''ایکسپریس وے‘‘ پر چلتے ہوئے مری ہمارے بائیں رہ گیا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ''نیو مری‘‘ کے نام سے ایک پررونق قصبہ آیا۔ یہاں شہید ارسلان کو خراج تحسین کے بینرز لگے ہوئے تھے۔ ہم مزید کوئی آدھا گھنٹہ چلے ہوں گے۔ اب ہم ''کوٹلی ستیاں‘‘ کے علاقے میں تھے۔ مری اور کوٹلی ستیاں‘ دونوں تحصیلیں راولپنڈی سے متعلق ہیں۔ ایک سرسبز پہاڑ کے دامن میں ہم نے گاڑی کھڑی کر دی۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی پر ''گیل‘‘ نامی گائوں ہے۔ مقامی لوگوں سے پوچھا کہ گیل گائوں کی جانب کون سا راستہ اوپر کو جاتا ہے۔ انہوں نے ایک راستے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتلایا کہ سفید چونے کی لکیریں آپ کو شہید ارسلان کے گھر لے جائیں گی۔ اب ہم نے چونے کی لکیروں کو راہبر بناتے ہوئے چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں گھنے درخت، سرسبز اور خوبصورت پہاڑی زینے اور حسین مناظر دیکھتے ہوئے کوئی آدھ گھنٹہ بعد ہم شہید ارسلان کے گھر میں تھے۔ میں ان راہوں پر چلتا ہوا سوچے جا رہا تھا کہ دو بہنوں سے چھوٹا بھائی جب سکول میں جانے کے قابل ہوا تو انہی راہوں پر وہ کھیلتا ہوا، بستہ اٹھائے ہوئے، ماں باپ اور بہنوں کے ہاتھوں سے ٹفن میں بند اپنا لنچ لیتے ہوئے متواتر سات سال تک سکول جاتا رہا۔ ارسلان کے خوبصورت مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اب ننھے ارسلان کے باپ نے ایک اور فیصلہ کیا کہ ارسلان کی تعلیم کے لئے کیوں نہ پنڈی میں گھر لیا جائے تاکہ وہاں ارسلان کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر فوج میں افسر بنایا جائے، چنانچہ اپنے فیصلے پر عمل کر ڈالا اور دفاع پاکستان کی خاطر گیل گائوں کی خوبصورت وادی سے یہ فیملی راولپنڈی منتقل ہو گئی اور ارسلان کا مستقبل فردوس بریں میں تابناک ہو گیا (انشاء اللہ)
اسلام آباد سے جناب شفیق صاحب اور دیگر احباب میرے ہمراہ تھے۔ مندرجہ بالا سوچوں کو لئے ہوئے اب میرے سامنے شمشیر عالم تھے‘ ارسلان کے خاموش طبع اور دھیمی طبیعت کے حامل ملنسار والد گرامی۔ میں ان سے گلے ملا اور سوچنے لگ گیا کہ نام کا مطلب تو دنیا کی تلوار ہے مگر ان کے نام کا نظارہ ساری دنیا کو دکھلایا تو تیز دھار بن کر ارسلان نے دکھلایا۔ اس دھار کو تیز کیا تو شمشیر عالم نے ہی کیا۔ میں شمشیر عالم کے پہلو میں صوفے پر بیٹھا تو میرے دائیں جانب انگیٹھی پر ارسلان کی خوبصورت باوردی تصویر کے ساتھ ایک اور وردی پوش کی تصویر تھی۔ اس کے بارے میں پوچھا تو بتلایا گیا کہ یہ فیاض شہید ہیں۔ نیوی میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھے۔ 23 ستمبر 1990ء کو شہید ہوئے۔ یہ شمشیر عالم کے بھائی تھے۔ جی ہاں! اب معلوم ہوا کہ یہ خاندان شہیدوں اور غازیوں کا خاندان ہے۔ اس خاندان کے اور افراد بھی پاک افواج میں ہیں۔ 1990ء کے ٹھیک پانچ سال بعد اللہ تعالیٰ نے شمشیر عالم کو دو بیٹیوں کے بعد بیٹا دیا تو شمشیر عالم نے اس بیٹے کو پاک فوج میں فیاض شہید کی شمشیر کو پکڑنے پر لگا دیا۔ اب پتہ چلا کہ دھیمی طبیعت والا، خاموش طبع شمشیر عالم اندر سے کس قدر نظریاتی ہے‘ کس قدر مضبوط انسان ہے۔ مجھے کہہ رہے تھے کہ بیٹے کی جدائی کا غم، دکھ اور صدمہ فطری بات ہے مگر اس نے اللہ کی راہ میں قربانی دی ہے۔ پاکستان اور اہل پاکستان کی حفاظت کے فریضے کا حق ادا کیا ہے، اس پر مجھے فخر ہے۔ بیٹھک میں بیٹھا ایک اور عزیز بولا، حمزہ صاحب! اللہ کی قدرت دیکھئے 23 ستمبر کو شہید ارسلان کا چچا جس وقت شہید ہوا، 23 ستمبر کو اسی ٹائم پر فیاض شہید کا بھتیجا ارسلان شہید ہوا۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر خزانہ کا تذکرہ بھی ہوا کہ اکلوتے بیٹے کی شہادت پر باپ کس قدر حوصلے اور فخر کے ساتھ مضبوط ہے، جبکہ پاکستان کا اربوں روپیہ باہر لے جانے والا اپنے جرائم کے بوجھ تلے دبا ہوا‘ جب جج کے سامنے پیش ہوا تو دونوں بازوئوں سے پکڑ کر لوگوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ بیچارے کا وزن چند دنوں میں 15 کلو کم ہو گیا ہے۔ میں سوچنے لگ گیا، کہاں شاہین صفت والدین جو اپنے جگر گوشوں کی قربانیاں دینے والے ہیں اور کہاں وہ لوگ جو گِدھوں کی طرح اہل پاکستان کے معاشی جسم کو نوچ کر کھا رہے ہیں۔ کیسے وقت پر مجھے پیر مہر علی شاہ مرحوم کا شعر یاد آیا!
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
ایک عزیز نے شہید کی ذاتی ڈائری کا تذکرہ شروع کر دیا۔ کہنے لگا: ارسلان کی ڈائری میں بہت ساری باتیں ہیں جو اس کی بلند سوچ کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ شہادت کی تمنا اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کہیں کہ بڑا بہادر تھا۔ شہادت کی تمنا صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے۔ یہی سچی شہادت ہے۔ اپنی ڈائری میں ارسلان مزید لکھتا ہے ''جس کو شہادت چاہیے وہ اپنی زندگی کو پاکیزہ بنائے۔ نظر کو حیا اور شرم کے زیور سے آراستہ کرے‘‘۔ ایک اور عزیز مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا: ''ارسلان پانچ وقت کا نمازی تھا۔ ہم مجلس میں سب بیٹھے ہوئے ہیں، کیا دیکھتے ہیں ارسلان غائب ہو گیا، ہم سمجھ جاتے تھے نماز کا ٹائم ہو گیا‘‘۔ نماز کا ٹائم ہو جاتا تھا تو وہ کسی کا دوست نہ رہتا تھا۔ جی ہاں! پھر وہ اپنے اللہ کا دوست بنتا تھا۔ دوستی ہو تو ایسی۔ شہادت ملتی ہے تو ایسے ہی بلند کردار لوگوں کو ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا‘ وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئ، یاد رکھو! تم لوگوں میں سے شہیدوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ ارسلان کو شہادت کا کس قدر شوق تھا کہ شہادت سے کچھ دیر پہلے ایک دوست نے میسیج کیا کہ کیا کر رہے ہو تو کہا: گولی کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں کہتا ہوں مذکورہ جملہ اس کی زبان سے اللہ تعالیٰ نکلوا رہے تھے۔ ابھی چند دن پہلے وہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد دشمنوں کے ساتھ معرکہ لڑ چکے تھے۔ اس معرکے میں دو جوان زخمی ہوئے تھے اور لیفٹیننٹ ارسلان محفوظ رہے تھے۔ 23 ستمبر کو انہوں نے راجگال کی پوسٹوں پر اپنے جوانوں کو پیچھے رکھا اور خود اگلی پوسٹ پر دشمن کی نقل و حرکت کا متواتر جائزہ لیا۔ وہ شہادت کا متمنی ایسا بہادر تھا کہ گردن اوپر اٹھا کر دور تک دشمن کی موجودگی کو دیکھنا چاہتا تھا اور پھر سامنے کی ایک چوٹی سے دہشت گرد دشمن کے سنائپر سے گولی آئی اور ارسلان کی پیشانی پر لگی۔ وہ پیشانی جو اللہ کے ساتھ محبت اور دوستی کی دلیل ہے کہ ارسلان سب دوستوں کو چھوڑ کر اس پیشانی کو زمین پر رکھ کر اپنے رب سے دوستی کا حق ادا کیا کرتا تھا۔ آج مولا کریم نے اپنی دوستی کا تمغہ اس طرح دیا کہ اسی مقام پر شہادت کا رتبہ عطا فرمایا۔ میں شہید کے والد سے عرض کر رہا تھا، دنیاوی زندگی چند روز کی ہے۔ مزید کتنا جی لیں گے پانچ سال، دس سال اور آخرکار ہم نے وہیں جانا ہے۔ آپ کا رتبہ یہ ہے کہ ارسلان ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں لے جائے گا (انشاء اللہ) اور بخاری میں مذکور اللہ کے رسولﷺ کی حدیث کے مطابق قیامت کے دن ارسلان کی پیشانی سے خون رِس رہا ہو گا۔ خون کا رنگ تو سرخ ہو گا مگر خوشبو کستوری کی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ یہ منظر ساری مخلوق کے سامنے اس لئے بنائے گا تاکہ شہید کے ساتھ اپنی دوستی کا مخلوقات کو نظارہ کروائے۔
پاک فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ یہاں تشریف لائے اور انہوں نے شہید ارسلان کی شہادت پر اپنے جن جذبات کا اظہار کیا وہ فطری جذبات ہیں۔ انہوں نے کہا: جب پاک فوج کا سپوت شہید ہوتا ہے تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میرے جسم کا ایک حصہ مجھ سے الگ ہو گیا ہے۔ رات کو سوتے وقت میں تادیر بے سکون رہتا ہوں، پھر جب صبح اٹھتا ہوں تو اس عزم کے ساتھ کام پر لگ جاتا ہوں کہ پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرکے چھوڑیں گے۔ اہل پاکستان کو سکون اور امن دے کر چھوڑیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے پاکستان سے باہر بیٹھے ان لوگوں کو بھی للکارا جو پاکستان کے خلاف دشمنوں کے ساتھی بن چکے ہیں کہ ان کے عزائم کو خاک میں ملایا جائے گا۔ ارسلان شہید کے گیل گائوں میں جنرل باجوہ صاحب کا مذکورہ پیغام اہل پاکستان کو اک ولولہ تازہ دے گیا ہے۔ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ میں کہتا ہوں، امریکہ جو انڈیا کو افغانستان میں کردار پر مزید کردار دیئے چلا جا رہا ہے اور اصرار کیے چلا جا رہا ہے‘ وہ کردار انتہائی ناپاک کردار ہے۔ دہشت گرد آتے ہیں اور پاکستان میں دراندازی کرکے یہاں دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں۔ ارسلان جیسے شیر جوان اگلے مورچوں پر اپنی پیشانیاں اور سینے پیش کرکے پاکستان کو امن دے رہے ہیں۔ ان کے سالار کا دکھ اور درد فطری ہے۔ وہ اک روحانی باپ ہے، اس کے غم اور الم کا اظہار واضح ہے۔ اس دکھ اور درد کے ساتھ 22 کروڑ پاکستانیوں کو کھڑا ہونا ہو گا کہ ان کا امن و چین جن ارسلانوں کی شہادتوں کی وجہ سے ہے وہ ان کے پشتیبان بنیں۔ ان کے خلاف کوئی جملہ سننا گوارا نہ کریں اور وہ لوگ جو پاکستان کے ارسلانوں کا معاشی خون پی کر باہر کے ملکوں میں محلات بناتے ہیں اور ویزے لئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ جب مشکل وقت آئے گا وہ اڈاری مار کر بھاگ جائیں گے‘ ایسی سوچ کو ہمیں شکست دینا ہو گی۔ پاکباز ارسلانوں کے پاکیزہ خون کو اس طرح یقین کے ساتھ خراج تحسین پیش کرنا ہو گا کہ پاکستان قائم و دائم رہے گا اور پاکستان کی پاسبانی کا کردار اب ہم نے ان لوگوں کو دینا ہو گا جن کا سب کچھ پاکستان کی مٹی میں ہے۔ وہ مٹی کہ جس مٹی میں ارسلان عالم کا پاکیزہ خون ہے اور پاکیزہ جسم گیل گائوں میں مدفون ہے۔ جی ہاں! ہماری امیدوں کا وہی مرکز ہے کہ جس کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے۔ پاکستان زندہ باد۔