وسط ایشیا کی پانچ ریاستیں جو روس کا حصہ تھیں‘ انہیں روس کا نرم پیٹ کہا جاتا تھا۔ پیٹ تو ہوتا ہی نرم ہے لیکن جب اس کے ساتھ نرم کے لفظ کا اضافہ کر دیا جائے تو نرمی اور ملائمت کی حساسیت بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور تاجکستان پانچ ایسی ریاستیں تھیں جو مسلمانوں کی اکثریت کی حامل اور مذہبی، لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی حیثیت سے باہم پیوست تھیں۔ یوں اس وسط ایشیائی علاقے کو روس کا نرم پیٹ اس لئے کہا جاتا تھا کہ روس بے شک دنیا میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ سپرپاور بھی ہے مگر افغانستان کے بعد اگر باکسنگ کا کھیل یہاں شروع ہو گیا تو روس اپنے نرم پیٹ پر گھونسے برداشت نہ کر پائے گا... اور پھر وہی ہوا جنرل اختر عبدالرحمن شہید نے جنرل ضیاء الحق شہید کے ساتھ میٹنگ میں یہاں گھونسے مارنے کی تجویز دی۔ یہ تجویز اس لئے بھی دی کہ افغانستان کے ساتھ ملے ہوئے پاکستانی علاقوں میں روس نے گاہے گاہے گھونسے مارنے شروع کر دیئے تھے چنانچہ امریکی اس تجویز پر خوش ہوئے اور پھر جب چند گھونسے روس کے نرم پیٹ پر پڑے تو روس نے افغانستان چھوڑنے کے بعد نرم پیٹ بھی چھوڑ دیا اس ڈر سے کہ کہیں اس سے اگلے علاقے بھی نرم پیٹ نہ بن جائیں۔ اب مندرجہ بالا واقعہ اک تاریخ ہے۔ آج روس پاکستان باہم دوست بن چکے ہیں۔ ایران کے ساتھ روس کی دوستی قدرے گہری ہے۔ سعودیہ نے بھی اب روس کے ساتھ تعلقات بہتر کر لئے ہیں۔ میں نے ''نرم پیٹ‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی ہے، سعودیہ اور ایران اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے کہ ایران افغانستان کا پڑوسی تھا اور ہے جبکہ سعودیہ کا کردار افغانستان میں بہت زیادہ گہرائی تک موجود تھا۔
نرم پیٹ کی اصطلاح کے بعد ہم سعودیہ کے نرم پیٹ اور ایران کے نرم پیٹ کا جائزہ لیں تو سعودیہ کا صوبہ قطیف اور تقریباً اتنا ہی بڑا علاقہ جو بحرین سے منسلک ہے وہاں شیعہ مسلک کی اکثریت ہے۔ یہ سعودیہ کا نرم پیٹ ہے۔ ایران کے لئے یہاں گھونسے مارنے اور باکسنگ کا کھیل کھیلنے کا موقع موجود ہے۔ اسی طرح ایران میں سعودیہ کے لئے اس سے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے صوبہ خراسان میں ترکمان کے اہل سنت بڑی اکثریت میں موجود ہیں۔ آگے سیستان کا علاقہ بھی سنی اکثریت کا ہے۔ اس کے ساتھ ایرانی بلوچستان جو پاکستان کے ساتھ سمندر تک ملا ہوا ہے یہاں بلوچ سنی اکثریت میں ہیں۔ عراق کے ساتھ ملا ہوا صوبہ خوزستان عربی بولنے والا اور سنی اکثریت کا حامل ہے۔ ایرانی کردستان کے علاقے کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی سنی اکثریت کا علاقہ ہے یوں ایران کے تقریباً چاروں طرف سنی اکثریت کے علاقے ہیں۔ یہ ایران کا نرم پیٹ ہے اور کافی بڑا ہے۔ یوں سعودیہ اگر یہاں باکسنگ کرتا ہے اور گھونسے رسید کرتا ہے تو اس کے لئے مواقع زیادہ ہیں۔ خیر اور بہتری دونوں کی اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کے نرم پیٹوں کو پیار کی نظروں سے دیکھیں۔ گھونسے مارنے کا خیال بھی نہ کریں بلکہ کریں تو یہ کریں کہ عربی ثوب اور ایرانی جبہ اپنے اپنے پیٹ سے اٹھائیں اور ایک دوسرے کے بوسے لیں۔ دونوں ہی حضرت محمد کریمؐ کی محبت میں دیوانے ہونے والے ہیں تو مدینہ منورہ میں رونما ہونے والا اک ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرما لیں!
حضرت اسید بن حضیرؓ جن کا تعلق انصار کے ساتھ تھا (سردار آدمی تھے) اپنے لوگوں سے (اپنے ڈیرے پر) باتیں کر رہے تھے۔ بڑے مزاحیہ اور ہنس مکھ آدمی تھے۔ اپنے لوگوں کو ہنسا رہے تھے۔ اس دوران اللہ کے رسولﷺ جو وہاں موجود تھے۔ اسید کے پہلو میں چھڑی چبھو دی۔ (اسید کی ہنسی غائب ہو گئی مڑ کر دیکھا تو اللہ کے رسولﷺ تھے)۔اب وہ فوراً بولے: حضورﷺ ! مجھے بدلہ چاہئے۔شاہِ مدینہ! لے لو۔ اسید بن حضیر! جناب پر قمیص ہے مجھ پر تو قمیص نہ تھی۔شاہِ مدینہﷺ (کھڑے ہو گئے) اور اپنی قمیص اوپر اٹھا کر بدن ننگا کر دیا (حضرت اسید یہی چاہتے تھے۔ من کی مراد بر آئی) انہوں نے حضورﷺ کو جپھا ڈال لیا اور آپﷺ کے پہلو مبارک کو چومتے چومتے اور چومتے ہی چلے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے اے اللہ کے رسولﷺ میرا پروگرام یہی تھا، پورا ہو گیا۔ (ابودائود، حسن)
اے کاش! سعودیہ اور ایران کا کچھ ایسا ہی پروگرام بن جائے تو عالم اسلام میں چھائی ہوئی خزاں کا موسم چھٹ جائے اور بہار دیکھنے کو مل جائے ویسے بھی آج کل خزاں کا موسم ہے، آگے بہار آ رہی ہے۔ کیا ہمیں سعودیہ اور ایران بہار سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں؟ جناب شاہ سلمان اور جناب سید علی خامنائی ایک دوسرے کے شکم چوم سکتے ہیں محمد بن سلمان اور حسن روحانی حضرت حسنؓ کے کردار کو دہرا سکتے ہیں۔ گھونسے مارنے کے بجائے ایک دوسرے کے نرم پیٹوں کے بوسے لے سکتے ہیں؟ وہ کیا خوبصورت اور حسین منظر ہو گا جب اہل سنت اور اہل تشیع یہ منظر دیکھیں گے، تب القدس کا مسئلہ حل ہونے کے قریب آ جائے گا۔ (ان شاء اللہ)
قارئین کرام! آیئے! اب دونوں برادر ملکوں کی پسلیاں بھی دیکھتے ہیں۔ پسلیوں سے مراد سعودیہ اور ایران کے اردگرد کے ممالک ہیں۔ اس لحاظ سے ہم سعودیہ کو دیکھتے ہیں تو اس کی تین پسلیاں ایسی ہیں کہ ان کا منظر کعبہ شریف کے تین کونوں سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ حجراسود کو چوم کر جب آگے بڑھتے ہیں تو ''رکن شامی‘‘ آتا ہے۔ طواف کرتے ہوئے تیسرے رکن کی جانب جاتے ہیں تو اسے ''رکن عراقی‘‘ کہا جاتا ہے یعنی عراق اس سمت کو واقع ہے۔ آگے چوتھے رکن کی جانب بڑھتے ہیں تو اس کا نام ''رکن یمانی‘‘ ہے۔ جی ہاں! یہ تینوں پسلیاں کعبہ شریف کے ارکان سے واضح ہیں کہ سعودیہ کے اردگرد ہیں اور آج تینوں ہی لہولہان ہیں۔ عراق کے بعد شام لہولہان ہوا اور آخر میں یمن لہولہان ہے۔ سعودیہ اپنے آپ کو گھیرے میں سمجھتا ہے۔ وہ کعبہ کے تینوں کونوں اور رکنوں کی مرہم پٹی چاہتا ہے۔ ایران آگے بڑھے، اپنے دیگر مسلمان بھائیوں (ممالک) کو ساتھ لے اور برادر ملک سعودیہ کی پسلیوںپر مرہم لگا دے۔ ایسی شاندار مرہم لگائے کہ زخم دنوں میں مندمل ہو جائیں۔
اب آتے ہیں ایران کی پسلیوں کی جانب۔ ایران کی ایک پسلی پاکستان ہے۔ ایران کو شکوے تھے کہ یہاں سے خون رِس رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ایران میں تشریف لے گئے۔ صدر حسن روحانی کو سلیوٹ کر کے ایسا مرہم رکھ آئے کہ اپنے زخم کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔ آفرین ایسے کردار پر۔ چابہار اور گوادر کی بندرگاہیں دو بہنیں بن کر ان شاء اللہ بغلگیر ہو جائیں گی۔ ایران کی ایک پسلی افغانستان ہے وہاں سے ایرانی پسلی خون آلود ہوتی ہے۔ وہاں سے شیطان بزرگ رخصت ہو جائے تو مرہم یہاں بھی لگ جائے گا (ان شاء اللہ)۔ ترکمانستان، آذربائیجان، ترکی اور عراق وہ ایرانی پسلیاں ہیں جو سلامت ہیں اور مضبوط ہیں۔ ایران کو یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ یوں ایران کی پسلیاں مجموعی اعتبار سے اچھی حالت اور تندرستی کی کیفیت میں ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ برادر ایران کی پسلیاں بیس فیصد زخمی ہیں تو برادر سعودی عرب کی پسلیاں ستر فیصد زخمی ہے لہٰذا کم زخمی کا فرض ہے کہ وہ اس بھائی کا زیادہ خیال کرے جو زیادہ زخمی ہو گیا ہے۔
جس کی پسلیاں ستر فیصد لہولہان ہیں۔ اس نے کعبہ شریف کے تینوں ارکان کی سمتوں کو تندرستی سے ہمکنار کرنے کے لئے مسلم ممالک کا اتحاد بنایا ہے۔ اس کے سربراہ پاکستان کے وہ مایہ ناز جرنیل ہیں جن کے ماموں راجہ عزیز بھٹی شہید اور بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے حامل ہیں۔ اس شاندار پس منظر کے حامل جرنیل مسلم ممالک کے اتحاد کی فوجوں کے سالار ہیں۔ وہ واضح کر چکے ہیں۔ یہ اتحاد کسی مسلمان ملک اور کسی مسلک کے خلاف نہیں ہے۔ وہ کوشاں ہیں کہ کعبہ کی تینوں سمتوں میں واقع تینوں ملک شام، عراق اور یمن کے زخم مندمل ہو جائیں اور اس اتحاد میں شامل ہو جائیں۔ ایران جو ایک اہم ترین بھائی ہے وہ اہم ترین رکن بن جائے۔ دہشت گردی کے پیچھے خوارج ہیں اور سعودی عرب خوارج کا دشمن ہے، ایران بھی ہے۔ پاکستان اور دیگر بھی۔ جنرل راحیل شریف صاحب نے پاکستان میں خارجیوں کو شکست دی ہے۔ خوارج کے پیچھے امریکہ ہے۔ آج اسی نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت ماننے کا اعلان کیا ہے۔ عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔ میں کہتا ہوں بہترین اور مؤثر احتجاج یہ ہے کہ سعودیہ اور ایران اپنا ثوب اور جبہ اٹھائیں۔ ایک دوسرے کے شکم کا بوسہ لیں۔ مدینہ منورہ کی یاد تازہ کریں۔ مشاہد حسین سید کہ جن کی والدہ شیعہ تھیں تو والد کرنل امجد حسین سید سنی تھے۔ مشاہد صاحب فرقہ واریت سے بلنددردمند مسلمان ہیں۔ ان کی خدمات حاصل کر لیں۔ ہم جیسوں کو تو دیکھنے کا موقع ہی دے دیا جائے تو تاریخ کی لڑی میں الفاظ کے سنہرے موتی اس انداز سے پرو ڈالیں کہ لوگ الفاظ کے بوسے لیتے رہ جائیں۔ یوں ہو گا القدس کا مسئلہ حل... جی ہاں! حل تو یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ہماری آس کو آسمان کی شبنم ملے، بہار کا موسم ملے اور امن کا پھل ملے۔ (آمین)