پاکستان بنا تو ہجرتوں کے سفر میں اِک خاتون مشرقی پنجاب کے اِک دورافتادہ گائوں احمد پور سے روانہ ہوئی۔ یہ خاتون قرآن کی حافظہ تھی‘انتہائی نیک اور شب زندہ دار رمضان کا مہینہ آتا تو یہ خواتین کو تراویح کی نماز میں قرآن سناتی۔ یہ احمدپور گائوں کی بچیوں کو بھی ناظرہ قرآن پڑھاتی، حفظ بھی کرواتی۔ یہ خاتون پاکستان بھی آ گئی مگر اس نے اپنا معمول نہ چھوڑا اور 45سال مسلسل اس نے تراویح کی نماز میں خواتین کی امامت کراتے ہوئے ہر رمضان میں قرآن مکمل سنایا۔ ہم ذکر یہ کر رہے تھے کہ مذکورہ خاتون جب سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے پاکستان پہنچی تو واہگہ بارڈر پار کرنے کے بعد پہلا پڑائو لاہور میں والٹن کا میدان تھا جہاں قائداعظم نے مہاجرین کی خیریت دریافت کی تھی اور انہیں حوصلہ دلایا تھا اور فرمایا تھا، مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔ مذکورہ خاتون ایک بچہ بھی اٹھائے پاکستان پہنچی تھی۔ یہ بچہ خاتون کی گود میں نہ تھا، گود میں ہوتا تو شاید کسی ظالم کی کرپان یا نیزے کی نذر ہو جاتا۔ یہ بچہ محفوظ رہا اور اس لئے محفوظ رہا کہ وہ قرآن کی حافظہ کی اندرونی گود میں محفوظ تھا۔ حافظہ خاتون کے شوہر کا نام کمال دین تھا۔ کمال صاحب نے اپنی اہلیہ کو ہمراہ لیا اور جلال پور جٹاں میں ٹھکانے کی تلاش میں جا پہنچے۔ وہاں ٹھکانا میسر نہ آیا تو جڑانوالہ میں جا پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کمال الدین کو پہلوٹھی کا بیٹا عطا فرمایا۔ جڑانوالہ کے سرکاری ہسپتال میں بچہ پیدا ہوا تو کمال دین نے اس کا نام محمد سعید اس لئے رکھا کہ بچے کی خوش قسمتی اور سعادت مندی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پاکستان میں پیدا فرمایا اور وہ ہندوئوں، سکھوں کی کرپانوں اور نیزوں سے بچ گیا۔ جڑانوالہ میں بھی کوئی مناسب ٹھکانہ میسر نہ آیا تو کمال صاحب اپنی حافظہ اہلیہ اور ننھے سعید کو لے کر سرگودھا کے نواحی گائوں میں جا بسے۔ قرآن کی حافظہ نے محمد سعید کو ہوش سنبھالتے ہی قرآن کا حافظ بنا دیا۔
کمال دین کی ایک بڑی ہمشیرہ جو احمد پور کے نواحی گائوں میں رہتی تھی‘ وہ اپنے شوہر، بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ جب گائوں سے نکلنے لگیں تو سکھوں نے پکڑ کر سب کو قیدی بنا لیا۔ زیورات اور پیسے لوٹ لئے۔ کھانے کو سوائے سؤر کے گوشت کے کچھ نہ دیتے، وہ کہتے اسلام چھوڑ دو وگرنہ سؤر کھا کھا کر ہی مرو گے۔ کمال دین کی ہمشیرہ بھی قرآن کی حافظہ تھیں۔ انہوں نے سؤر نہیں کھایا۔ ایک دن رات کے وقت سب نے مشورہ کیا کہ اب کیا کریں، کچھ نے کہا، جان بچانے کی غرض سے دکھاوے کے طور پر ہندو بن جاتے ہیں۔ بعد میں اللہ تعالیٰ حالات بدل دیں گے تو کوئی راستہ آسانی کا ان شاء اللہ نکل آئے گا۔ کمال دین کی ہمشیرہ نے کہا، بالکل نہیں، ہمیں موقع ملنے پر بھاگنا چاہئے، ان سے مقابلہ ہو تو جو ہاتھ میں ہو اس سے لڑنا چاہئے، مارے گئے تو شہید، نکل گئے تو پاکستان منزل ہو گا، مگر اس بات پر اتفاق نہ ہو سکا۔ آخر ایک رات کمال دین کی ہمشیرہ نے سب سے کہا، آئو، موقع ہے نکلتے ہیں لیکن سب نے کہا، قافلے جا چکے، ہر جانب موت ہے۔ فائدہ نہ ہو گا مگر کمال دین کی ہمشیرہ اکیلی نکلی۔ رات کو سفر کرتیں اور دن کو فصلوں میں چھپ جاتیں۔ آخر کار کئی مہینوں کے سفر کے بعد امرتسر سے ہوتی ہوئیں واہگہ بارڈر پار کر آئیں اور پھر باقی ساری زندگی چھوڑے ہوئے خاندان سے کوئی رابطہ نہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ انہوں نے اب بقیہ زندگی بچیوں کو قرآن حفظ کراتے ہوئے گزار دی۔ ننھا سعید اپنی پھوپھی کی گود میں قرآن کی لوریاں سنتا رہا اور بچپن و لڑکپن میں ہجرتوں کے سفروں کی دکھ بھری داستانیں سنتا رہا۔ مظلوم اور دکھیاری گودوں میں پرورش پانے والا آج امریکہ کا معتوب ہے۔ انڈیا کا مغضوب ہے۔ یہ دونوں اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔ دنیا کا میڈیا ان کے ہاتھ میں ہے لہٰذا خوب خوب بدنام کرتے ہیں۔ بدنام کرنے کی وجہ صرف ایک ہے کہ حافظ سعید مظلوم کشمیری عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے
حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کی بات کرتا ہے۔ آج کل وہ فلسطینیوں کے حقوق اور القدس کی بات کرتا ہے لہٰذا اسرائیلی یہود کی طرف سے بدنامی کا بھی یہ مظلوم شکار بن رہا ہے۔
حافظ محمد سعید لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے پروفیسر اور شعبہ اسلامیات کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ سعودیہ کی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے فلاح انسانیت کے کام کو دنیا جانتی ہے۔ فرقہ واریت کے خلاف ان کے کردار کے سب معترف ہیں۔ پکے سچے پاکستانی اور بلا کے محب وطن ہیں۔ علامہ اقبال اور قائداعظم سے ایسی محبت رکھتے ہیں کہ سیاست میں آنے کا پروگرام بنایا تو ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی میدان میں وارد ہو گئے ہیں۔ یوں اب وہ پاکستان کے ایک معروف سیاستدان بننے والے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کلبھوشن جیسے حاضر سروس انڈین افسروں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروانے والے انہیں دہشت گرد کہتے ہیں۔ شام اور عراق سے داعش کے افراد کو جہازوں میں بھر کر افغانستان لانے والے سی آئی اے کے لوگ انہیں دہشت گرد کہتے ہیں۔ داعش کے پیچھے امریکہ ہے تو ٹی ٹی پی کے پیچھے بقول احسان اللہ احسان انڈیا ہے۔ دونوں ہی حافظ صاحب کو بدنام کرتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں چھ ملکوں کی اسمبلیوں کے سپیکرز کی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ پاکستان، چین، روس، ترکی، ایران اور افغانستان نے داعش کو علاقے کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا۔ جی ہاں منصوبہ یہ ہے کہ داعش کے ہزاروں جنگجوئوں کو یہاں لا کر موصل اور رِقّہ جیسا ڈرامہ رچایا جائے اور مذکورہ چھ ممالک میں دہشت گردی کا اندھیر مچایا جائے لہٰذا چھ کے چھ ملک سر پر خطرہ دیکھ کر چلا اٹھے ہیں۔
یاد رہے! خارجی دہشت گردوں کے خلاف ابتدائی فتویٰ جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے جاری فرمایا... اس کے بعد پروفیسر حافظ محمد سعید نے پاکستان میں دہشت گرد خارجیوں کے خلاف جو کام کیا وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ ان کی ہدایات پر ایک درجن سے زائد کتب اور کتابچے عام فہم انداز میں شائع کروا کر لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے گئے۔ حافظ صاحب نے پورے ملک کا دورہ کر کے بڑے بڑے تربیتی پروگرام منعقد کئے۔ علماء کے کنونشن کا انعقاد کروایا اور خارجی دہشت گردی کے بارے میں علمی سطحی پر آگاہی کا کام کیا۔ تعلیمی اداروں میں لاکھوں لیکچرز کا اہتمام کروایا۔ خطباتِ جمعہ میں علماء کو اس کے خلاف موضوع دیئے۔ حافظ صاحب کی کتاب ''خطباتِ قادسیہ‘‘ اس موضوع پر جامع کتاب ہے۔ راقم کی کتاب ''خارجی دماغ اور ردُّالفساد‘‘ معرکۃ الآرا ہے۔ چینلز پر پروگرام نشر کروائے۔ حافظ صاحب نے سوشل میڈیا کے لئے ایک ٹیم بنائی جس نے دن رات خارجیت کے نظریات کے خلاف کام کیا۔ یوں کروڑوں روپیہ حافظ صاحب نے اس مہم پر خرچ کیا۔ اتحادِ امت کی مہم دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر الگ سے چلائی اب حافظ صاحب کو بجائے اس کے کہ دنیا اِک پرامن شخصیت کا اعزاز دیتی انہیں بدنام کرنے لگ گئی۔ پاکستان کی عدالتیں انہیں بار بار سرخرو کر چکیں۔ اب ٹرمپ انتظامیہ ان کی جان لینے کی باتیں کرنے لگی ہے تو حضرت حافظ صاحب نے مسکرا کر کہا، موت کا وقت طے ہے، میرا جرم پاکستان کا استحکام، دہشت گردی کے خلاف کردار، فرقہ واریت کے خلاف کام، مظلوم کشمیریوں کے حق میں کلام، انسانیت کا تحفظ اور احترام ہے تو ان جرائم کی خاطر میں اللہ سے ہر لمحہ ملاقات کے لئے تیار اور پابرکاب ہوں۔ اپنے حضرت حافظ صاحب کی بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ساتھ ہی ایمانِ کامل بولا، جس رب کریم نے ہجرتوں کے سفر میں پاکستان کو ننھا سعید دیا وہ اللہ تعالیٰ دانشور پروفیسر حافظ محمد سعید کی رہنمائی کو اس قدر محفوظ اور توانا رکھے گا کہ خطرات سے محفوظ پاکستان ابھر کے رہے گا (ان شاء اللہ)۔