میں محمد نواز گوہر کے گھر پہنچا، کئی سالوں بعد آج ملاقات ہو رہی تھی۔ ہم دونوں بغلگیر ہوئے اور کتنی ہی دیر تک یونہی کھڑے رہے۔ محمد نواز گوہر نے کہا، حمزہ یار! تیرے بھتیجے حسنین نے ننکانہ کی سرزمین کو چارچاند لگا دیئے ہیں۔ جنت میں اکٹھے جائیں گے۔ حسنین اپنے باپ محمد نواز اور چچا امیر حمزہ کو جنت میں لے جائے گا۔ میں نے کہا: کیا شک ہے حسنین میرا بھتیجا ہے، ہم جنت میں اکٹھے جائیں گے (ان شاء اللہ) اور ایک بار پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔
قارئین کرام! کیپٹن حسنین شہید کی عظیم شہادت اور اس کے عالمی اثرات پر گفتگو ذرا بعد میں... پہلے یہ عرض کر دوں کہ میرا آبائی شہر ننکانہ صاحب ہے۔ حسنین کے والد محمد نواز اور میں نے گورنمنٹ گورو نانک ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ہم دونوں دوست تھے۔ دونوں کا ذہن اسلامی اور دینی تھا۔ سکول میں ہمارے درمیان بحث بھی ہوتی مگر محبت، دوستی اور احترام کا رشتہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ سکول کے بعد ہم دونوں گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخل ہو گئے۔ میں تو چند ماہ پڑھنے کے بعد مدرسہ میں داخل ہو گیا جبکہ محمد نواز صاحب نے ایم اے اسلامیات کر لیا۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا جب کالونی شاد باغ کی دو مسجدوں میں ہم نے خطابت شروع کر دی۔ جمال مصطفی مسجد میں محمد نواز صاحب تھے اور مبارک مسجد میں‘ مَیں تھا۔ محبت اور پیار کا رشتہ مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ پھر میں لاہور چلا آیا تو فراق کے دن برسوں پر پھیل گئے۔ محمد نواز کہنے لگے، حمزہ صاحب! معلوم ہے جب آپ نے زندگی میں پہلی کتاب ''بارانِ توحید‘‘ لکھی تو اس کا ایک نسخہ مجھے دیا۔ وہ آج تک میری لائبریری میں موجود ہے۔ میں آپ کو اخبارات اور ٹی وی پر دیکھتا اور خوش ہوتا تھا کہ میرا بھائی بہت آگے چلا گیا۔ اب تو ملنے سے بھی گیا۔ میں نے کہا: آج میں آپ کے ہاں آیا ہوں تو حسنین کی شہادت نے آپ کو سارے پاکستان کے لوگوں میں اک ممتاز مقام سے نواز دیا ہے۔ آج میرے لئے فخر ہے کہ میں اپنے عظیم بھائی سے ملنے آیا ہوں‘ جو میرے شہید بھتیجے کا باپ ہے۔ ایسا شہید کہ جس کی شہادت نے بین الاقوامی سفارتی ہوائوں کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے۔
حسنین کی شہادت سے چند دن قبل ماحول کچھ ایسا تھا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کودھمکیاں دے ڈالی تھیں کہ افغانستان میں ہماری ہزیمت کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ اس کے لئے آخری موقع ہے‘ ہم ہر حد تک جائیں گے یعنی سفارتی زبان میں یہ جنگ کی دھمکی تھی۔ ایسی کشیدگی اور دھمکی کے ماحول میں امریکہ نے اچانک پاکستان سے رابطہ کیا اور مجبوراً کیا... رابطے میں ایک پیغام تھا۔ پیغام میں درخواست اور لجاجت تھی کہ ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہماری ایک فیملی پچھلے پانچ سالوں سے افغانستان میں اغوا کاروں کے پاس تھی‘ ہماری انٹیلی جنس رپورٹ اور ڈرون طیارے سے لی گئی فلم کے ذریعے اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ اغوا کار اس فیملی کو افغانستان کے صوبہ پکتیا سے کرم ایجنسی میں منتقل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ فیملی کار کی ڈگی میں بند ہے۔ ان سے مقابلہ ہوا تو یہ لوگ فیملی کو قتل کر دیں گے۔ ڈگی میں جوشوا اور اس کی بیوی کیٹلان کے علاوہ ان کے تین بچے بھی بند ہیں۔ پلیز مدد کریں اور انہیں بحفاظت بازیاب کروائیں۔ ادھر پاک فوج نے مظلوموں کی مدد کا مثبت جواب دیا اور پھر اس فیملی کو بازیاب کروانے کے لئے کیپٹن حسنین کو اس آپریشن کی کمانڈ سونپ دی گئی۔ کیپٹن حسنین نے سکیورٹی کا جال بُن دیا۔ جوانوں کو ہدایات دیں کہ ڈگی کو ہر صورت محفوظ رکھنا ہے۔ یوں دہشت گردوں کو ایک جھڑپ کے بعد پار لگا دیا گیا اور کینیڈین خاندان کو محفوظ و مامون کینیڈا میں پہنچایا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے۔ پاکستان کی تعریف کی، شکریہ ادا کیا اور پاکستان کے کردار کو سراہا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے پاک امریکہ تعلقات میں تنائو ختم ہو گیا۔ چند دن کے بعد امریکی سفیر نے پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ جنرل صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھے، چھڑی ہاتھ میں تھامے قدرے شان بے نیازی سے بیٹھے ہیں اور امریکی سفیرفدویانہ انداز میں بیٹھے ہیں۔ یہ بہت بڑا پیغام ہے اور اس پیغام کے پیچھے میرے بھائی اور دوست محمد نواز کے جگر گوشے میرے بھتیجے حسنین نواز کا پاکیزہ خون ہے۔ اس خون نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو قد آوربنا دیا ہے۔ قد آور آرمی چیف کے قد کو اور اونچا کر دیا ہے۔
دنیا بھرکے لوگو! ایک بات پر غور کرو، اغوا ہونے والا خاندان پاکستان سے افغانستان میں داخل نہیں ہوا۔ یہ وسط ایشیا کے ملک ازبکستان سے ترمذ کے راستے افغانستان میں آئے اور پھر کابل کے نواح میں اکتوبر 2012ء میں اغوا ہوئے۔ پانچ سال تک افغانستان میں رہے۔ ان کی ویڈیوز جاری ہوتی رہیں۔ تاوان مانگا جاتا رہا اور امریکہ اپنے ناٹو ساتھیوں کی موجودگی کے باوجود ان کو رہا نہ کروا سکا۔ خارجی دہشت گرد جو امریکی اور بھارتی تعاون سے ہی افغانستان سے پاکستان آ کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ انہی کے ایک باغی گروپ نے یہ کام کیا۔ امریکہ کو ویسے اب اپنی ناکامی اور شکست کا اعتراف کر کے افغانستان سے نکل جانا چاہئے۔ جی ہاں! اس فیملی کو بھی معلومات ملنے کے باوجود رہا نہ کرا سکا۔ اس کو محفوظ و مامون طریقے سے رہا کروایا تو محمد نواز گوہر کے لخت جگر حسنین نواز نے رہا کروایا۔ نواز گوہر کو میرے اللہ نے واقعی گوہر یعنی ایک موتی سے نوازا۔ امریکی صدر ٹرمپ اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن کو چاہئے کہ محمد نواز گوہر کو واشنگٹن اور ٹورنٹو آنے کی دعوت دیں اورسلیوٹ کریں۔ تشکر کا حق تو اسی طرح ادا ہو گا۔ باقی ان کی مرضی۔ وزیراعظم جسٹن تو انسانیت کے ہمدرد ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیا ہیں۔
کیپٹن حسنین نے اب ایک اور کام کیا۔ اس نے سوچا کہ کرم ایجنسی میں یہ لوگ تبھی آ رہے تھے کہ یہاں ان کے سہولت کار موجود ہوں گے۔ چنانچہ حسنین نے ڈیوٹی نہ ہونے کے باوجود سہولت کاروں کا پتا چلایا اور مذکورہ علاقے میں سہولت کاروں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دہشت گرد اور سہولت کاروں کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں کلیئر کر کے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ ہو گیا۔کیپٹن کے ہمراہی جوان زخمی ہو گئے۔ وہ واپس مڑے اور زخمیوں کو اٹھایا۔ پھر وقفے کے بعد دوسرا دھماکہ ہوا تو اس کے زخمیوں کو اٹھانے چل کھڑے ہوئے۔ اس سے فارغ ہوئے تو تیسرا دھماکہ ہو گیا۔ ساتھیوں نے منع کیا، سر آپ نہ جائیں لیکن حسنین جو چھوٹی عمر میں ہی میجر رینک کا کورس کر چکا تھا اور 3جنوری 2018ء کو میجر کی پوسٹ پر پروموٹ ہونے والا تھا، کے سامنے جنت تھی۔ وہ پھر چل کھڑا ہوا۔ اب کے ایک اور دھماکہ ہوا اور حسنین زخمی ہوا۔ پانی لایا گیا تو اس نے کہا، پہلے دوسروں کو دو۔ اس نے اسلامی تاریخ کے واقعے کو زندہ کیا۔ حسنین کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا، خون تیزی سے بہہ رہا تھا، گھر میں اپنی ماں کو وہ پہلے ہی پیغام دے چکا تھا۔ واپس آ گیا تو غازی، نہ آیا تو شہید۔ بیٹے کا خیال، اپنا خیال رکھنا، میں پاک جھنڈے میں آئوں گا، ملاقات کر لینا۔ آخری وقت اس نے کلمہ پڑھا اور فردوس بریں کی طرف پرواز کر گیا۔ (ان شاء اللہ)
بہن ساجدہ نواز مجھے بتلا رہی تھیں۔ حمزہ بھائی! شہادت سے چند دن قبل اس نے مجھے خواب سنایا کہ ایک خوبصورت ترین مجلس ہے، صحابہ کرامؓ موجود ہیں۔ چاروں خلفائؓ موجود ہیں۔ میں سب کے چہرے اور نام پہچانتا ہوں۔ ایک بلند مسند پر اللہ کے رسولﷺ تشریف فرما ہیں لیکن آپؐ کے گرد نور اور تجلیات کا ہالہ ہے جو آسمان کی جانب بلند ہو رہا ہے۔ حضورﷺ کا سفید لباس روشنیوں سے اس قدرمنور ہے کہ آپؐ کا چہرہ مبارک دکھائی نہیں دیتا... میں نے حسنین شہید کی والدہ محترمہ سے عرض کیا، تعبیر یہ ہے کہ حسنین کو جنت میں اعلیٰ مقام ملا ہے اور حضورﷺ کی مجلس میں باریابی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ آپ دونوں خوش قسمت ہیں۔ محمد نواز صاحب بولے، چچا حمزہ بھی خوش قسمت ہے۔ جنت میں لے جانے کے لئے حسنین آئے گا تو اکٹھے جائیں گے۔ (ان شاء اللہ)