افغانستان میں ایک لمبی خونریزی اور خانہ جنگی کے بعد ملا محمد عمر کی نگرانی میں ایک افغان فوج تو بہرحال بن گئی تھی۔ اس فوج کو مضبوط کرنے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکمرانی میں جنرل (ر) نصیراللہ بابر مرحوم نے خوب کردار ادا کیا۔ یوں افغانستان میں بسنے والے افغان اپنے سروں پر اک حفاظتی سائبان دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصور کرتے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اس فوج کو بموں کی بارش سے تتر بتر کر دیا اور آج سولہ سال ہونے کو آئے ہیں کہ سابق فوج اور اتحادیوں کی نئی بنائی ہوئی فوج لڑتی چلی جا رہی ہیں۔ اس خانہ جنگی کا نتیجہ بہرحال یہی ہے کہ لاکھوں افغان شہید ہو گئے۔ غیرت مند عزتیں خاک ہو گئیں۔ بچے یتیم ہو گئے۔ مہاجر کیمپ تعداد میں مزید ہو گئے۔ یہی صورتحال ہم عراق میں دیکھتے ہیں۔ ملا محمد عمر اب دنیا میں نہیں ہیں۔ صدام حسین بھی ہماری اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر عراق میں یہ حقیقت تو بہرحال اپنی جگہ پر ہے کہ وہاں کی ایک مضبوط فوج تھی۔ اہل عراق اس فوج کی موجودگی میں محفوظ تھے۔ ان کے شہر اور ان کے دیہات محفوظ تھے۔ وہ خوشحال تھے۔ زندگی رواں دواں تھی۔ مہاجر کیمپ کوئی نہ تھا۔ کوئی عراقی دنیا میں پناہ کا طلبگار نہ تھا۔ ان کی تعلیم اور زندگی کا معیار ترقی یافتہ تھا مگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس فوج پر آسمان سے بموں اور میزائلوں کا طوفان چلا دیا‘ اور ساری فوج کو نابود کرکے رکھ دیا۔ پھر ایک نئی فوج کھڑی کر دی۔ نئی فوج کے خلاف پرانی فوج اور عوام کے نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے۔ باہر سے جہادی جانا شروع ہو گئے اور یوں عراق تباہ و برباد کر دیا گیا۔ لاکھوں عراقی مار دیئے گئے، بچے یتیم ہو گئے، خوراک نہ ملنے سے لاکھوں بچے اگلے جہان میں چلے گئے۔ بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ معذور ہو گئے۔ معذوروں کی تعداد بے شمار ہو گئی۔ غربت نے ڈیرے ڈال دیئے۔ خواتین کے آسرے چھن گئے۔ معززین رسوا ہو گئے۔ آج ہر جانب ہر خاندان کی زندگی المیہ داستانوں کا ایک حقیقی ناول ہے جسے دنیا بھر کے صحافی بھی لکھنے بیٹھ جائیں تو برسوں تک لکھ نہ سکیں۔
لیبیا کے کرنل قذافی اپنے انجام سے دوچار ہو کر ہماری اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے طرز حکمرانی سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہاں ایک قومی فوج تھی۔ اس کی موجودگی میں لیبیا کے لوگوں کی خواندگی کا معیار اعلیٰ ترین تھا۔ رزق ایسا فراواں تھا کہ ہمارے پاکستان کے کئی لیڈر حضرات بھی جھولیاں بھر کر لاتے تھے۔ مگر امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں نے وہاں جہاد کے مقدس نام پر فساد کروا ڈالا۔ خارجی ذہن کو میدان مہیا کر دیا۔ اوپر سے بموں کی بارش کر دی، وہاں کی فوج کو تہس نہس کر ڈالا۔ نتیجہ کیا نکلا، لیبیا کی خواتین کا آسرا لٹ گیا، وہ بیوہ ہو گئیں، بچے یتیم ہو گئے، غربت نے ڈیرے ڈال دیئے، لیبیا میں وار لارڈز کے خطے بن گئے۔ کئی حکومتیں بن گئیں، خانہ جنگی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ لوگ اسی یورپ کو بھاگ بھاگ کر بحیرہ روم میں ڈوب رہے ہیں، جس نے ان کی فوج کو ڈبو کر ان کو بے آسرا کیا ہے۔ الغرض! لیبیا اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
لبنان مشرق وسطیٰ کا ایک انتہائی خوبصورت ملک ہے۔ بیروت کی کتابیں دنیا میں ایک نام رکھتی تھیں مگر پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دسیوں سالوں سے بیروت آگ کی لپیٹ میں اور پورا لبنان تباہی اور بربادی کی نذر ہو گیا۔ ذرا سوچئے! جس ملک کے آئین میں یہ لکھا ہو کہ مارونی عیسائی فرقے کا آدمی صدر ہو گا، سنی وزیر اعظم ہو گا اور شیعہ اسمبلی کا سپیکر ہو گا‘ اس ملک کا کیا ملک بنے گا۔ یقینا اس کا ہر ادارہ تقسیم کا شکار ہو گا اور یہی ہوا۔ فوج میں بھی یہی ہوا اور فوج برباد کر دی گئی۔ حزب اللہ جیسی عسکری تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔ عوام بے آسرا ہو گئے، لٹ گئے۔ اب وہاں امن ہوتا ہے تو عارضی ہوتا ہے۔ بربادی بار بار ڈیرے جماتی ہے، بنیادی علاج کوئی نہیں کرنے دیتا اور نہ کوئی کرتا ہے۔ یمن کا بھی یہی حال کیا گیا۔ حوثی باغیوں کو یمنی فوج کے مقابل کھڑا کر دیا گیا۔ فوج تقسیم ہو گئی اور اہل یمن برباد ہو گئے۔ وہ ملک جہاں اللہ کے رسولﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو حکمران بنا کر بھیجا تھا جو حضرت اویس قرنیؒ کا دیس ہے اس دیس سے فوج کا آسرا چھین کر یمن کے لوگوں کو بے آسرا کر دیا گیا۔ شام کا ملک مذکورہ تمام ممالک میں فی الحال بدقسمت ترین ٹھہرا ہے جیسا بھی تھا، ایک نظام بہرحال تھا اور لوگوں کو حفاظتی چھتری کا آسرا تھا، زندگی کہیں خوشحال تھی تو کہیں درمیانی درجے میں تھی۔ لوگ بہرحال ہم اہل پاکستان سے بہتر زندگی گزار رہے تھے۔ لوگوں نے صرف حکومتی جبر کے خلاف مظاہرے ہی کئے تھے لیکن بشار جیسے قصاب نے اپنے ہی عوام پر بمباری شروع کر دی۔ لاکھوں لوگ اب تک وہاں مارے جا چکے ہیں۔ ایک کروڑ بے گھر ہیں، 40 لاکھ ترکی میں ہیں۔ رومی سمندر میں ایان کُردی جیسے ہزاروں نونہال سمندری مخلوق کی خوراک بن چکے ہیں مگر برا ہو عالمی سیاست بازی کا کہ بشار کو قائم رکھ کر اہل شام کے لئے صبح کا سپیدۂ سحر نمودار نہیں ہونے دیتے۔ الغرض! ہمارے دور میں ہماری آنکھوں کے سامنے اک المناک داستان ہے کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں کو برباد کر کے وہاں کے عوام کو بربادی کا قبرستان بنا دیا گیا۔
میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے ملک پاکستان کی فوج مضبوط ہے۔ اسلامی فوج ہے۔ ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ کے مبارک سلوگن کی علمبردار فوج ہے۔ دنیا کی مانی ہوئی پروفیشنل فوج ہے۔ ایٹمی پاور کی حامل فوج ہے۔ دنیا کے جدید ترین میزائل سٹم کی حامل فوج ہے۔ دلیر، بہادر اور حوصلے و برداشت والی فوج ہے مگر جہاں پاکستان اور اہل پاکستان کے حفاظتی حصار کی بات ہو، وہاں Zero tolerance (صفر برداشت) کی حامل فوج ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے خلاف دنیا کے مذکورہ ممالک نے سازش نہیں کی۔ انڈیا کو ملا کر سازش بھرپور کی، اسرائیل بھی پیچھے نہیں رہا مگر پاکستان کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ (انشاء اللہ) اس وجہ سے ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ وہ افغانستان میں اسی لئے آئے تھے مگر ناکام ہو گئے۔ انڈیا ہاتھ ملتا رہ گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں انہوں نے داعش جیسے خارجی گروہ کھڑے کر لئے مگر پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے لوگ کھڑے کر کے ناکام ہو گئے۔ اس لئے کہ پاکستان کے سارے لوگ فوج کے پیچھے حصار بن گئے۔ یہی حصار پاک فوج کا اہل پاکستان کیلئے بن گیا اور ہم کامیاب ہو گئے۔ ضرب عضب کامیاب ہو گیا اور اب ''ردّالفساد‘‘ کامرانی کے آخری مراحل طے کر رہا ہے۔ پاک فوج زندہ باد۔ پاکستان محفوظ ہو گیا۔ پاکستان کی بیٹیاں اپنے آنچلوں سمیت محفوظ، کاروبار محفوظ، جانیں محفوظ، عزتیں محفوظ، گھر محفوظ، الحمدللہ سب کچھ محفوظ، ہمارا دین محفوظ، ہمارا ایمان محفوظ۔ جی ہاں! اس لئے کہ میری پاک فوج محفوظ، ہم اس کے پاسبان ہیں اور وہ ادارہ ہے پاسبان ہمارا۔ اس کا حفاظتی حصار بیس کروڑ پاکستانیوں کا حصار ہے جس میں نہ فرقہ واریت کی تقسیم ہے، نہ رنگ کی، نہ نسل اور زبان کی۔ جس نے عوام میں یہ تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی وہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ (الحمدللہ، الحمدللہ)
مگر مگر...! دشمن کب باز آنے والا ہے۔ وہ کبھی سیاست کے نام پر فوج کو مطعون کرتا ہے، کبھی اور پہلو سے سوشل میڈیا کے ذریعے حرکت میں آ جاتا ہے۔ آوارگی کے میدان میں زبان بھی آوارہ اور بیہودہ استعمال کرتا ہے۔ نہیںنہیں جناب! سیاست کیجئے، خوب کیجئے مگر فوج کے ساتھ سیاست مت کیجئے، یہ ہمارا حفاظتی حصار ہے، اس کی سفید دیواروں پر کہ جس پر رنگ و روغن بھی سفید کیا گیا ہے، اس پر کالی لکیریں برداشت نہیںہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ خالص پروفیشنل سپاہی اور جرنیل ہیں۔ سادہ طبیعت ہیں، منکسر المزاج ہیں مگر خاموشی کے ساتھ اپنا کام دبنگ اندازسے کر رہے ہیں۔ ہمارے حصار کو بہت آگے جا کر مضبوط کر رہے ہیں۔ جی ایچ کیو میں انہوں نے اہل دانش کے سامنے اپنے دل کی باتیں رکھی ہیں۔ خراب حکمرانی پر بھی توجہ دلائی ہے۔ بھارت میں ہندوئوں کی انتہا پسندی کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ اپنے اہل وطن کو آگاہ بھی کیا ہے کہ وطن کا حصار جس کا نام پاک افواج ہے، اس کی سفید دیواریں دن کو سورج کی روشنی سے منور ہیں تو رات کو چودھویں کے چاند یعنی قمری کرنوں سے ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہیں۔ اس ٹھنڈک کو سمجھو، نادان بچوں کی طرح سیاہ لکیریں ڈال کر حصار کا حسن خراب کرو اور نہ ہی بدگمان ہو کر بغیر تحقیق کے زبان کی سڑاند سے پاک وطن کی صاف فضا کو مکدر کرو۔ اے اہل وطن! آیئے، عزم کریں کہ ہم اپنے حفاظتی حصار کے نگہبان رہیں گے۔ اسی میں ہماری حرمت کا تحفظ اور بقا ہے۔