جناب حسین نواز صاحب سیمنٹ یا پتھر کے بنے ہوئے کسی بنچ پر نہیں بلکہ ایک ایسے بنچ پر بیٹھے ہیں جس پر اسفنج کا گدا رکھا ہے۔ لکڑی کی بنی ہوئی صاف ستھری سیٹ ہے جہاں وہ تشریف فرما ہیں، کمرہ ایئرکنڈیشنڈ ہے اور جب وہ تشریف لائے ہیں تو مرسڈیز گاڑی میں محافظوں کے ہمراہ جے آئی ٹی یعنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لئے آئے ہیں مگر ایک تو انہیں انتظار کروایا گیا ہے یہ زیادتی ہوئی ہے، دوسرا بنچ پر بٹھایا گیا ہے یہ ظلم ہوا ہے اور تیسرا ستم یہ ہوا ہے کہ ٹیم نے مالی معاملات پر سخت ترین جانبدارانہ سوال کئے ہیں۔ اس پر وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس بھی کر دی ہے اور مذکورہ رویوں پر ناراضی اور جانبداری کا اظہار بھی کر دیا ہے۔
میاں محمد نوازشریف صاحب سے میری گزارش صرف اس قدر ہے کہ وہ بحیثیت حکمران ذرا حضرت محمد کریمﷺ کی حکمرانی پر اک نظر ڈال لیں۔ مسند امام احمد بن حنبل کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ رات کے آرام کے لئے بستر پر نیند میں تشریف لے گئے۔ آپ نے اپنے پہلو میں کوئی چیز محسوس کی، دیکھا تو وہ کھجور تھی، حضور نے اسے تناول فرما لیا۔ پھر رات کے آخری حصے میں بے چین اور بے سکون ہو کر کروٹیں بدلنے لگے۔ آپﷺ کی زوجہ محترمہ یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہو گئیں تو آپﷺ نے اپنی بے سکونی کا سبب اپنی زوجہ محترمہ کو بتلاتے ہوئے فرمایا، میں نے اپنے پہلو کے نیچے کھجور محسوس کی اسے کھا لیا۔ اب مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ صدقے (زکوٰۃ وغیرہ) کی نہ ہو۔ قارئین کرام! مذکورہ حدیث کی سند حسن ہے یعنی سرکار مدینہؐ اس بات پر خائف ہو گئے ہیں کہ چونکہ آپؐ مسجد نبوی میں کھجوروں کے لگے ڈھیر لوگوں کو بانٹتے ہیں۔ حسن و حسین بچے ہیں کہیں وہاں سے کھجور یہاں نہ لے آئے ہوں۔ یہ ہیں سرکار مدینہ حضرت محمد کریمﷺ، بے شمار درود ان پر، لاتعداد سلام ان پر۔ صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث ہے، حضورﷺ فرماتے ہیں، اللہ کی قسم! میری صورتحال یہ ہے کہ میں (مسجد نبوی میں کھجوریںبانٹ کر) اپنے گھر کی طرف آتا ہوں تو اپنے گھرکے صحن میں گری ہوئی کھجور دیکھتا ہوں، میں کھانے کو اسے اٹھا لیتا ہوں۔ پھر ڈر جاتا ہوں کہ یہ صدقے کی نہ ہو اور ساتھ ہی اسے منہ سے ہٹا لیتا ہوں۔
صحیح بخاری کی دوسری حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہؓ بتلاتے ہیں کہ مسجد نبوی میں ''مختلف اقسام‘‘ کی کھجوروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ حضورﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے‘ ننھے حسن اور حسین ان سے کھیل رہے تھے ان میں سے ایک نے کھجور پکڑی اور منہ میں ڈال لی۔ حضورﷺ نے دیکھ لیا۔ ساتھ ہی فرمایا، منہ سے نکال، منہ سے نکال اور پھر اپنی انگلی منہ میں ڈالی۔ کھجور نکالی اور لعاب لگی ہوئی کھجور ڈھیر میں پھینک دی اور (ننھے حسن اور اِک بار حسین) کو مخاطب کر کے کہا، تمہیں معلوم نہیں کہ محمدﷺ کی آل کے لوگ صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ مسند احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایک شخص نے کہہ دیا کہ اگر یہ بچہ کھجور کھا لیتا تو کیا فرق پڑتا؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا، ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ حضرت حسنؓ جوانی میں مذکورہ واقعہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ نانا جان حضرت محمد کریمؐ فرمایا کرتے تھے کہ مشکوک چیزوں (خوراک) کو چھوڑ دو اور اسے اپنائو جس میں شک نہ ہو۔ اطمینان سچائی سے ملتا ہے جبکہ جھوٹ شک و شبہات کا شکار ہوتا ہے (مسند احمد: صحیح)
میاں محمد نوازشریف صاحب سے اب میں چند گزارشات کرنے لگا ہوں، پہلی گزارش یہ ہے کہ آپ کے والد گرامی میاں شریف مرحوم نے حُبِّ رسولﷺ کا ثبوت دیتے ہوئے آپ کا نام محمد نواز رکھا۔ آپ اپنے نام کی لاج رکھیے۔ حضرت محمد کریمﷺ کے اسوئہ کو سامنے رکھیے۔ افطاری کے وقت جب کھجوریں آپ کے سامنے رکھی ہوں، اپنے عظیم رسولﷺ کے اسوئہ کو سامنے رکھتے ہوئے بے چین ہو جایئے۔ پاکستان کی خاتون اول محترمہ کلثوم نواز آپ سے بے چینی کا سبب پوچھیں تو آپ اپنے عظیم رسولِ گرامی حضرت محمد کریمﷺ کا اسوہ بیان کر دیجئے اور اِک فیصلہ کیجئے کہ آپ کی جو جائیداد اندرون اور بیرون ملک شک سے پاک ہے۔ ثبوتوں کے اعتبار سے بھی کلیئر ہے۔ اپنی تنہائی میں اپنے اللہ کے سامنے بھی آپ اس کو شفاف کہتے ہیں وہ آپ کا حق ہے۔ اسے اپنے پاس رکھ لیجئے، وہ جائیداد جس میں شک و شبہے کی گرد پڑی ہوئی۔ اسے قوم کو واپس کر دیجئے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی بنا دیجئے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے 80ہزار پاکستانیوں کی فلاح میں دے دیجئے۔ ملک بحران سے نکل آئے گا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ حسین نواز صاحب کے بنچ پر بیٹھنے کو ایشو نہ بنائیں۔ یہ نان ایشو ہے، لوگ مذاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ تھانوں میں تھپڑ کھاتے ہیں، جعلی مقابلوں میں پار ہوتے ہیں، تفتیشی کے سامنے مال اموال دے کر بھی خوار ہوتے ہیں، پھر کچہریوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔ آپ کو حکمرانی کرتے ہوئے چوتھائی صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ آپ نے کیا کیا... اب حسین نواز صاحب آرام دہ بنچ پر بیٹھ گئے تو آپ کی سرکار کا واویلا آپ کی عزت میں اضافہ کرے گا یا کمی کرے گا؟ ذرا سوچیئے، آپ کا کوئی وزیر مشیر آپ کو یہ بات نہیں بتلائے گا جو امیر حمزہ بتلا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مال اور اقتدار کی خاطر خوشامد کرنا ہے اور ہم صحافیوں اور مولویوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے۔ آپ کی سچی خیر خواہی کرنا ہے جس میں بہرحال تلخی ہوتی ہے مگر شفاء بخش دوا میں ہمیشہ کڑواہٹ تو بہرحال ہوتی ہے۔
میاں صاحب! عملی اعلان کیجئے، شہباز نامی میگا پراجیکٹ کی سپیڈ اچھی ہے مگر جن انسانوں نے اس سپیڈ سے فائدہ اٹھانا ہے ان کی تکالیف کو دور کرنے کی سپیڈ پر بھی غور کیجئے۔ جے آئی ٹی جس کی مدت دو مہینے ہے اسی کو سامنے رکھ لیجئے، قتل اور دیگرفوجداری مقدمات کے فیصلوں کی مدت تین ماہ کر دیجئے۔ دیوانی مقدمات کی مدت چھ ماہ کر دیجئے، جن کے پاس زمین کی رجسٹری اور انتقال ہے ان کا قبضہ یقینی بنا دیجئے۔ قبضہ گروپ کے لوگوں پر فوجداری مقدمات قائم کر دیجئے۔ اپنے لخت جگر حسین نواز کے بنچ پر بیٹھنے کا مداوا یوں کیجئے۔ پاکستانی بھی خوش اور اللہ کریم بھی راضی۔ اگلی مدت آپ کی پھر باری اگر ایسا نہیں تو دنیا میں تو خواری ہے ہی، اگلے جہان میں جان ہو گی اب سے ہزاروں گنا مصیبتوں کی ماری۔ دعا ہے مندرجہ بالا کردار کے ساتھ رمضان آپ کے لئے اور ہم سب اہل پاکستان کے لئے رحمت کا باعث ہو۔(آمین)