امریکہ کی جنوبی ریاست کیرولینا یونیورسٹی میں مذہبی شعبے کے پروفیسر جناب جان بوکر نے انگریزی میں بائبل کو باتصویر شائع کیا ہے۔ مسٹر جان بوکر 1984ء سے لے کر 1991ء تک کیمبرج کے تثلیثی کالج کے ڈین بھی رہے ہیں۔ مذکورہ کام پر تقریباً 35پروفیسرز اور مذہبی ڈاکٹرز اور سکالرز نے بھی ان کے تحقیقی کام میں معاونت کی ہے۔ تورات، انجیل، زبور اور بنی اسرائیل کے نبیوں کے باقی صحیفوں کو ملا کر جو کتاب مقدس بنتی ہے اسے بائبل کہا جاتا ہے۔ قانون اور لاء کی اصل بنیاد آسمانی کتاب تورات ہے۔ مذکورہ بائبل میں تورات کا ایک چیپٹر ''جرم اور سزا‘‘ (Crime and Punishment) ہے۔ اس چیپٹر میں پتھروں کا ڈھیر باتصویر دے کر لکھا گیا ہے: stoning یعنی سنگساری، اور پھر بتلایا گیا ہے کہ کسی مجرم کو سنگسار کرنے کی سزا بہت زیادہ جانی پہچانی ہے۔ اس سزا میں تمام معاشرہ مجرم کو سزا دینے میں حصہ لیتا ہے۔ ایسی سزا جرائم کے راستے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔ باقی ماندہ لوگ عبرت پکڑتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں اور پھر تمہارے درمیان ایسے جرم کا ارتکاب نہیں ہو گا (Deut.19:20)۔
قارئین کرام! یہ ہے یہودونصاریٰ کا مذہب اور مذہبی قانون کہ جس کو آج بھی بائبل میں شائع کیا جا رہا ہے، تلاوت کیا جا رہا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہے۔ جدید ذرائع استعمال کر کے وہ مجرموں کو پکڑتے ہیں، سزا بھی دیتے ہیں مگر جرائم ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ امریکہ اور یورپ کے بعض ملکوں میں قتل، جنسی زیادتی اور پھر قتل، بچوں کے ساتھ زیادتی اورقتل ایسے جرائم ہیں کہ سالانہ رپورٹیں ان کی دیکھی جائیں تو بندہ حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ ان کی فرانزک لیبارٹریاں، پولیس کی سپیشلائزیشن اور جگہ جگہ کیمروں کی فٹنگ بھی جرائم کو بڑی حد تک ختم نہیں کر سکیں۔ انڈیا جو ہمارا پڑوسی ملک ہے، آئی ٹی کے شعبے میں دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے۔ بنگلور شہر آئی ٹی کا شہر ہے جو امریکہ جیسی سپرپاور کو بھی آئی ٹی کے میدان میں معاونت دیتا ہے مگر اسی انڈیا کے دارالحکومت دہلی کو عورتوں کے لئے ''ریپ سٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں کے اداکار اور اداکارائیں تک ایسے گندے مجرموں کے لئے سنگساری کی سزا کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ زینب کے باپ کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ زینب کے مجرموں کو سرعام سزا دی جائے، اور اگر اس سزا میں پورا معاشرہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ سزا دینے میں شامل ہو جائے تو تورات اور انسانی فطرت بول بول کر کہہ رہی ہے کہ جرائم کا قلع قمع ہو جائے گا، ہر زینب محفوظ ہو جائے گی۔
جب آرمی پبلک سکول کے بچوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو جنرل (ر) راحیل شریف غصے سے بپھر گئے۔ یہ ان کے اندر کا ایمان اور غیرت تھی اور مظلوم بچوں کے ساتھ ہمدردی تھی کہ تمام سیاستدانوں کو ایک صفحہ پر آنا پڑا اور موت کی رکی ہوئی سزا کا اجرا ہو ا۔ یورپی یونین کے لوگ آج بھی ہم پر پریشر ڈالتے ہیں کہ موت کی سزا ختم کی جائے اور سرعام سزا دینے کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے۔ وہ اسے درندگی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض دانشور کہلانے والوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ عمران درندہ ہے تو کیا ریاست سرعام پھانسی دے کر خود کو بڑا درندہ ثابت کرنا چاہتی ہے؟ میں کہتا ہوں ایسے جملے بول اور لکھ کر بعض دانشور اپنے آپ کو انسانیت کا ہمدرد کہلوانا چاہتے ہیں، یورپی یونین کے ہمدردوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں لیکن کیا ان کو ہمدرد کہا جائے یا بے درد کہا جائے۔ ان کو عمران جیسے درندے کا ہمدرد کہا جائے یا زینب کا ہمدرد کہا جائے کہ زینب کو جس درندگی کے ساتھ عمران نے زیادتی کے بعد قتل کیا ویسا کام درندہ تو نہیں کرتا۔ ایسے بدمعاش کو درندہ کہنا تو درندگی کی توہین ہے۔ ہم نے تو درندوں کو نیشنل جیوگرافک کی فلموں میں دوسرے حیوانوں اور انسانوں تک کے بچوں کے ساتھ پیار اور ہمدردی کے مناظر دیکھے ہیں۔ اللہ کی قسم! عمران جیسے جانور کو درندہ نہیں کہا جا سکتا... لہٰذا دانشوری کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم یورپی یونین کے ذمہ داروں کو بائبل کے مذکورہ مقامات دکھلائیں۔ انہیں بتلائیں کہ تمہاری اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں مذہب کے شعبے میں جو اعلیٰ ترین دانشور ہیں وہ کروڑوں پائونڈز، یورو، ڈالرز وغیرہ خرچ کر کے کروڑوں کی تعداد میں بائبل شائع کر رہے ہیں اور بتلا رہے ہیں کہ عمران جیسے جانوروں کی سزا کیا ہونی چاہئے۔ تم اپنی یونیورسٹیوں میں روا رکھی جانے والی مذکورہ علمی درندگی کو تو ختم کرو؟ پھر دنیا سے بھی مطالبہ کرو کہ عمران کے حقوق کا خیال رکھو، اس کی عزت کو تحفظ دو، اسے رسوائی سے بچائو، رہ گئی زینب، وہ تو جا چکی۔ اس کے ساتھ جو ہونا تھا ہو چکا۔ اللہ کی پناہ ایسی سوچ سے، ایسی جہالت سے، ایسی دانشوری سے اور ایسی ناہنجار خردمندی سے۔ حقیقت یہ ہے میں جان بوکر اور ان کی ٹیم کو سلام کرتا ہوں کہ وہ حق شائع کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔
میں نے قرآن کھولا، اس کی سورت ''المائدہ‘‘ کھولی۔ اس کا نام دسترخوان ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے آسمانی دسترخوان مانگا تھا، وہ نازل ہوا یا نہیں، قرآن خاموش ہے مگر بائبل میں مذکورہ جس عدالتی دسترخوان کا تذکرہ ہے اس کا یہاں بھی تذکرہ ہے۔ آدمؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اس پہلے قتل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کے لئے قانون بنا دیا کہ جس نے کسی ایک جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا، یا اس نے زمین میں فساد بھی نہ کیا اور اسے قتل کر دیا تو اس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کر دیا۔ قارئین کرام! عمران جیسے دہشت گرد قاتل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں واضح کیا کہ ان کو بری طرح قتل کیا جائے، یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں۔ آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ان کے لئے رسوائی ہے... اللہ اللہ! مولا کریم کا قرآن ایسے مجرموں کے لئے رسوائی چاہتا ہے، بائبل رسوائی چاہتی ہے، تورات رسوائی چاہتی ہے، دوسرے لفظوں میں جان بوکر جیسے مسیحی، ڈاکٹر ڈیوڈ ریمر جیسے یہودی اور امیر حمزہ جیسے مولوی ایسے مجرموں کی رسوائی چاہتے ہیں، عبرتناک سزا چاہتے ہیں تاکہ ہر زینب کا تحفظ ہو۔ وہ زینب ہو یا ماریہ، سارہ ہو یا رادھا، ہم اس کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ان کا تحفظ ہو گا تو آسمانی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق ہو گا۔
میاں شہباز شریف صاحب نے زینب کے معاملے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے بس میں ہو تو زینب کے مجرموں کو سرعام سزا ہونی چاہئے۔ اس کے لئے قانون میں ترمیم کرنا پڑے تو وہ بھی کرنی چاہئے... میں کہتا ہوں، آپ نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ اگر میں خادم پنجاب سے خادم پاکستان بن گیا تو خوب خدمت کروں گا۔ جناب خادم صاحب! وہ تو مستقبل کی بات ہے، مستقبل کس نے دیکھا ہے۔ حال (Present) تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسمبلی میں آپ کی اکثریت ہے۔ حکومت آپ کی ہے۔ وزیراعظم عباسی کے وزیراعظم آپ کے بھائی جان میاں محمد نوازشریف صاحب ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس بلوایئے، قانون بنوایئے اور عمران علی کو سرعام لٹکایئے، یہ منظر ٹی وی پر دکھلایئے، یورپی یونین کے لوگوں کو بائبل کا سبق یاد کروایئے اور اہل اسلام کو قرآن کی تلاوت کر کے سنایئے۔ پاکستان میں ہر زینب اور ہر پپو محفوظ ہو گا، آخرت میں اجر غیر ممنون ہو گا اور پاکستان میں آپ کی سیاست کا پھل اوجِ کمال کی جانب ایسی اڑان اڑے گا کہ شہبازی سیاست کی پرواز کو شہباز دیکھتا ہی رہ جائے گا۔