بِگ بینگ (BIG BANG) یعنی ایک عظیم دھماکے کے بعد کائنات وجود میں آئی۔ سائنسدان اس پر متفق ہو چکے ہیں اور سرن کی لیبارٹری (L.H.C) میں تجربات بھی کر چکے ہیں۔ دھماکے سے پہلے کیا تھا کہتے ہیں کچھ نہ تھا۔ اسے وہ (NOTHINGNESS) کا نام دے دیتے ہیں یعنی ''لاَ‘‘ کی کیفیت تھی۔ سائنسدان اسے زیرو یا صفر بھی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب بھی ''لاَ‘‘ ہی ہے یعنی کچھ بھی نہ تھا۔ ریاضی میں صفر اکیلا ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ لاکھوں اربوں اور کھربوں صفر بھی ہوں حتی کہ سمندروں کے قطرات کے برابر صفر ہوں۔ آسمان کے تاروں اور درختوں کے پتوں کے برابر بھی صفر ہوں تو بے حیثیت ہیں۔ کائنات کے ایٹمی ذرات بلکہ ذیلی ذرات (SUB PARTICLES) کے برابر بھی ہوں تب بھی بے حیثیت ہیں۔ ان کی کوئی قدر نہیں۔ ان کی کوئی قیمت نہیں۔ ہاں ! ان کی قیمت بنے گی ، ان کی قدر ہو گی، ان کی حیثیت ٹھہرے گی مگر اس وقت جب اس کے ساتھ ایک لگے گا۔ ایک کے ساتھ ایک صفر لگ گیا تو دس ہو گئے ، دو صفر لگ گئے تو سو ہو گئے، تین لگ گئے تو ہزار۔ اب صفر لگتے جائیں گے اور لاکھوں ، اربوں ، کھربوں ملیں اور ٹریلین بنتے جائیں گے۔ ایک کو ہٹا دو سب صفر کے صفر ہو جائیں گے۔ ریاضی کا اصل ہندسہ ایک ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اسی ایک اکیلے نے کُن کہہ کر دھماکہ کیا اور مکمل ڈیزائن کی حامل ایک کائنات وجود میں آئی۔ وہ اللہ جب چاہیں گے یہ کائنات اور اس میں موجود ہر شئے دوبارہ صفر ہو جائے گی۔
حضرت محمد کریمؐ کے جو اولین مخاطب تھے وہ قریش تھے حضورؐ نے ان کو دعوت دی۔ لاَ اِ لٰہَ اِلاّ اللہ پر ایمان لے آئو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک کو۔ سارے کام صرف ایک ہی کرے گا۔ اچھا ! اپنے اس ایک کا تعارف کروائو۔ اللہ تعالیٰ نے سورت اخلاص نازل فرما دی۔ میرے رسولؐ ان کو بتلا دو، وہ اللہ صرف ایک ہے۔ وہ بے نیاز ہے، یعنی اس ایک کو کسی کی کوئی ضرورت اور حاجت نہیں، وہ بے پروا ہے۔ سب اس کی مخلوق ہے، خالق کو مخلوق کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے ؟ جی ہاں ! مخلوق موجود ہے تو اس کی وجہ سے ۔ اس کی رحمت سے موجود ہے۔ جب وہ نہ چاہے گا تو یہ سب کی سب زیرو اور (NOTHINGNESS) ہے۔ ''اِ لٰہ‘‘ کا معنی معبود ہے۔ یہ معبود پتھر اور لکڑی کا تراشا ہوا بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کی خواہش بھی اس کا معبود ہو سکتی ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شخص پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ اللہ کو نہ ماننے والے بعض سائنسدانوں نے اپنی خواہش کے تحت فطرت (NATURE) کو اپنا معبود بنا لیا۔ وہ فطری طبعی اور قدرتی قوانین جو اللہ نے بنائے ہیں وہ ان کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔ یہ قوانین بھی مخلوق ہیں کس قدر تعجب کی بات ہے کہ چودہ سو سال قبل پتھر کا پجاری اپنے پتھر کو معبود بنا رہا تھا تو آج کا کوئی سائنسدان ایسا بھی ہے جو قدرتی قانون کو اپنا معبود بنا رہا ہے۔ دونوں ہی اپنی خواہشات کو معبود بنا رہے ہیں۔ خارج میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ تو صفر اور زیرو ہیں۔ اس کو زیرو مانے گا تو تبھی اہل علم میں جگہ بنائے گا ، اس کو صفر مانے گا تو تبھی سائنسدان کہلائے گا۔ سرن کی لیبارٹری میں کیے ہوئے کامیاب تجربے کو ماننے کا تقاضا یہی ہے کہ صفر کو مانے۔ ''لااِلٰہ‘‘ کو تسلیم کرے اور جب (NULITY) یعنی صفر یا (NOTHINGNESS) کو تسلیم کرے گا تو اس کے بعد ''اِ لاّ اللہ‘‘ کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
نفی اور اثبات کا یہ جو کلمہ ہے حضورؐ نے اس کو ''افضل الذکر‘‘ فرمایا ہے ۔ اسے ساری کائنات سے بھاری کہا ہے۔ بھاری اور افضل کیوں نہ ہو کہ ایک اللہ کے علاوہ باقی سب کچھ زیرو ہے۔ لوگو ! آج جس قدر بھی فتنہ اور فساد ہے اس زیرو کی وجہ سے ہے۔ ہمارے اسلاف اس زیرو کو کس قدر حقیقی معنوں میں زیرو سمجھتے تھے، یہ دیکھنے کے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو دیکھ لیجئے جب وہ گورنر تھے، شہزادے تھے ۔ بنو امیہ کا یہ شہزادہ نازونعم میں زندگی گزار رہا تھا۔خلیفہ بنا تو اس کی خلافت کا رقبہ اتنا بڑا تھا کہ میرے پاکستان جیسے کوئی 25 پاکستان ہوں تو اتنی بڑی سلطنت کا وہ سلطان تھا۔ اس قدر بڑی خلافت کا وہ خلیفہ تھا۔ مگر اب وہ حقیقی عالم اور سچا سائنسدان بن چکا تھا۔ سائنس کے معنی بھی تو علم ہی ہیں۔ اب اس کی زندگی کیسے گزرتی تھی، شیخ ناصرالدین البانیؒ اپنے سلسلہ صحیحہ میں روایت لائے ہیں کہ اتنے بڑے حکمران نے اپنے گھریلو خرچ کے لیے ایک خچر رکھا ہوا تھا۔ غلام اس خچر کے ذریعے دمشق کے بازاروں میں باربرداری کا کام کرتا تھا۔ وہ روزانہ ایک درہم (چاندی کا سکہ) لاتا تھا جس سے سلطان کے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ ایک دن غلام ڈیڑھ درہم لے آیا ۔ سلطان نے سوال کیا۔ ڈیڑھ درہم کیوں؟ غلام کہنے لگا بازار تیز تھا منافع ہو گیا۔ سلطان نہیں مانا۔ کہا تم نے خچر سے اس کی ہمت سے بڑھ کر کام لیا۔ اس نے قیامت کے دن اللہ کے سامنے شکوہ کر دیا تو میں کیا جواب دوں گا ؟ اب مداوایہ ہے کہ خچر تین دن کام پر نہیں جائے گا اور اے غلام ! تم خچر کی خدمت کر کے میرا بوجھ ہلکا کرو گے۔
قارئین کرام! ہم نے یہ نعرے سنے اک آصف علی زرداری سب پر بھاری۔ وہ خود ہی بھاری ثابت نہ ہوئے بلکہ ان کے حکمران دوست اور احباب بھی قوم پر بھاری ثابت ہوں گے اور ہم قرضوں کے شکنجوں میں جکڑے ہیں۔ ان کی دنیا بھر میں جائیدادوں کا حساب کوئی نہیں۔ میاں نواز شریف صاحب آج کل اس قدر بھاری اور بوجھل ہیں کہ جے آئی ٹی کے بوجھ تلے ان کے اور ان کے پورے خاندان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ وہ دیکھتے نہیں کہ میڈیا ان چیخوں کو چٹخارے دار بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ان کے وزراء جو بیانات دیتے ہیں وہ دراصل چیخیں ہیں جو بوجھ تلے دبی ہوئی نکل رہی ہیں۔ اس کا آسان حل یہی ہے کہ اپنا بوجھ اتار دو۔ ایک لمحہ کے لیے سوچئے ! اگر جے آئی ٹی میں آپ کی کی ہوئی ریکارڈنگ، کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل آپ کے خاندان کے افراد کی گفتگو ئیں، سوالات کے جوابات جس میں یقینا دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جائیدادوں کے تذکرے ہوں گے، کس طرح بنائی گئیں، ان کے احوال ہوں گے۔ یہ سب اگر ٹی وی پر نشر ہو جائیں تو کیا ہوگا؟ اللہ اللہ ! اک زیرو کی خاطر سب لوگ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے کہیں بڑھ کر ایک منظر مرنے کے بعد اللہ کی عدالت میں بپا ہونے والا ہے۔ اس دن سچی عزت اس کو ملے گی جو سچا ہو گا۔ گزارش اور مشورہ یہ ہے کہ موجود دور کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا حلال کا مال اپنے پاس رکھ لو اور باقی سارا مشکوک مال پاکستان کے حوالے کر دو۔ پاکستان کے حوالے کر کے بھی یوں اپنے پاس رکھ لو کہ باہر کا سارا مال پاکستان میں انویسٹ کرنے کا اعلان کر دو۔ یونیورسٹیاں ، ہسپتال ، فیکٹریاںوغیرہ یہاں بنانے کا اعلان کردو۔ اللہ کی راہ میں شہداء کے نام پر وقف کر دو۔ وہ شہداء جو دہشت گردی کی جنگ میں جانیں قربان کر چکے ہیں۔ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائو گے (ان شاء اللہ ) بوجھ اتار و ، اپنا بوجھ اتارو ملک کے قرضے اتاردو۔ زیرو کو زیرو سمجھ لو اے اللہ کے بندو! ہیرو بن جائو گے۔ زیرو پر ہی اڑے رہ جائو گے تو زیرو بن جائو گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)