دنیا کا کوئی مذہب‘ کوئی معاشرہ اور کوئی جمہوری کلچر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی جماعت اپنے ہی لوگوں کو اختلاف رائے کی بنیاد پر انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دے حتیٰ کہ جان کے درپے ہو جائے۔ ریاست کہ جس کی ذمہ داری ہے اپنے ہر شہری کی حفاظت کرنا اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ جرائم پر سزا دے، اب اگر وہ ماں بن کر اپنے بیٹے یا شہری کی جان جانے پر بھی خاموش رہتی ہے تو یہی خاموشی وہ جرم ہے کہ جس سے فاشزم اور دہشت گردی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور یہی وہ جرم ہے جس کی سزا آج ریاست اور اس کے معصوم شہری بھگت رہے ہیں۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ متعدد علاقائی تنظیمیں بننا شروع ہو گئیں اور سب میں قتل و غارت گری کا انداز ایک جیسا تھا۔ اندرون سندھ بھی ایسے گروہ کھڑے ہو گئے، بلوچستان میں بھی ایسی تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔ یہ سارے کے سارے مسلمان تھے اور مسلمان ہیں۔ ان سب نے اپنی اپنی دہشت گردی کے لئے مذہب کا سہارا لیا اور آج بھی اپنی غلط سوچ کے تحت مذہب ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ مجرموں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی سوچ اور فکر کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے کہ جس سوچ نے دہشت گردی پیدا کی اور پھر انسانی جان لینے والے دہشت گرد پیدا کر دیئے۔ لہٰذا دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لئے جس قدر ریاست اپنی قوت استعمال کرتی ہے، اپنے وسائل کو بروئے کار لاتی ہے اس سے بڑھ کر نظریاتی محاذ پر اسے قوت صرف کرنی چاہئے کیونکہ پنیری تو نظریاتی میدان ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں نظریاتی محاذ پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت پنیری کی بوائی کو روکنے پر موثر کام نہیں کر رہی۔
قارئین کرام! حکمرانوں کے بیانات دیکھ لیجئے آپ میری بات کی تصدیق کریں گے۔ مثال کے طور پر دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا عقیدے اور نظریے کے بغیر ہی وہ خودکش جیکٹیں پھاڑتے ہیں؟ نہیں نہیں جناب! یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں، مضبوط مگر غلط نظریے کے حامل ہوتے ہیں تبھی تو اتنی بڑی قربانی دیتے ہیں۔ جس تامل عورت نے راجیو گاندھی کو خودکش حملے میں قتل کیا تھا وہ ہندو عورت تھی، ہندو مت کے اس گروہ سے تعلق رکھتی تھی جو جان دے کر آواگون کے نظریے سے چھوٹ جاتا ہے اور بھگوان میں ضم ہو کر امر ہو جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کو بھی ایسے ہی ہندو نے قتل کیا تھا۔ ایسے لوگ عیسائیت میں ہیں، یہودیت میں بھی ہیں اور ہم مسلمانوں میں بھی ہیں۔ ہمیں ان کے نظریات معلوم کر کے ان کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہونا چاہئے۔ بندوق کے حملے سے یہ حملہ مشکل ہے، یہاں علم کی ضرورت ہے۔ دلیل کی ضرورت ہے اور کم فہم آدمی اسی سے بھاگتا ہے۔ ہاتھ میں قوت ہو تو تکبر میں علم کو لائقِ توجہ ہی نہیں گردانتا حالانکہ کامیابی کی کلید تو یہی ہے۔
حال ہی میں ملک کے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے خوفناک اور ہولناک حملے ہوئے تو پہلی بار قومی سلامتی کے مشیر محترم جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کا یہ بیان پڑھ کر اطمینان ہوا کہ ''ہم دہشت گردوں کے نظریاتی حملے کو بھی کچل دیں گے۔‘‘
حضرت علیؓ حیدر کرار کے مقابلے میں خارجی دہشت گردوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر حضرت علیؓ کو چیلنج کر دیا تھا۔ مقابلہ اور معرکہ ہوا، اندازہ لگائیں کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ جو اللہ کے رسولﷺ کے مدینہ منورہ میں میزبان تھے، جن کے گھر کا انتخاب حضورﷺ کی مہمانی کے لئے اللہ نے کیا تھا وہ حضرت علیؓ کے لشکر میں کمانڈر ہیں۔ معرکے کے بعد وہ حضرت علیؓ کو بتلاتے ہیں۔ اے امیر المؤمنین! میں نے خارجی کمانڈر زین طائی کے سینے میں نیزہ مارا اور اسے کہا، ''اے اللہ کے دشمن تجھے جہنم کی خوشخبری ہو‘‘ جواب میں وہ کہنے لگا قیامت کے دن پتہ چلے گا کہ جہنم میں داخل کون ہوتا ہے؟ قارئین کرام! غور فرمائیں کہ خارجی زین طائی اپنے نظریے پر اس قدر پختہ تھا کہ میزبانِ رسولﷺ کے ہاتھوں اپنی ہلاکت کے وقت بھی وہ حضورﷺ کے میزبان کو واضح کر رہا ہے کہ میں جنت میں جائوں گا اور تم جہنم میں جائو گے۔ اللہ کی پناہ اس جسارت سے، اس سے بڑھ کر گمراہی اور ضلالت اور کیا ہو گی۔ امام ابن اثیر اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ‘‘ میں مذکورہ واقعہ لائے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا، کہ زین طائی ہی جہنمی ہے۔ قارئین کرام! بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ ٹی وی چینلز، اخبارات اور منبرومحراب سے عوام کو بتانا ہو گا کہ خارجی کون ہیں اور خارجیت کیا ہے۔ نظریاتی محاذ کو بندوق کے محاذ سے بڑھ کر نہیں تو برابر اہمیت دینا ہو گی تبھی کامیابی ممکن ہے۔
حضرت ابوذرؓ بتاتے ہیں کہ خوارج کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا، ''تمام مخلوقات میں سے یہ بدترین مخلوق ہوں گے (مسلم:1067) مخلوقات میں تو جنات، شیاطین اور جانور بھی شامل ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ ان کو سب سے بدتر قرار دے رہے ہیں۔ کیوں نا بدتر ہوں کہ ان ظالموں نے حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہا کے والد گرامی کو بھی نعوذ باللہ کافر کہہ کر مسجد میں شہید کر دیا۔ یہ کیوں نا بدتر ہوں کہ ان ظالموں نے جنت کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنھا کے شوہر نامدار کو شہید کر دیا۔ اسی لئے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''جہاں بھی ان کے ساتھ معرکہ آرائی ہو، ان کو قتل کرو‘‘ (بخاری: 6930) یاد رہے! یہ ذمہ داری ریاست اور ریاستی اداروں کی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کی قیادت میں بھی ریاست نے یہ ذمہ داری ادا کی اور حضرت معاویہؓ کی قیادت میں شام کی ریاست نے بھی یہ ذمہ داری ادا کی۔ چنانچہ ان کے سروں کو دمشق کی مسجد کے دروازے پر لٹکایا گیا تو اللہ کے رسولﷺ کے صحابی حضرت ابو امامہؓ مسجد کے دروازے پر تشریف لائے تو خارجیوں کے سروں کو دیکھ کر کہنے لگے، آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والے یہ شریر ترین لوگ جہنم کے کتے ہیں (ترمذی: 300، حسن) جناب ابو غالب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہؓ سے پوچھا کیا یہ آپ کے الفاظ ہیں یا اللہ کے رسولؐ کے، تو کہنے لگے، میں نے اللہ کے رسولؐ سے ایک دو تین یا چار بار نہیں بلکہ سات بار سنا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو امامہؓ مزید آگاہ کرتے ہیں کہ انہوں نے سات بار اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بہترین قتل ہونے والا وہ ہے جسے خارجیوں نے قتل کیا۔ اس لحاظ سے وہ لوگ یقینا خوش قسمت ہیں جو ایک اسلامی ریاست میں بسنے والے لوگوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پا جاتے ہیں۔
اللہ کے رسولﷺ کے مدینہ منورہ میں مشرک جو بت پرست تھے وہ بھی رہتے تھے، مسیحی بھی موجود تھے، یہود بھی محلے دار تھے۔ حضورؐ بحیثیت حکمران سب کے حقوق کے پاسدار تھے۔ حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان ان کا مسلک جو بھی ہو سب مسلمان ہیں۔ سب کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بے لاگ آپریشن کرتے ہوئے ریاستی اہلکاروں کو عدل و انصاف اور احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہو گا۔ صبر اور حوصلہ بلند رکھنا ہو گا۔ خبردار! کسی بے گناہ کی آہ و فریاد لے نہ ڈوبے، اس سے اپنے دامن کو جہاں تک ہو سکے بچا کر رکھنا ہو گا۔ ایسے کڑے وقت میں بعض بڑے بظاہر اچھے لوگ بھی اپنی ذاتی دشمنیاں پال کر بے گناہوں کو مجرم بنا کر مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بھی بندوبست کرنا ہو گا کہ جس نے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اس کا منہ ڈبل کالا کیا جائے گا۔ الغرض! فسادی بچ نہ پائے اور بے گناہ کو کچھ ہونے نہ پائے اس کا اہتمام خوب کرنا ہو گا۔ میاں شہباز شریف صاحب نے آپریشن کے آغاز پر یہ کہہ کر بہت اچھا کیا کہ ہمارے مہاجر پشتون بھائیوں کا تذکرہ عزت و احترام سے کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ ہم نے انصارِ مدینہ بن کر ان کا اکرام کیا، اب بھی کرتے رہیں گے مگر جو فسادی ہیں ان کا تعلق کسی سے بھی ہو، نہیں چھوڑیں گے۔ پہلے دن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا۔ نیچے تک پہرہ داری لازم ہے اور میاں نوازشریف صاحب کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے(آمین)۔