ختم المرسلین حضرت محمد کریمؐ اپنے مولا کریم جَلَّ جَلَالُہ کے بارے میں اپنی امت کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ''انتہائی تکلیف دینے والی بات کو سن کر اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے پھرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ پھر بھی ایسے لوگوں کو (بیماریوں اور مصائب وغیرہ) سے عافیت (تحفظ) بھی عطا فرماتے ہیں اوران کو رزق بھی دیتے ہیں‘‘۔ (بخاری 7378:) امام مسلم بن حجاج ذرا اضافے کے ساتھ حضور نبی کریمؐ کے الفاظ مبارک یوں لائے ہیں: ترجمہ ''لوگ اللہ تعالیٰ کا مدمقابل بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد گھڑتے ہیں اور وہ مولا کریم ان سب تکلیف دہ باتوں کے باوجود ان لوگوں کو رزق بھی دیتے ہیں اور ان کو ''دنیاوی نعمتیں‘‘ بھی عطا فرماتے ہیں۔ (مسلم2 804:) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہمارے حضورؐ کی حدیث پاک کو یوں لاتے ہیں۔ ''کسی تکلیف دینے والی بات کوسن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں کہ اس کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے باوجود ایسے لوگوں کو (صحت، مال اور خوراک وغیرہ) کا رزق عطا فرما رہے ہیں۔‘‘ (مسند احمد19756)۔
قارئین کرام! ایسا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کے خالق بھی ہیں، سارے جہانوں کے رب بھی ہیں اور وہ ہر شے پر قادر اور قدیر بھی ہیں۔ لہٰذا وہ صبر کرتے ہیں، مہلت دیتے ہیں اور ٹائم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب مولا کریم کے حبیب اور خلیل کی بات آتی ہے۔ محبوب اور دوست کی بات آتی ہے۔ اپنے بنائے ہوئے رسول کی بات آتی ہے۔ ختم المرسلین حضرت محمد کریمؐ کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کرتے۔ ابولہب جیسا مشرک ہمارے حضورؐ کی توہین کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہو گیا اور پھر وہ ایسا تباہ ہوا کہ بدبو چھوڑتی ہوئی اس کی لاش کو اس کے عزیزوں نے گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالا۔ جی ہاں! کتاب و سنت کے دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حرمت حضورؐ کی جو بات ہے اس پر لاپرواہی اور بے پرواہی سراسر ہلاکت اور خجالت و رزالت کا راستہ ہے۔ ہٹ دھرم کے لئے یہاں عافیت کا کوئی طریق نہیں۔
میں نے اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا طریق کار پر غور و خوض کیا تو مجھے سمجھ یہ آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی پہچان اور اپنی توحید کی دعوت کے لئے دنیا کے آخری دور میں حضرت محمد کریمؐ کا انتخاب فرمایا ہے۔ انہیں ختم المرسلین بنایا ہے۔ اب اگر ان کی حرمت و عزت کا تحفظ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے وقار اور توحید کا تحفظ بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے تحفظ پر بات کی تو اپنے خلیل اور حبیب حضرت محمد کریمؐ سے بات کی اور ایسے بات کی جیسے ایک دوست اپنے گہرے دوست اور محبوب سے بات کرتا ہے اور اپنے دشمن کا شکوہ کرتا ہے اور دوست کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اس کا ازالہ کرے۔ قارئین کرام! مولا کریم کا اپنے محبوب حضرت محمد کریمؐ کے ساتھ کریمانہ انداز ملاحظہ فرمائیں!
''آدم کے بیٹے نے مجھے جھٹلا دیا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دے ڈالی حالانکہ ایسی حرکت اس کو لائق نہ تھی۔ اس کا مجھے جھٹلانا یوںہے کہ کہتا پھرتا ہے اللہ نے جس طرح مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا اب دوبارہ نہیں بنائے گا، حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی دفعہ کی نسبت کہیں آسان ہے۔ اسی طرح اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ (میرا دشمن) کہتا پھرتا ہے کہ اللہ نے اولاد بنا لی ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بے پروا ہوں، نہ مجھ سے کوئی ہے، نہ میں کسی سے ہوں۔ میرے تو برابر کا بھی کوئی نہیں (بخاری 4974:)
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے رسول تو کئی بنائے مگر محبوب اور دوست ایک ہی بنایا اور انہیں دعوت کا جو انداز بتایا اس میں دوستی اور محبوبیت اپنے درجۂ کمال پردکھائی دیتی ہے۔ اب ایسے دوست اور محبوب کی حرمت پر کوئی آنچ لانے کی کوشش کرے تو اس کا کانچ کی طرح تڑاخ تڑاخ ہو جانے کا منظر دنیا نہ دیکھے تو رب جبار کو قاہر وقادر کون کہے؟
اپنے ملک پاکستان میں ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کو میں نے اسی تناظر میں دیکھا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنرل راحیل شریف صاحب ضرب عضب کی کامیاب اننگ کھیل رہے تھے، تب پورے ملک میں دھماکے ہو رہے تھے، فوج پر حملے ہوئے تو حکمرانوں نے مذمت کر دی۔ پولیس پر ہوئے تو مذمت کر دی۔ مساجد پر ہوئے تو مذمت کر دی۔ علماء پر ہوئے تو مذمت کر دی۔ مسیحی لوگوں کے چرچ پر ہوئے تو مذمت کر دی۔ حیرت کی بات ہے کہ ختم نبوت کے دشمنوں پرحملہ ہوا تو ملک کی ایک بڑی جماعت کا سربراہ اب مذمت سے کہیں آگے بڑھ کر یہ کہہ گیا کہ ''قادیانی ہمارے بھائی ہیں‘‘ ان پر حملہ کیوں ہوا۔ جی ہاں! یہ بھی ظلم ہوا، کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں پاکستان کے آئین میں وہ غیر مسلم اقلیت ہیں اور ہر اقلیت کی جان و مال کا تحفظ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں مگر یہ کیا ہوا کہ وہ ہمارے بھائی ہیں؟ موصوف نے تو یہاں تک فرما دیا تھاکہ پاکستان کے لوگوں نے انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھایا ہے تو انڈیا کے ساتھ دوستی قائم کرنے کی خاطر وزیراعظم بنایا ہے، یعنی یہ بیان ایسے دنوں میں سامنے آیا جب کلبھوشنوں کی وجہ سے پاکستان کے لوگوں کو دھماکوں سے اڑایا جا رہا تھا۔
اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ردّالفساد کا کامیاب کوڑا ہاتھ میں پکڑ کر دہشت گردوں پر برسانے کا اک نیا عزم لے کر نمودار ہوئے تو حکمران لوگوں نے مولویوں کا روپ دھارا اور ختم نبوت کو نہ ماننے کے فتوے لگانے شروع کر دیئے اور ایسے لوگوں کو مشکوک بنانا شروع کر دیا جو ختم نبوت اور حرمت رسولؐ کے لیے مر مٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی مذموم حرکت تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اللہ نے مظلوموں اور سچے لوگوں کو عزت دی ہے اور مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ وگرنہ ان مجرموں کوختم نبوت کے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کیا ضرورت تھی کہ پہلے انہوں نے حلف کی عبارت کو تبدیل کیا پھر پریشر آنے پر درست کیا۔ 7B-7C کو جو آئین سے نکالا تھا، اس کو داخل نہ کیا اس پر ملک بھر میں احتجاج ہوا تو پھر دوبارہ دونوں شقوں کو آئین کا حصہ بنایا۔ اب کوئی کیسے مانے کہ موجودہ حکمرانوں نے جان بوجھ کر ختم نبوت کے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ چنانچہ اب ملک بھر کے عوام کا یہ مطالبہ شروع ہوا کہ مسلم لیگ ن کی اپنی حکومت نے ذمہ داروں کے تعین کے لئے جو کمیٹی بنائی، راجہ ظفر الحق نے اس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے رپورٹ میاں نوازشریف کو دے دی‘ وہ اس رپورٹ کو سامنے کیوں نہیں لاتے۔ وفاقی وزیر قانون جس کے بارے میں شہباز شریف نے بھی کہا کہ اسے ہٹا دیا جائے، نہ ہٹایا گیا۔ اب مسلمانان پاکستان کا یہ ذہن بن گیا کہ دو تین کے علاوہ تمام ممبران اسمبلی اور حکومت ہی مجرم ہے لہٰذا عوامی مینڈیٹ کو نئے سرے سے حاصل کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ذہن پوری قوم کا ہے اور پاکستان کے 21کروڑ عوام کی زبان پر جو یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ اس بات کے ذریعے اپنے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمؐ کی ختم نبوت اور حرمت حضور نبی کریمؐ کا تحفظ فرما رہے ہیں۔ مجرم جو آنچ کا باعث بنے، کانچ کی طرح ان کے اقتدار کا تڑاخ تڑاخ ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ جو عوامی عدالت، عوامی انصاف کی بات کرتے تھے‘ اللہ نے ان کو عوام کے ذہنوں سے گرا دیا۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق انسانوں کے دل اللہ کی مٹھی میں ہیں وہ جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ جی ہاں! ختم نبوت کے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اللہ نے ناراض ہو کر اپنے حبیب اور خلیل کی ختم نبوت کا دفاع ایسے کیا کہ پاکستان کے لوگوں کے دل بدل گئے۔ لہٰذا حکمرانو! خبردار۔ بات حرمتِ حضورؐ کی ہے ختم نبوت کے مجرموں کے ساتھ جو ہو چکا اور ہونے جا رہا ہے مشیئت الٰہی یہی ہے کہ ان کی قسمت میں ذلت و رسوائی ہے۔