پاکستان اور انڈیا کی سلامتی امور کے مشیران تین بار بیک ڈور ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی امور کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ ہیں۔ جنرل صاحب کوئٹہ میں سدرن کمانڈ کے اُن دنوں کور کمانڈر رہے جب بلوچستان میں بدامنی عروج پر تھی۔ کلبھوشن جیسے لوگ وہاں دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ جنرل صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے انتھک محنت کے ساتھ دہشت گردی کو کچلا اور بلوچستان کو امن کی راہ پر ڈالا۔ وہ ہندوستان کا چہرہ خوب پہچانتے ہیں لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انہیں قومی سلامتی امور کا مشیر بنا دیا۔ جنرل صاحب ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ تحقیقی ذہن رکھتے ہیں۔ سلامتی امور سے متعلق واقعات کو گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں اور پھر ان کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ خارجی دہشت گردوں نے جب پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنا شروع کیا تو میں نے کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ ''ردالفساد اور خارجی دماغ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اور اس کا مسودہ جنرل صاحب کو بھی روانہ کر دیا۔ انہوں نے اس پر انتہائی مثبت رائے دی اور مسرت کا اظہار فرمایا۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ٹھہری کہ انہوں نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بیان دیا کہ ہم خارجی دہشت گردوں کو جہاں جسمانی طور پر ختم کریں گے وہاں نظریاتی طور پر بھی ختم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج حکومت پاکستان پاک افواج کے ذریعے اس لعنت کو ختم کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔
جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے مدمقابل انڈیا کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت سنگھ دوول ہیں۔
مسٹر نریندر مودی کے جارحانہ نظریات اور عملیات سے کون ناواقف ہے؛ چنانچہ بی جے پی کی حکومت نے قومی سلامتی کا مشیر بنایا تو اجیت سنگھ دوول جیسے شخص کو بنایا، جس کا مقصد بلوچستان میں بدامنی اور سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانا تھا۔ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجیت سنگھ ناکام ہو گئے ہیں۔ ان کی ناکامی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ روس، وسط ایشیائی ممالک، افغانستان، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک سی پیک کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ منصوبے تیزی کے ساتھ مکمل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سی پیک کا منصوبہ مشکلات کے بھنور سے نکل کر کامیابی کی راہ پر چل نکلا ہے۔ اب اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہا لہٰذا امریکہ کہ جس نے سی پیک پر انڈین بولی بولتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا روٹ کشمیر جیسے متنازع خطے سے ہو کر گزر رہا ہے، آج وہ مخالفت کے ساتھ ساتھ زمینی حقیقت کو بھی دیکھنے لگ گیا ہے کہ اس کی انڈین بولی کو علاقائی ممالک اور دیگر دنیا تسلیم نہیں کر رہی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناصر جنجوعہ کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ ان کے حریف اجیت سنگھ دوول ناکام ہو گئے ہیں۔ جنرل (ر) جنجوعہ کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ چابہار کی بندرگاہ‘ جسے انڈیا نے گوادر کے مقابلے میں بنایا تھا، وہ گواردر سے ملنے جا رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین بات چیت جاری ہے، گوادر سے کوسٹل ہائی وے چابہار سے ملنے کو اور چابہار گوادر سے بغلگیر ہونے کو تیار ہے۔ یوں مخاصمت مفاہمت میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ اجیت سنگھ دوول کی یہ بھی ناکامی ہے۔
اجیت سنگھ دوول کی تجاویز پر مسٹر نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پے در پے آپریشن لانچ کئے۔ اس کی نصف سے زائد فوج صرف ایک کروڑ کشمیریوں کے لئے پہلے ہی سالہا سال سے وقف ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ آبادی کے حامل ملک میں آدھی فوج ایک ارب 29کروڑ کے لئے ہے جبکہ باقی آدھی فوج صرف کشمیریوں کے لئے وقف ہے۔ اس ایک بات سے ہی ظلم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد متواتر آپریشن جس میں ہزاروں کشمیریوں کو نابینا تک کر دیا گیا، لکڑی کے مکانات جلا دیئے گئے۔ اب کشمیر کی تصویر یہ ہے کہ سیب کے باغات تباہ، قیادت جیلوں میں، نوجوانوں کو پکڑ کر دوران حراست قتل کے عام واقعات، کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال اور اس کے عمومی ثبوت۔ اس سب کے باوجود کشمیر میں مقامی کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے اور زور و شور سے جاری ہے۔ انڈیا نے یہاں ناکامی کا اعتراف شروع کر دیا ہے چنانچہ مجبور ہو کر انڈیا کے مشیر مسٹر دوول سنگھ نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا ضروری سمجھا۔ مذاکرات کی ڈور توڑی بھی دوول نے تھی‘ اب جوڑنے پر مجبور بھی اجیت دوول ہوا ہے۔ نام اس کا اجیت ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ جیت جنرل جنجوعہ کی ہو رہی ہے۔
جناب اجیت سنگھ دوول کو ایک اور بھی ناکامی ہوئی ہے؛ بمبئی حملے کا کیس‘ وہ آج بھی بات بات پر اٹھائے ہوئے ہیں مگر اس واقعہ کے دس افراد میں سے بقول ان کے‘ صرف ایک فرد زندہ بچا تھا۔ اجمل قصاب نام کا شخص انڈیا کے پاس سب سے بڑا ثبوت تھا۔ یہ ثبوت متنازع تھا۔ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اس کو ثبوت نہیں مانتے تھے۔ اب انڈیا خود ہی اس ثبوت سے محروم ہو گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس نے پھانسی دے کر اپنے آپ کو اس ثبوت سے کیوں محروم کیا؟ ظاہر ہے یہ ناقص ثبوت تھا۔ اگر یہ ثبوت پختہ ہوتا تو انڈیا اسے ضائع نہ کرتا۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس بلوچستان کے علاقے سے جو ثبوت ہاتھ آیا وہ کلبھوشن کی صورت میں ہے۔ انڈیا نے پہلے تو اسے اپنا بندہ تسلیم نہ کیا۔ جب پاکستان نے ثبوت دیئے تو انڈیا کو ماننا پڑا کہ وہ اس کی فوج کا حاضر سروس افسر ہے۔ اس نے دہشت گردی کے واقعات کو دنیا کے سامنے تسلیم کیا۔ مسٹر اجیت سنگھ دوول کی حکومت نے سفارتکارانہ رسائی مانگی۔ پاکستان نے اس کو تسلیم تو نہ کیا مگر کلبھوشن کے ساتھ اس کی والدہ اور بیوی کی ملاقات کے موقع پر‘ قدرے دور سفارتکار کو موجودگی کا حق دے دیا۔ یعنی انڈیا نے کلبھوشن کو اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر اپنا نمائندہ تسلیم کر لیا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے اندر سرکاری سطح پر دہشت گردی کو قبول کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کی یہ واضح جیت اور مسٹر دوول کی واضح شکست ہے۔ اب پاکستان اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ انڈیا کو بطور ریاست عالمی عدالت میں اور یو این میں دہشت گردی کے کیس میں گھسیٹنا شروع کر دے۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں انڈیا نے بیک ڈور رابطہ کاری کا آغاز کیا۔
مندرجہ بالا حقائق کو پیش کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ان سب حقیقتوں کے باوجود پاکستان اخلاقی اعتبار سے بہت اعلیٰ سطح پر پہنچ گیا؛ چنانچہ ہم امن چاہتے ہیں۔ چین اور پاکستان انڈیا کو کہہ چکے ہیں کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرے۔ سی پیک کا حصہ بنے۔ بالکل اسی طرح جس طرح باقی ممالک بن رہے ہیں بلکہ پڑوسی ہونے کے ناتے وہ زیادہ حق رکھتا ہے۔ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے وہ بڑا ہمسایہ ہے لہٰذا دل بھی بڑا کرے۔ کشمیریوں کو ان کا حق دے۔ پاکستان تو کلبھوشن جیسے دہشت گرد سے اس کی پتنی اور ماتا کو ملاتا ہے تو تم لوگ مشعال ملک اور ان کی بیٹی کو یاسین ملک جیسے حریت پسند لیڈر سے کیوں نہیں ملواتے۔ آسیہ اندرابی کو رہا کیوں نہیں کرتے۔ ان کے دانشور اور پروفیسر شوہر کو ربع صدی کی قید کے بعد رہائی کیوں نہیں دیتے۔ اہل کشمیر کو ان کا حق خودارادی کیوں نہیں دیتے۔ تم یہ حقوق دے دو۔ واہگہ بارڈر سے طورخم تک اور گوادر تک تمہارے قافلوں کو خوش آمدید ہم کہیں گے۔ جناب دوول ہماری سلامتی کو مانیں، جنرل جنجوعہ تمہاری سلامتی کو مانیں گے۔