والا رب کریم ہے۔ جی ہاں! جن آخری نبی پر آخری کتاب آئی انہوں نے آغاز ہی میں انسانیت کے ساتھ محبت کا درس پڑھایا اور جنہوں نے درس پڑھایا وہ خود ''رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر آئے۔
قرآن کی جو آخری سورت ہے اس کا نام ہی ''الناس‘‘ ہے۔ یعنی انسانیت کا درس دینے والی سورت ہے۔ یہ سورت اپنے ہر پڑھنے والے کو (آخری سورت کی) پہلی ہی آیت میں یہ اقرار کرواتی ہے ''کہہ دیجئے! میں تمام انسانوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ یعنی تمام انسانوں کا جو رب ہے وہ تو پرورش محبت کے ساتھ کر رہا ہے تو میں اس کی پناہ میں آتا ہوں۔ دہشت گردوں کے خوف سے اس کی پناہ میں آتا ہوں۔ جیکٹ پھاڑنے والوں کے ڈر سے اس کی حفاظتی چھتری تلے آتا ہوں۔ مسجد اور چرچ میں بارود پھاڑنے والوں کی دہشت سے انسانیت کے رب کریم کے حفاظتی قلعے کی پناہ میں آتا ہوں۔ جی ہاں! حضرت محمد کریمﷺ پر آنے والا قرآن آغاز بھی انسانیت کے ساتھ محبت کی زبان میں کرتا ہے اور اختتام بھی دہشت گردی سے حفاظت کے نام سے کرتا ہے اور ساری انسانیت کی بات کرتا ہے۔ آج امیر حمزہ چرچ میں یہی پیغام لے کر آیا ہے اور اب تحریری شکل میں مزید سلاست کے ساتھ اسی پیغام کو ساری دنیا تک ''روزنامہ دنیا‘‘ کے ذریعے پہنچا رہا ہے۔
میں قرآن کے وسط میں علمی سیاحت کا آغاز کروں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ محترمہ حضرت مریم علیھا السلام کی گود میں جب وہ شیرخوار تھے، بولتے ہوئے یہود کو آگاہ کرتے ہیں، میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ نے مجھے کتاب (انجیل) دی ہے اور مجھے نبی بنا دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرنے والا بنا دیا ہے۔ حضرت محمد کریمﷺ بھی اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے پہلوٹھی کے بیٹے اور اکلوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی حضرت مریمؑ کے پہلوٹھی کے بیٹے اور اکلوتے تھے۔ قرآن میں ''بَرًّا‘‘ کا لفظ بتلا رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ محترمہ کے خدمت گار بیٹے تھے۔ وہ ماں کو سبزی بھی لا کر دیتے ہوں گے۔ جھاڑو بھی پھیر دیتے ہوں گے۔ کپڑے بھی دھو دیتے ہوں گے۔ ماں محترمہ کی ہر طرح سے خدمت بجا لاتے ہوں گے۔ اور سوچتا ہوں کہ حضرت محمد کریمﷺ پر جو قرآن آیا اس نے حضرت عیسیٰ کی خدمت کا بتلایا تو حضرت محمد کریمﷺ چھ سال کے تھے کہ اماں محترمہ حضرت آمنہ دنیا سے تشریف لے گئیں۔ میر ے حضورﷺ نے اپنے بچپنے میں حضرت آمنہ ماں محترمہ کی خوب خدمت کی ہو گی۔ آپ نے خود فرمایا، میں جھاڑو دے لیتا ہوں، کپڑے دھو لیتا ہوں، گھر کے کام کاج کر لیتا ہوں۔ جی ہاں! میرے حضورﷺ نے ان خوبصورت خصائل کے رنگ بچپن میں ہی اپنی ماں محترمہ کو دکھلا دیئے ہوں گے۔ دونوں عظیم بیٹوں پر اربوں کھربوں سلام۔
مسیحی برادری کے لوگو! آج میں ہندو دہشت گردوں کی بات نہیں کروں گا۔ مسیحی برادری میں موجود دہشت گردوں کی بات نہیں کروں گا۔ کسی مذہب کے دہشت گردوں کی بات نہیں کروں گا، میں صرف اپنے دہشت گردوں کی بات کروں گا۔ میرے حضور رحمت عالمﷺ نے ان کو خارجی کہا ہے۔ ان کو جہنمی کتے کہا ہے۔ وہ دہشت گرد جو مسجد میں مسلمان کو مارے، مسیحی کو اس کے چرچ میں مارے، ہندو کواس کے مندر میں اڑائے۔ انسانیت کا خون کرے۔ اس کا میرے سلامتی والے اسلام سے تعلق نہیں۔ انسانیت کے ساتھ محبت کا درس دینے والے قرآن سے واسطہ نہیں اور سارے انسانوں کے لئے سراپا رحمت حضرت محمد کریمﷺ سے کوئی رشتہ نہیں۔ ہال تالیوں کی گونج میں کھل اٹھا۔ ہر آنکھ میں آنسو تھے، کیونکہ اخلاص کے سینے سے نکلے ہوئے جو الفاظ تھے وہ انسانیت کے ساتھ الفت کے موتی تھے۔