''سورۃ القریش‘‘ مکی سورت ہے۔ مکہ کے قریش گرمیوں میں شام کی طرف تجارت کے لئے جاتے اور سردیوں میں یمن کا رخ اختیار کرتے۔ شام کی مارکیٹ یورپ اور مشرق وسطیٰ کی منڈی تھی تو یمن کی مارکیٹ ہندوستان، چین اور مشرق وسطیٰ کی منڈی تھی۔ شام کی عالمی مارکیٹ میں مغربی افریقہ کے ملک شامل ہو جاتے تھے تو یمن کی مارکیٹ میں وسطی اور جنوبی افریقہ کے لوگ شامل ہو جاتے تھے یوں دمشق اور عدن کے درمیان مکہ کا اکنامک کوریڈور تین براعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ کو اقتصادی سرگرمیوں سے مالا مال کر رہا تھا۔ اس میں مرکزی کردار ''مکہ کوریڈور‘‘ کا تھا۔ چودہ صدیاںپہلے کی معلوم دنیا یہی تھی اور مکہ کا اقتصادی راستہ اپنے ساتھ پوری دنیا کو ملا رہا تھا۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے جب اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ القریش‘‘ نازل فرما کر قریش مکہ کو اپنا احسان یاد دلایا کہ مکہ اقتصادی کوریڈور کی کامیابی کا انحصار امن پر ہے اور اس امن کی چابی اللہ کے گھر کعبہ کے ساتھ وابستہ ہے لہٰذا اس گھر کے رب کی تمہیں عبادت کرنی چاہئے۔ جی ہاں! یہی دعوت اللہ کے رسولﷺ کی تھی، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ قریش کو ایک باریک نکتہ سمجھا رہے تھے کہ اگر تم لوگ میرے رسول کی بات نہ مانو گے تو اس اقتصادی شاہراہ کے فوائد حاصل نہ کر سکو گے اور پھر وہی ہوا، ان لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ حضورﷺ یہاں سے نکلے اور مدینہ میں آ کر حکمران بن گئے۔ اب شام کی طرف جانے والا راستہ ریاستِ مدینہ کی دسترس میں تھا۔
مکہ کا حکمران ابوسفیان مکہ کے تاجروں کا قافلہ لے کر پچاس ہزار دینار کا سامان لے کر شام کی طرف گیا۔ جب یہ قافلہ واپس مکہ آ رہا تھا تو ایک ہزار اونٹوں کے قافلے پر اب منافع کے ساتھ ایک لاکھ دینار کا سامان تھا۔ یاد رہے! دینار سونے کا سکہ ہے یوں یہ لمبی چوڑی انویسٹمنٹ اس وقت خطرے میں پڑ گئی جب ابوسفیان کو معلوم ہوا کہ ہمارا یہ قافلہ ریاست مدینہ کے نرغے میں ہے۔ چنانچہ اس نے مکہ میں خطرے کا سائرن بجانے کو ایلچی روانہ کر دیا۔ اب ہزار جنگجوئوں کا لشکر ریاست مدینہ سے لڑائی کرنے کو چل پڑا۔ یہ لشکر ابھی مکہ اور بدر کے درمیان تھا کہ ابوسفیان نے دوسرا پیغام بھیجا کہ قافلہ سلامتی سے ریاست مدینہ کی حد سے باہر نکل آیا ہے، اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔ ابوجہل جو لشکر کا کمانڈر تھا اس نے بات سنی ان سنی کر دی اور بدر میں پہنچ گیا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ ریاست مدینہ کا خاتمہ کر دیا جائے اور اقتصادی شاہراہ سے مسلمانوں کو فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے مگر اسی کوشش میں ابوجہل مارا گیا اور شدید ترین شکست سے یہ لشکر دوچار ہوا۔ اب نفع بخش تجارتی قافلہ اور شکست خوردہ لشکر ایک ہی وقت مکہ میں پہنچے تو نفع کی خوشی تو کافور ہو گئی تھی جبکہ شکست کے ساتھ مکہ کے 72سورمائوں کے قتل اور بہت سارے زخمیوں کی آہ و بکا اور مسلمانوں کے ہاتھوں قید میں رہ جانے والوں کے غم نے الگ اہل مکہ کی رنجشوں اور غم میں اضافہ کر رکھا تھا۔
صورتحال آج بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اقتصادی کوریڈور کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ چین جو ہمارا قریبی اور آزمودہ دوست ہے وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اقتصادی شاہراہ کا معمار ہے۔ انڈیا حسد میں مبتلا ہو کر اقتصادی شاہراہ کو ناکام کرنا چاہتا ہے، وہ کامیاب تبھی ہو سکتا ہے جب پاکستان کو بدامنی اور دہشت گردی میں مبتلا کر دے، چنانچہ آج وہ اسی پروگرام میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ چونکہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے اس لئے کھلی جنگ خطرناک ہو سکتی ہے، انڈیا اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے، چنانچہ وہ پاکستان میں پراکسی (نیابتی) جنگ لڑ رہا ہے۔ کلمہ پڑھنے والے خارجیوں کو سہولتیں دے کر پاکستان میں حملے کرواتا ہے۔ محض دو ہفتے قبل لاہور میں پنجاب اسمبلی اور سندھ کے اہم ترین شہر سیہون میں دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ پشاور اور کوئٹہ میں بھی ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار ملک باور کروایا جائے تاکہ علاقے کے ممالک ایکو کانفرنس میں بھی شامل ہونے سے انکار کر دیں اور کرکٹ کا جو میچ لاہور میں ہونے جا رہا ہے، اس کو بھی التوا کا شکار کر دیا جائے۔ پاکستان کو دنیا سے کاٹ کر رکھا جائے۔ انویسٹمنٹ آنے نہ دی جائے۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان نے جرأت و دلیری کے حامل اقدامات کئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ''ردّالفساد‘‘ کے نام سے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا ملک کے اندر اور باہر اعلان کر دیا جبکہ وزیراعظم پاکستان نے اپنی سکیورٹی فورسز کے پرامن سائے میں ایکو کانفرنس کی کامیابی کے لئے سرتوڑ کوشش شروع کر دی۔ چنانچہ دہشت گردانہ حملوں کے چند دن بعد اسلام آباد میں علاقائی ملکوں کے سربراہ اقتصادی کوریڈور کی مضبوطی کی بات کر رہے تھے اور پاکستان کے ساتھ یکجہت ہو کر کھڑے تھے۔ ترکی کے صدرطیب اردوان، ایران کے صدر حسن روحانی، ازبکستان کے نائب وزیراعظم الغ بیگ، کرغیزستان کے وزیراعظم بیکوف، ترکمانستان کے صدر قربان علی، تاجکستان کے صدر امام علی، آذربائیجان کے صدر الہام علی افغانستان کے نمائندے عمر زخیوال سب کے سب باہم تجارت کی بات کر رہے تھے اور دہشت گردی کو مسترد کر رہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں انڈیا کے لئے پیغام تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس سارے منظر کے پیچھے چین کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ چین نے اپنے خصوصی نمائندے کو اس کانفرنس میں بھیجا اور علاقے کی خوشحالی کا معنی خیز پیغام دیا۔
میاں محمد نوازشریف نے گفتگو کرتے ہوئے اک انتہائی شاندار جملہ بولا، انہوں نے کہا ''ہم البیرونی، فارابی، سعدی، رومی اور اقبال جیسے عظیم لوگوں کے قابلِ فخر وارث ہیں‘‘ مندرجہ بالا مشاہیر میں اقبال کا تعلق پاکستان سے ہے تو رومی کا تعلق ترکی سے ہے۔ سعدی ایران سے ہیں تو البیرونی اور فارابی وسط ایشیائی ملکوں سے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ میاں صاحب محدثین کا بھی تذکرہ کرتے۔ 1992ء میں جب میں ثمرقند کے قریبی قصبے خرتنگ میں حضرت محمد بن اسماعیل المعروف امام بخاری رحمہ اللہ کے مرقد پر گیا تو چند ہفتے بعد میاں صاحب بھی وہاں پہنچے انہوں نے صحیح بخاری کا بھی ذکر فرمایا تھا اور لائبریری کے لئے اعانت کا بھی اعلان کیا تھا۔ امام مسلم کا تعلق ایران کے شہر نیشاپور سے ہے۔ امام نسائی کا تعلق ترکمانستان کے شہر ''نساء‘‘ سے ہے۔ الغرض! مندرجہ بالا تمام علاقائی ممالک ایمان، عقیدہ، جغرافیہ، شخصیات، ثقافت اور کلچر میں بندھے ہوئے ہیں تو اب کیوں نا اقتصادی کوریڈور کی تسبیح میں بھی باہم اپنے آپ کو پرو ڈالیں۔ جی ہاں! انہوں نے اسلام آباد میں باہم پروئے جانے کا پیغام دے دیا۔ پاکستانیوں کو مبارک ہو۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ کا شعر ہے، فرماتے ہیں، ؎
خطرپسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستان جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد
پاکستان کی گھات میں صیّاد یعنی شکاری موجود ہے۔ انڈیا جیسے دہشت گردی کے شکاری کی گھات میں اس بار میاں نوازشریف کی حکومت نے بھی اپنی طبیعت کو خطرپسند بنا لیا۔ پاکستان سپر لیگ کا لاہور میں میچ پرامن ہو گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس خطرپسند طبیعت کو پاک فوج کا حفاظتی شیلٹر فراہم کر کے خراج تحسین حاصل کر لیا۔ پاکستان عالمی برادری میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ پاک بحریہ کی 36ملکوں کے ساتھ کراچی اور گوادر میں مشقیں، پھر ایکو کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں اور پھر کرکٹ کا عالمی میچ لاہور میں، پاک فوج کو بھی مبارکباد۔ ایکو کے چیئرمین کو خراج تحسین اور نجم سیٹھی کو بھی سلام۔ روس کے مایہ ناز عالمی سطح کے صحافی جناب اینڈریو کوریکو نے اپنے تجزیے میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف اس مشترکہ جنگ میں امریکہ اور انڈیا شکست کھا رہے ہیں۔ پاکستان کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے۔ اقتصادی کوریڈور کی کامرانی تمغۂ تقدیر ہے۔پاکستان زندہ باد