''احزاب‘‘ وہ جنگ ہے جسے ''غزوئہ ِخندق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ''احزاب‘‘ کا انگریزی میں مطلب ''یونائیٹڈ فورسز یا کولیشن فورسز‘‘ ہے۔ مشرکین مکہ کی قیادت میں سارے عرب کی مختلف طاقتیں مل کر مدینہ کی ریاست پر حملہ آور ہوئی تھیں اس لئے متحدہ طاقتوں کی یلغار کو قرآن نے جس سورت میں بیان فرمایا اس کا نام ہی ''احزاب‘‘ رکھ دیا۔ اس جنگ کو خندق اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے مدینہ کی حفاظت کے لئے خندق کھدوا دی تھی۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق خندق پر تعینات مدینہ منورہ کا دفاع کرنے والے صحابہ کی تعداد ایک ہزار جبکہ متحدہ فورسز کی تعداد دس ہزار تھی۔ متحدہ قوت اپنے وقت کے بہترین ہتھیاروں اور تمام سازوسامان سے مسلح اور آراستہ تھی جبکہ مسلمانوں کا حال عسکری اور معاشی لحاظ سے انتہائی پتلا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے دشمن کو خندق عبور نہیں کرنے دی۔ ایک جگہ ایسی بھی تھی جہاں مطلوبہ چوڑائی میں خندق کھودنا ممکن نہ تھا چنانچہ یہاں اللہ کے رسولﷺ نے خصوصی دستہ متعین فرمایا تھا تاکہ یہاں سے کوئی خندق پار کرنے کی کوشش کرے تو اسے تیروں کی بوچھاڑ سے روکا جا سکے۔ عمروبن عبدود جو ایک وقت میں 100جنگجوئوں پر بھاری ہو جایا کرتا تھا وہ دور سے گھوڑا دوڑا کر لایا اور تیراندازوں کی قدرے غفلت کا فائدہ اٹھا کرخندق پار کر کے اندر آ گیا۔ اس کے ہمراہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اور تین مزید سوار بھی اندرآ گئے۔ اس نے آتے ہی مسلمانوں کو للکارا۔ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت علیؓ کو مقابلے کے لئے بھیجا۔ دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حضرت علیؓ نے اسے تہ ِتیغ کر دیا۔ باقی بھاگ نکلے۔ صرف یہی ایک مقابلہ ہوا تھا جس میں مسلمان بھاری رہے۔ جنگ نہ ہوئی اور یہی مسلمانوں کی حکمت عملی تھی۔ 25دن تک محاصرہ رہا آخر آندھی اور طوفان کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور متحدہ طاقتیں کچھ حاصل کئے بغیر واپس چلی گئیں، یہی مسلمانوں کی فتح تھی۔
امریکہ دنیا کی سپرپاور ہے۔ عسکری اور معاشی اعتبار سے وہ آج بھی سپرپاور ہے۔ پاکستان کہ جسے مدینہ منورہ کی طرز پر ایک ریاست حضرت قائداعظم ؒ نے بنایا تھا۔ حقیقت میں امریکہ افغانستان میں آ کر بیٹھا ہے تو اس ریاست پر یلغارکرنے کے لئے آیا ہے۔ اس کے ساتھ باقی اتحادی طاقتیں بھی یہاں موجود ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مشرکین مکہ علانیہ لڑنے کے لئے آئے تھے جبکہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر افغانستان میں بیٹھ گیا۔ یہاں اس نے بقول جنرل حمید گل مرحوم ٹھکانہ بنا لیا اور پاکستان کو نشانہ بنانے کے موقع کی تلاش میں لگ گیا۔ سولہ سال گزر گئے مگر اسے موقع نہ مل سکا۔ پاکستان کے عسکری اداروں کو سلام کہ انہوں نے موقع نہ دیا اور ساتھ ساتھ تیاری بھی کرتے رہے۔ اب احزابی قوت کا سربراہ تلملا کر رہ گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دے ڈالی ہے۔ پاکستان کو دہشت گرد قرار دے کر معاشی ناطقہ بند کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ انڈیا کو مشرقی سمت سے یلغار کیلئے تیار کر دیا ہے اور مغربی سمت سے اتحادی طاقتوں سمیت خود یلغار کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھا ہے۔ اس موقع پر ہماری یعنی اہل پاکستان کی وہی حالت ہے جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے پندرہ سو سال قبل کھینچا تھا۔ ایک حالت پیٹ پر پتھرباندھ کر مقابلہ کرنے والے سچے مسلمانوں کی تھی اور دوسری حالت مالدار اشرافیہ کی تھی۔ آیئے! پہلے سچے مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہیں، فرمایا! ''جب مومنوں نے اتحادی طاقتوں کو دیکھا تو بول اٹھے یہ تو وہی منظر بن گیا جس کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے وعدہ کر رکھا تھا (کہ حق پر ڈٹ جانے کی وجہ سے دنیا تم سے لڑنے کو آئے گی اور فتح تمہاری ہو گی) اللہ نے بھی سچ فرمایا اور اس کے رسولﷺ نے بھی سچ فرمایا۔ الغرض! اتحادی طاقتوں کی اس حرکت نے مسلمانوں کو ایمان اور فرمانبرداری میں اور زیادہ پختہ کر دیا۔‘‘ (احزاب 22:) قارئین کرام! اور اب قرآن میں مالدار اشرافیہ کی حالت کا نظارہ کیجئے۔ انہیں مخاطب کر کے فرمایا ''وہ وقت بھی یاد کرو جب وہ تم پر یلغارکرنے کو تمہارے اوپر کی سمت سے بھی چڑھ آئے اور تمہارے نیچے کی جانب سے بھی بڑھتے آئے۔ اس وقت آنکھیں پتھرا گئی تھیں، کلیجے مونہوں کو آن لگے تھے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں بھی یہ گمان کرنے لگ گئے تھے۔ (کہ کہاں گیا اللہ کی مدد کا وعدہ؟) (الاحزاب10:)
قارئین کرام! ہم اخبارات میں ملاحظہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی اربوں پتی اشرافیہ کے خاندانوں نے امریکہ، یورپ اور دبئی وغیرہ میں محلات بنائے ہوئے ہیں۔ جائیدادیں، پلازے اور جاگیریں بنا رکھی ہیں۔ بینکوں میں پیسہ رکھا ہوا ہے۔ فیکٹریاں بنا رکھی ہیں۔ ان میںسے کئی لوگ موجودہ حالات میں خطرات کو بھانپتے ہوئے جا چکے ہیں اور جو یہاں پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کے بھی ویزے لگے ہوئے ہیں۔ زیادہ خطرہ بھانپتے ہوئے وہ بھی پرواز کر جائیں گے۔ اس کیفیت اور حالت کے لوگوں کا بھی قرآن میں تذکرہ موجود ہے۔ فرمایا! ''یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ابھی اتحادی طاقتیں واپس گئی نہیں اور اگر یہ طاقتیں آ جائیں تو ایسے لوگ خواہش کریں گے کہ کاش وہ (مدینہ سے ذرا دور) دیہاتی لوگوں (علاقوں) میں رہائش پذیر ہوتے۔ (اور وہیں سکون سے بیٹھ کر) تمہاری خبریں پوچھتے رہتے (کہ اتحادی طاقتوں کی یلغاروں میں مارے گئے ہیں یا بچ گئے ہیں) حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر تم میں (مدینہ میں) موجود بھی ہوتے تو کیا لڑتے، سوائے قلیل کے‘‘ (الاحزاب 20:)
جی ہاں! ہماری اشرافیہ امریکہ، یورپ اور دبئی وغیرہ کی رہائش گاہوں میں بیٹھ کر نظارہ کرتی رہے گی کہ20کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ جہازوں پرجھٹ سے یہاں آ جاتے ہیں۔ خطرہ محسوس ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں۔ آنا جانا ان کا لگا رہتا ہے۔ جب خطرہ شدید ہو گا یہ بھاگ جائیں گے اور باہر بیٹھے ٹی وی پر دیکھیں گے کہ ہم مر گئے ہیں یا کچھ بچ گئے ہیں۔ یہ ہے وہ کردار جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہم اسے ہو بہو آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں مدنی ریاست کے حکمران حضرت محمد کریمﷺ کا خوبصورت دلیرانہ کردار بیان فرماتے ہیں۔ ملاحظہ ہو، فرمایا! ''حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب 21:) یعنی تم دیکھتے نہیں کہ میرے رسول حضرت محمد کریمﷺ حکمران ہیں۔ میرے رسولؐ ہیں۔ وہ خندق بھی کھود رہے ہیں۔ پیٹ پر دو پتھر بھی بھوک کی وجہ سے باندھ رکھے ہیں۔ تمہارے اندر موجود ہیں۔ جس حالت میں مدینے کے لوگ ہیں اسی حالت میں وہ خود ہیں۔ ان کا باہر کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ان کے بیوی بچے مدینہ میں ہیں۔ حضرت عائشہؓ اور دیگر ازواج مطہرات مدینہ میں ہیں۔ حضرت فاطمہؓ اور ان کے بچے حسن ؓ و حسینؓ مدینہ میں ہیں۔ اپنی خواہشیں دیکھو اور میرے مصطفی ﷺکا خوبصورت کرداردیکھو اور سوچو کہ تم کیا کر رہے ہو۔ جی ہاں! یہ ہے ''اسوۃ حسنہ‘‘ کہ آج پاکستان میں بھی یہ فیصلہ ہونے جا رہا ہے کہ کون اس کا حامل ہے اور کون ہے جو باہر بھاگنے کو تیار ہو کر ہم اہل پاکستان کے نظارے کرنا چاہتا ہے کہ مر گئے ہیں یا بچ گئے ہیں؟ میرا ایمان ہے کہ جس طرح پندرہ صدیاں قبل اتحادی طاقتیں ناکامی کا منہ دیکھتے واپس چلی گئی تھیں آج بھی یہ واپس چلی جائیں گی۔ قرآن نے نقشہ کھینچا ہے، فرمایا! ''کافر طاقتیں جو غیظ و غضب میں تھیں۔ اللہ ان کو اسی حالت میں واپس لے گیا۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ مدنی فوج کو جنگ کرنا ہی نہ پڑی اللہ نے خود ہی جنگ کر لی کیا شک ہے۔ اللہ تعالیٰ انتہائی قوت والا اور سب پر غلبہ رکھنے والا ہے۔ (الاحزاب 25:)
قارئین کرام! ہماری پاک افواج نے اپنے سالارِ اعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں افغانستان کے بارڈر کے ساتھ خندق کھود لی ہے۔ باڑلگا دی ہے۔ دوسری جانب اقتصادی راہداری بھی ہمارے لئے اک حفاظتی چھتری کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ چین جیسا دوست ہمسایہ اس جانب سے ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ روس نے بھی حمایت کر دی ہے۔ اے اہل پاکستان! آیئے، ایسے موقع پر پاک افواج کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن جایئے۔ اپنے سیاسی اوردیگر اختلافات کو بھول جایئے۔ گھر کی حفاظت کے لئے سرحدوں کے نگہبانوں کو خراج تحسین پیش کیجئے۔ دشمن کو پیغام دیجئے کہ ہم پاک افواج کے شیروں اور دلاوروں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ یہ پیغام جائے گا تو اتحادی طاقتیں واپس جائیں گی۔ انڈیا جسے افغانستان میں کردار دینے کی باتیں ہیں۔ وہ دہشت گردی کا کردار اک عرصہ سے ادا توکر رہا ہے وہ بھی یہاں سے واپس جائے گا۔ جی ہاں! کردار باقی رہ جائیں گے۔ سورۃ احزاب میں دو کردار ہیں۔ اے میرے پاکستانی بھائی، بیٹے، بہن اور بیٹی! بتلا تو کس گروہ میں ہے۔ مدنی گروہ میں شامل ہونے والے ہر پاکستانی کو مبارکباد کہ کامیابی اسی کے لئے۔ اسی کے لئے۔ جی ہاں! اسی کے لئے ہے۔ (انشاء اللہ)