سب سے پہلے انسان اور رسولوں میں پہلے رسول اور نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ ہمارے رسول گرامی خاتم الانبیاء حضرت محمد کریمؐ نے انسانیت کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ایک اہم ترین واقعہ سے پردہ اٹھایا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے ان کی اولاد کو کس طرح سے پیش کیا گیا۔ اور دوسرا واقعہ ان کے پاس ''مَلَکُ الْمَوْت‘‘ کی حاضری ہے کہ جب موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو ان کا ردعمل کیا تھا؟... ''حضرت ابوہریرہؓ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی کمر پر ہاتھ پھیرا، چنانچہ قیامت تک کے لئے ان کی اولاد میں سے ہر ذی روح کہ جس کو اللہ تعالیٰ پیدا فرمانے والے تھے وہ گر پڑے (یعنی آدم علیہ السلام کی پشت میں تمام انسانوں کا جو ڈیٹا تھا، وہ حقیقت بن کر سامنے آ گیا) صورتحال یہ تھی کہ ہر انسان کی دو آنکھوں کے درمیان روشنی کا ایک نشان تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد کو (ان کے والد) حضرت آدمؑ کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ سے سوال کرنے لگے،یہ لوگ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے بتلایا، یہ تمہاری اولاد ہے۔ اولاد پر نظر ڈالتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان جو نورانی نشان تھا وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا، رب کریم ! یہ بندہ کون ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بتایا، تیری اولاد میں سے جو آخری امتیں ہوں گی یہ بندہ ان میں سے ہو گا۔ اس کا نام دائود ہو گا۔ مولا کریم ! اس کو عمر کتنی دی ہے؟ فرمایا، ساٹھ سال۔ حضرت آدم علیہ السلام (یہ سوچ کر کہ میرے اس قدر خوبصورت، اعلیٰ کردار اور حسین بیٹے کی عمر کم ہے) عرض کرنے لگے، مولا کریم جی! اس کو میری زندگی سے چالیس سال دے دیجئے۔ پھر جب آدم علیہ السلام کی زندگی اختتام کو پہنچی (ایک روایت کے مطابق ہزار سال عمر تھی، چالیس سال پہلے ہی) موت کافرشتہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آ گیا تو حضرت آدم علیہ السلام اسے دیکھ کر کہنے لگے، میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی ہیں (تم پہلے ہی کیوں آ گئے؟) موت کا فرشتہ کہنے لگا، جناب والا نے اپنے بیٹے دائود کو چالیس سال دے دیئے تھے (لہٰذا میں درست وقت پر آیا ہوں) اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام نے فرشتے کی بات ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ ان کی اولاد بھی اب اسی طرح ہی انکاری ہو جاتی ہے۔ آدم علیہ السلام بھول گئے تھے۔ ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔ آدم علیہ السلام غلطی کر بیٹھے تھے (جنت کا ممنوعہ پھل کھا کر) چنانچہ ان کی اولاد بھی غلطی کر جاتی ہے (ترمذی:3076حسن)
قارئین کرام! معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے بندے حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی عمر بتلا دی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب فرشتہ چالیس سال پہلے آ گیا تو انہیں معلوم ہو گیا کہ میرے تو 40سال ابھی باقی ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ بھول کر غلطی کر بیٹھے۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اگرچہ جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھ رکھا تھا مگر یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ اس دنیا میں بیوی بچوں کو چھوڑنا بہرحال ایک ناگوار صورتحال ضرور ہوتی ہے۔ چنانچہ آدمؑ نے سوچا ہو گا جنت میںذرا دیر بعد ہی چلے جائیں گے۔ فی الحال حضرت حوا اور اپنے بچوں کو تو نہ چھوڑیں... مگر کب تک؟ آخرچھوڑنا ہی ہو گا۔
''(چالیس سال بعد) ان کی موت کا جب وقت آ گیا تو اپنے بیٹوں سے کہنے لگے، بیٹو! جنت کے پھل کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ اب بیٹے (کیلا، انار، انگور، کھجور وغیرہ کی) تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں سامنے (انسانی حلیے میں) فرشتے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس لباس اور خوشبوئیں ہیں۔ کدالیں، کسیاں اور کلہاڑے ہیں۔ فرشتے پوچھتے ہیں کدھر کو جا رہے ہو؟ بیٹے کہتے ہیں: ابا جی بیمار ہیں، جنت کے پھلوں کی خواہش کر رہے ہیں۔ فرشتے کہنے لگے، ہمارے ساتھ واپس آ جائو، تمہارے باپ کے اگلے جہان جانے کا ٹائم آ گیا ہے۔ اب جب گھر آمد پر حضرت حوا نے انہیں دیکھا تو پہچان لیا اور وہ (اپنے خاوند) حضرت آدمؑ کے ساتھ چمٹ گئیں۔ حضرت آدمؑ حوا سے کہنے لگے، تجھ سے پہلے جانے کا جو مجھے وقت دیا گیا تھا وہ آ چکا۔ اب میرے اور میرے رب کریم کے فرشتوں کے درمیان سے ہٹ جا۔ ساتھ ہی فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی روح کو قبض کر لیا۔ غسل دیا، کفن دیا، خوشبو لگائی، قبر کی لحد بنائی، جنازہ پڑھا، پھر قبر میں اترے، حضرت آدم علیہ السلام کی میت کو رکھا، لحد کو کچی اینٹوں سے بند کر دیا، اوپر مٹی ڈال دی اور ''یَا بَنِی اٰدَمَ ہٰذِہِ سُنَّتُکُمْ‘‘ آدمؑ کے بیٹوں سے کہا، یہ ہے تم لوگوں کی تدفین کا طریقہ (الجامع الکامل، حدیث حسن، رواہ عبداللہ بن احمد: 21240)
قارئین کرام! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے محبوب، لاڈلے اور جلالی طبیعت کے حامل بندے اور رسول تھے۔ ہمارے پیارے ختم المرسلین حضرت محمد کریمؐ نے ان کی وفات کا واقعہ اپنی امت کو کس طرح بتلایا ہے، آیئے! ملاحظہ کرتے ہیں۔ فرمایا '' موت کا فرشتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس (انسانی شکل) میں آیا اور کہنے لگا، اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرشتے کی آنکھ پر مکا دے مارا اور آنکھ پھوڑ ڈالی۔ فرشتہ واپس اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا، آپ نے مجھے اپنے جس بندے کی جانب بھیجا، موت اس کے ارادے میں نہیں۔ اس نے تو میری آنکھ ہی نکال دی۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کو درست فرما دیا اور حکم دیا کہ میرے اسی بندے کے پاس واپس جائو اور اسے کہو، جناب آپ زندگی چاہتے ہیں تو اس طرح کرو کہ اپنا ہاتھ بیل کی کمر پر پھیر لو۔ جتنے بال تمہارے ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے اتنے سال زندہ رہ لو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پوچھنے لگے، پھر؟ کہا پھر موت۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے چلو پھر ابھی چلتے ہیں۔‘‘ (مسلم 2373:، بخاری 3407:)
قارئین کرام! معلوم ہوا موت کا فرشتہ جب نبیوں کے پاس آتا ہے تو اجازت لے کر آتا ہے۔ جی ہاں! اگر عموم نہیں تو پھر خصوص یہ ہے کہ جلیل القدر رسولوں کے پاس اجازت سے ہی آتا ہے۔ آیئے! اب حضرت دائود علیہ السلام کا آخری ٹائم حضرت محمد کریمؐ کے فرمان کے مطابق ملاحظہ کرتے ہیں۔ حضرت دائود علیہ السلام باہر سے گھر آئے تو کیا دیکھا، صحن کے درمیان بندہ کھڑا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام نے اس سے پوچھا، تم کون ہو؟ (کہ شاہی محل میں بغیر اجازت کے اندر کس طرح داخل ہو کر کھڑے ہو، ایسی جرأت؟) بندہ کہنے لگا، میں وہ ہوں جو بادشاہوں سے نہیں ڈرتا۔ میں وہ ہوں جس کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ حضرت دائود علیہ السلام نے کہا، ہاں! اللہ کی قسم! تب تم موت کے فرشتے ہو۔ اللہ کے حکم کو خوش آمدید۔ ساتھ ہی حضرت دائود علیہ السلام دوڑے اور اس جگہ پہنچے جہاں موت کے فرشتے نے ان کی روح کو قبض کر لیا (مسند احمد9432:)
قارئین کرام! معلوم ہوا حضرت دائود علیہ السلام اپنے محل میں اپنی پسندیدہ جگہ پر تشریف لے گئے اور وہاں سے موت کے فرشتے نے ان کی روح کو قبض کر لیا۔ اسی طرح سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد کریمؐ نے اپنے صحابہ کو پہلے ہی واضح کرنا شروع کر دیا تھا کہ میں دنیا سے جا رہا ہوں اور پھر اللہ کا بھیجا ہوا آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیؐ کو اختیار دیا کہ جب تک چاہو زندگی لے لو اور چاہو تو ابھی آ جائو... ہمارے حضورؐ نے اللہ سے ملاقات کو پسند فرمایا اور حجرہ عائشہؓ جو جنت کا ٹکڑا ہے، وہاں سے حضورؐ اپنے مولا کریم کے پاس تشریف لے گئے اور ختم المرسلینؐ کا روضہ مبارک قیامت تک کے لئے ہر مومن کی نگاہ کا نور اور دل کا سرور ہے۔
قارئین کرام! لاہور شہر میں برانڈرتھ روڈ کی رام گلی کے ایک مکان کی لیٹرین میں جعلی نبی مرزا قادیانی موت سے دوچار ہوا۔ قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر وہ سچا تھا تو موت کے فرشتے سے بستر تک جانے کی مہلت تو حاصل کر لیتا؟ کہاں سچے انبیاء اور کہاںمسیلمہ کذاب اور قادیانی دجال؟
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ، گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
ہم سمجھتے ہیں ختم نبوت کی آئینی شقوں کے ساتھ جن لوگوں نے کھلواڑ کی کوشش کی ہے‘ ان کو سامنے ضرور لایا جانا چاہئے۔ آئینی احترام کا تقاضا یہی ہے کہ جعلی نبوت کے ہمدردوں کا پردہ چاک ہو۔