اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کا فرمان ہے ''جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں جیسے ہیں‘‘ (مسلم:7341)
پرندوں کی بے شمار اقسام ہیں مگر دو قسمیں ایسی ہیں جو دنیا کے ہر خطے میں پائی جاتی ہیں۔ یہ فاختہ اور چڑیا ہیں۔ پھر فاختہ کی بھی متعدد اقسام ہیں جنگلی اور گھریلو کبوتر بھی فاختہ کی اقسام میں سے ہی ہیں۔ اسی طرح چڑیا کی تو بہت ساری اقسام ہیں، کوئل بھی چڑیا ہی ہے جس کی خوبصورت آواز گلستان کی فضا میں موسیقی کا رنگ بکھیر کر اس کے حسن میں اضافہ کر دیتی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ جو اللہ کے رسولﷺ کے خادم تھے، ان کے بھائی ننھے عمیرؓ نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ حضور نبی کریمﷺ اپنے خادم حضرت انسؓ کے والدین حضرت ابو طلحہؓ اور حضرت اُمّ سُلَیمؓ کے گھر میں تشریف لے گئے تو ننھے عمیرؓ سے دل لگی کی باتیں کرنے لگے۔ ننھے عمیر کی چڑیا جو مَر گئی تھی حضورؐ نے اس چڑیا کا حال بھی پوچھا کہ وہ کس طرح فوت ہو گئی۔ انداز یوں تھا ''اے عمیر تیری نُغَیر کے ساتھ کیا ہو؟‘‘(بخاری) اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ ننھے عُمَیرؓ نے اپنی چڑیا کا نام رکھا ہوا تھا اور حضورﷺ نے اسی نام کے ساتھ چڑیا کا ذکر کیا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ نے بچے کی ذہنی سطح کے مطابق اس کی دلچسپی کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کی۔ چونکہ اسے اپنی چڑیا سے بے حد پیار تھا چنانچہ حضورﷺ نے عمیرسے گویا چڑیا کی وفات پر تعزیت کا اظہار فرمایا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فاختہ اور چڑیا دو ایسے خوبصورت پرندے ہیں جو انتہائی شریف، معصوم اور بھولے ہیں اور ہر علاقے میں نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ ان کے حوالے سے ہر قوم میں کہانیاں بھی موجود ہیں۔ پرندوں کی ہمدردی میں انسان کے لئے اللہ کے رسولﷺ کا یہ بھی پیغام ہے کہ کسان کی کھیتی کا دانہ دنکا اور باغ کے مالک کے جو پھلدار درخت ہیں ان کے پھل کو پرندے کھاتے ہیں تو کھیتی اور باغ کے مالک کے لئے اللہ کے ہاں صدقہ لکھا جاتا ہے۔ سبحان اللہ۔
قارئین کرام! لاہور کے نواح میں ایک دیہاتی علاقے میں آج سے کئی سال پہلے میں نے ایک گھر بنایا تو اس میں چھوٹا سا باغیچہ بھی بنایا۔ اب تو لاہور اس قدر پھیل رہا ہے کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ میری قسمت بھی جاگ اٹھی اور ایک اچھی سوسائٹی کا میں بھی حصہ بن گیا۔ بہرحال! میں نے اپنے باغیچے میں قرآن و حدیث میں مذکور چند پھل دار درخت اس نیت سے لگائے کہ پرندے کھاتے پیتے رہیں اور چہچہاتے رہیں۔ کھجور، انار، انجیر اور مالٹا تو ہے ہی امرود اور مزید پودے بھی لگا دیئے ہیں۔ فاختہ نے بِیل کے گھنے جھرمٹ میں گھونسلا بنا رکھا ہے تو رنگ برنگ چڑیاں موجودہ موسم بہار میں نہ جانے کہاں کہاں سے آجاتی ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد چہچہانا شروع کرتی ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے تک بولتی رہتی ہیں۔ غروب آفتاب سے پہلے بھی خوب چہچہاتی ہیں اور جونہی آفتاب غروب ہو جاتا ہے، خاموش ہو جاتی ہیں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے ایئر گن رکھی ہوئی ہے لیکن میں نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے کہ گھر میں کسی پرندے کا شکار منع ہے۔ میرا یہ معمول ہے کہ رات کے بچے ہوئے چاول، روٹی کا برادہ اور دانا دنکا ہر صبح کو پرندوں کے لئے ڈالتا ہوں۔ وہ میرا انتظار کرتے ہیں اور جب یہ کام کر کے پیچھے ہٹتا ہوں تو شارکیں، چڑیاں وغیرہ کلکاریاں مارتے ہوئے آ جاتی ہیں اور ایک دوسری کو بتلاتی ہیں کہ دسترخوان سج گیا۔ ایک روز دانا دنکا ڈالنے سے قبل میں طلوع آفتاب سے ذرا بعد اپنے گھر کی چھت پر گیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شارک دھوپ سینک رہی ہے اور اپنی چونچ سے پنجوں کے ساتھ لپٹا دھاگہ کھولنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ میں خاموشی کے ساتھ دبے پائوں گیا اور شارک کو دبوچ لیا۔ میں نے اس کے دونوں پیر دیکھے تو ان کے ساتھ دھاتی ڈور لپٹی ہوئی تھی۔ ایک پائوں کے دو پنجے اس ڈور کی نذر ہو کر جھڑ چکے
تھے جبکہ دوسرے پائوں کے تینوں ناخن جھڑنے کے قریب تھے۔ یعنی پتنگ بازی انسانوں کے گلے ہی نہیں کاٹتی پرندوں کو بھی اپاہج بناتی ہے۔ میں نے قینچی پکڑی اور شارک کی کھال کو کاٹتے ہوئے دھاتی ڈور کو الگ کر دیا۔ یوں ایک شریف اور معصوم پرندہ اپاہج اور معذور ہونے سے بچ گیا۔ شارک اڑ گئی اور میرا دل خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا کہ آج صبح میرے اللہ نے مجھ سے خوب نیکی کا کام لیا۔
قارئین کرام! حضورؐ جو پاک بھی ہیں اور کریم بھی ہیں۔ رئوف بھی ہیں اور رحیم بھی ہیں۔ ان کے مبارک اور پاک فرمان کے مطلب کو دوبارہ دل میں لائیں کہ جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں یعنی فاختہ اور چڑیا وغیرہ جیسے ہیں۔ پرندوں کے دل کیسے ہیں اور ان کا کردار کیا ہے پہلے آیئے! اس پر غور کرتے ہیں اور پھر اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم لوگ جنتی ہیں یا کیا ہیں؟
(1)قرآن نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے قبل اللہ کے ذکر کی نصیحت کی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ اور صحابہؓ اس پر عمل کرتے تھے۔ حضورﷺ سے ثابت شدہ صبح و شام کے اذکار موجود ہیں۔ پرندے تو اس پر عمل کرتے ہیں کیا ہم بھی کرتے ہیں؟
(2)اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ کرو جیسا کہ پرندے کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے، صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو اپنے پوٹ بھر کر واپس گھونسلوں میں آتے ہیں۔ (ابن ماجہ) جی ہاں! نہ وہ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، نہ کسی کا حق مارتے ہیں، نہ حرام کھاتے ہیں، کیا ہم انسان ایسا کرتے ہیں؟
(3)یہ پرندے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، خود شکار ہو جاتے ہیں مگر کسی کا شکار نہیں کرتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم مسلمان ایسا کردار رکھتے ہیں کہ کسی انسان کا شکار نہ کریں۔ مذہبی، علاقائی، لسانی اور برادری کی بنیاد پر کسی کا خون نہ بہائیں، کیا ہم انسان ایسا کرتے ہیں؟
(4) پرندے انتہائی نرم دل ہوتے ہیں، حسد، بغض، کینے، چغل خوری اور بدظنی وغیرہ سے پاک ہوتے ہیں۔ کیا ہم انسان اپنے دل ایسے بنا سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا عادتوں سے بچ جائیں۔ دوسروں کا بھلا کرنے والے بن جائیں۔ رشتوں کو ملانے والے بن جائیں، توڑنے والوں میں اپنا نام نہ لکھوائیں۔ کیا ہم انسان ایسا کر کے پرندہ دل انسان بن سکتے ہیں؟
(5)ہمارے رحمۃ للعالمین رسول کریمﷺ نے درندوں یعنی شیر، چیتے اور ریچھ وغیرہ کی کھال پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور ایسا اس لئے کیا تاکہ انسان میں درندگی پیدا نہ ہو۔ وہ پرندہ دل رہے مگر وہ انسان جو خودکش جیکٹیں پھاڑ کر، بم دھماکے کر کے بے گناہ مرد خواتین اور معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں۔ مسلمان تو دور کی بات ہے کیا وہ انسان بھی کہلانے کے حقدار ہیں؟ نہیں نہیں، بالکل نہیں۔ کہ یہ تو درندوں سے بڑھ کر ہیں جبکہ جنت میں تو وہ داخل ہوں گے جو پرندہ دل ہیں۔
بخاری، مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں اللہ کے رسولﷺ نے شہداء کے بارے میں اور مومنوں کے بارے میں بتلایا ہے کہ موت کے بعد ان کی روحیں جنت کے سبز رنگ پرندوں میں داخل کر دی جائیں گی۔ اللہ کے عرش کے نیچے لٹکتی ہوئی روشن قندیلوں میں وہ بسیرا کریں گی۔ جنت کی نہروں اور باغوں میں وہ پرواز کرتی خوشی و مسرت کی اڑانیں بھرتی ہیں۔ جی ہاں! جب حشر کا میدان ہو گا تو یہی روحیں زمینی جسموں کے ساتھ کھڑی کر دی جائیں گی۔ پھر حضور شافع روز محشرﷺ کے ساتھ یہ لوگ جنت میں جائیں گے۔ لوگو! قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا میں جو لوگ پرندہ دل، فاختہ دل، چڑیا دل، بلبل دل ہوں گے وہی جنت کے سبز پرندے بنیں گے۔ وہی جنت میں داخل ہوں گے۔ سوال یہ ہے کیا ہم ایسے مسلمان اور ایسے انسان ہیں؟