آخری الہامی کتاب قرآن کریم کی ترتیب دو طرح سے ہے۔ پہلی ترتیب وہ ہے جو ''لوحِ محفوظ‘‘ میں موجود ہے۔ اسی ترتیب کے ساتھ آج قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ دوسری ترتیب وہ ہے جس میں یہ23سالوں میں حالات کے مطابق آخری رسولِ گرامی حضرت محمد کریمؐ پر قرآن نازل ہوتا رہا۔ پہلی ترتیب کا آغاز ختم نبوت سے ہوتا ہے جبکہ دوسری ترتیب کا اختتام ختم نبوت پر ہوتا ہے۔ اس سے ختم نبوت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ترتیبوں میں ختم نبوت کا کس عظیم الشان طریقے سے اظہار کر دیا کہ الہام الٰہی کا آغاز بھی ختم نبوت سے اور اختتام بھی ختم نبوت پر فرما دیا۔ لوحِ محفوظ کی ترتیب میں پہلی سورۃ فاتحہ ہے۔ اسے مفسرین نے قرآن کی اساس اور دیباچہ قرار دیا ہے۔ اس میں اللہ کی عظمت اور توحید کا بیان ہے اور بندے کی جانب سے اس پر کاربند ہونے کا اظہار ہے۔ اس کے بعد ''ذٰلک الکتاب‘‘ سے قرآن کے مضامین کا آغاز ہوتا ہے۔ آغاز ہوتے ہی اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کی چوتھی صفت یہ بیان فرماتے ہیں کہ اے میرے پیارے حبیبؐ! یہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور جو کتابیں آپؐ سے پہلے اتاری گئیں، یہ ان پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی تورات، زبور اور انجیل پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں۔ جی ہاں! ماضی کی الہامی کتابوں کا بھی تذکرہ ہو گیا اور حالیہ الہامی کتاب قرآن کا بھی تذکرہ ہو گیا۔ مستقبل کی کسی کتاب کا اللہ نے ذکر نہیں فرمایا۔ اگرمستقبل میں کوئی نبی اور اس پر کتاب کا نزول ہونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ مستقبل کا تذکرہ یوں فرما سکتے تھے ''وَمَا یُنْزَلُ مِنْ بَعْدِکَ‘‘ اور وہ اس پر بھی ایمان لائیں گے کہ جو آپ کے بعد نازل ہو گا۔ مگر کوئی نبی آنا ہی نہ تھا، نہ کتاب نے نازل ہونا تھا تو تذکرہ کیسے ہوتا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ماضی کی کتب اور قرآن مجید کا تذکرہ کرنے کے بعد قیامت کا ذکر فرما دیا کہ ایسے پرہیز گار لوگ ''وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْن‘‘ آخرت (قیامت) پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی قرآن اور صاحبِ قرآن حضرت محمد ذی شانؐ کے بعد قیامت ہی آئے گی۔ حضورﷺ کی نبوت قیامت تک ہر دم اور ہر آن تازہ رہے گی۔ ہر ثانیہ اور ہر لحظہ جدید ترین اور ماڈرن ترین رہے گی۔ قارئین کرام! 23سالوں میں اترنے والی دوسری ترتیب کو ''نزولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی آخری آیت جو حضورﷺ کے الوداعی اور آخری حج پر نازل ہوئی۔ ختم نبوت کا پیغام یوں سناتی ہے:
''آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لئے بطور نظام کے اسلام کو پسند فرما لیا۔‘‘ (المائدہ: 3)
جی ہاں! دین مکمل ہو گیا، یہی ختم نبوت ہے، کائنات کی سب سے بڑی نعمت کا اتمام ہو گیا۔ اس کے بعد کوئی نعمت نہ رہی۔ یہی ختم نبوت ہے اوریہ سب سے بڑی اور آخری نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو پسند فرما لیا ہے، اس میں یہ پیغام ہے کہ حضورﷺ کے ذریعہ جو پیغام آ گیا اس کے بعد قیامت تک اللہ کی کوئی اور پسند ہی نہیں۔ یوں ختم نبوت کے بارے میں تین مختلف انداز اختیار کر کے اللہ نے آخری رسولؐ کے آخری حج پر اپنا آخری پیغام سنا دیا۔ اسی لئے میں نے عرض کیا کہ قرآن کی پہلی ترتیب کا آغاز ختم نبوت ہے تو دوسری ترتیب کا اختتام بھی ختم نبوت ہے۔
اللہ کے رسولﷺ چار بیٹیوں کے باپ ہیں۔ چاروں جوان ہوئیں اور شادیاں ہوئیں، یوں حضور نبی کریمؐ چار خواتین کے والد گرامی ہیں۔ ہمارے حضورؐ چار بیٹوں کے بھی باپ ہیں، چاروں بچے طاہر، طیب، قاسم اور ابراہیم بچپن اور شیرخوارگی میں وفات پا گئے، لہٰذا ہمارے حضورﷺ جوانی کی عمرکو پہنچنے والے کسی مرد جوان کے باپ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی 9روحانی مائیں تھیں اللہ چاہتے تو جوان بیٹوں کی صفیں بن جاتیں، مگر پھر ہو سکتا تھا کہ آنے والے دور میں کوئی کذاب اٹھتا۔ اپنے آپ کو حضورﷺ کی صلبی اولاد میں سے بیٹا قرار دیتا اور نبوت کا اعلان کر دیتا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے رسولؐ کی ختم نبوت اس قدر عزیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کی شاندار عمارت میں ایسی ممکنہ نقب کا راستہ بھی بند کر دیا اور فرمایا ''(اے مسلمانو! میرے پیارے مصطفی حضرت) محمد ؐ تم مرد حضرات میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ آپ کا منصب اللہ کا رسول ہونا ہے۔ آپ تمام نبیوں کا اختتام کرنے والے (آخری نبی) ہیں۔ (اللہ تعالیٰ مستقبل کے ممکنہ سوراخ اس لئے بند کر رہے ہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ (قیامت تک) ہر وقوع پذیر واقعہ کا علم رکھتے ہیں۔‘‘ (الاحزاب 40:)
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ جب بارہ ربیع الاول کو اس دنیا سے تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے محبوب گرامیؐ سے سنا ہوا فرمان صحابہ کرامؓ کو یوں سنایا ''اللہ تعالیٰ ہر نبی کو ایسے مقام پر وفات دیتے ہیں جس جگہ وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں لہٰذا حضورﷺ کو آپؐ کے بستر والی جگہ پرہی دفن کر دو (ترمذی1018:) جی ہاں! اللہ کے رسولؐ نے اپنے حجرہ مبارک اور منبر شریف کے درمیان والی جگہ کو جنت کا باغ قرار دیا تھا۔ (بخاری 1196:) یہی جگہ ہمارے حضورؐ کی پسندیدہ تھی اس لئے کہ یہ جگہ فردوس بریں کا حصہ ہے۔
اللہ اللہ! یہ مبارک مقام ''روضۂ رسولؐ‘‘ کے مبارک نام سے معروف ہے۔ مسجد نبوی کی توسیع ہوئی تو ''روضہ رسولؐ‘‘ فردوس بریں کا سبز نگینہ بن کر دلوں کا سرور بن گیا۔ مسجد نبوی شریف کی زیارت کو جائیں تو جنت کا یہ مقام آنکھوں کا نور بنتا ہے۔ روضۂ رسول بھی جنت کا لعل ہے اور مسجد نبوی میں منبر رسول کا مقام بھی جنت کا یاقوت ہے۔ جنت میں کھڑے ہو کر حضورؐ کے بہشتی روضے کا نظارہ لطف و سرور کو دوبالا کردیتا ہے۔ میرے حضورؐ کا ایک اور فرمان ہے ''تین مسجدوں کو ہی خصوصی مقام سے نوازا گیا ہے کہ ان کی جانب ہی ثواب کے ارادہ سے سفر کیا جائے۔ ان کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف اونٹوں کے کجاوے کَس کر سفرنہ کیا جائے: وہ تین مساجد مسجد حرام، اللہ کے رسولؐ کی مسجد اور مسجد اقصیٰ ہیں۔‘‘ (بخاری 1190:) ہمارے حضورؐ نے یہ بھی فرمایا! ''میں تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہوں اور میری مسجد تمام مسجدوں میں سے آخری مسجد ہے۔‘‘ (مسلم 507:) اللہ اللہ! آخری مسجد کے طاقچوں میں آخری قرآن، آخری مسجد کے پہلو میں آخری رسولؐ کا روضہ۔ قرآن، رسول اور مسجد تینوں ہی ختم نبوت کے شعار۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
مرزا قادیانی کے دور میں تین ایسے علمائے کرام ہو گزرے ہیں جو مسلمانوں کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے مباہلے کے نتیجے میں مرزا قادیانی ان کی زندگی میں موت سے دوچار ہوا۔ مولانا پاکستان آ کر فوت ہوئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اور حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے بھی ختم نبوت میں باکمال کردار ادا کیا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ کا یہ شعر مجھے بڑا ہی سرور دیتا ہے۔
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ کے شعر کے کئی پہلو ہیں، ان پر کتاب لکھ سکتا ہوں مگر سردست میرے سامنے ختم نبوت کا پہلو ہے۔ مسیلمہ کذاب کے چالیس ہزار مرتدوں نے اپنی آنکھوں کو اس وقت گستاخ بنا لیا جب حضرت محمد کریمؐ سے آنکھوں کو ہٹا کر مسیلمہ کذاب پر مرکوز کر لیا اور پھر یہ آنکھیں ریاست مدینہ کو گھورنے لگیں چنانچہ یہ جن سروں پر تھیں‘ حضرت خالدؓ بن ولید نے اللہ کی تلوار بن کر ان کو تن سے جدا کر کے بے نور کردیا تھا۔ پیرمہر علی شاہ جیسے محب رسولؐ تعجب کرتے ہیں کہ اے قادیانیو! تمہاری نگاہیں اس مرزا پر مرکوز ہو گئیں جو اپنی ناپسندیدہ ترین جگہ پر موت سے دوچار ہوا۔ ہیضے کے مرض میں مبتلا لیٹرین میں مرا۔
قادیانی غیر مسلم قرار پائے۔ ان کو پاکستان میں امن ہے مگر غیر مسلم بن کر رہیں۔ جی ہاں! جن لوگوں نے حالیہ قانون سازی میں ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی اور ختم نبوت کی خوبصورت عمارت کے حسن میں کمی اور نقص کی انتہائی مذموم کوشش کی، ان کو منظرعام پر لا کر سزا ضرور ملنی چاہئے۔ نگہبانی کا کردار ادا کرنے والے تمام لیڈروں اور علماء کو سلامِ عقیدت۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضورؐ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کا جام نصیب فرمائے۔ ختم نبوت کا دمکتا تخت تا قیامت زندہ باد، پاسدارانِ ختم نبوت پائندہ باد۔