جموں اور کشمیر کے مظلوموں کے لئے 5فروری کو پورے پاکستان میں یکجہتی کااظہار کیا گیا۔ انڈیا کی غاصب فوج اور بی جے پی کی متعصب سرکار کو پیغام دیا گیا کہ جموں اور کشمیر کی آزادی کے لئے پاکستان کے22کروڑ عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیغام تو پورے پاکستان سے گیا، ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گائوں سے گیا مگر بلوچستان سے پیغام کی اپنی اہمیت ہے۔ انڈیا نے پچھلے کئی سال سے کشمیری لوگوں کی جدوجہد آزادی کا بدلہ بلوچستان میں لینے کا فیصلہ کر رکھا تھا چنانچہ یہاں علیحدگی کو ہوا دی گئی۔ امریکہ نے انڈیا کو افغانستان میں رسائی دی چنانچہ اس نے افغانستان سے بلوچستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا۔ کلبھوشن جیسا حاضر سروس انڈین نیوی کمانڈر بھی بلوچستان سے گرفتار ہوا جس نے پاک فوج، ایف سی، پولیس اور شہری مقامات پر بم دھماکے کرا کے سینکڑوں بے گناہ جانوں کو خاک و خون میں تڑپایا مگر آفرین ہے ہمارے سکیورٹی اداروں کی مہارت پر کہ انہوں نے آج بلوچستان سے دہشت گردی ختم کر کے بڑی حد تک امن قائم کر دیا ہے۔ بلوچستان میں قیام امن کے لئے جنرل (ر) ناصر جنجوعہ (سابق کور کمانڈر کوئٹہ) کا کردار بنیادی اور اساسی تھا۔ اس کے بعد جنرل عامر ریاض نے بھی خوب خوب اس کردار کو آگے بڑھایا اور آج اسی کردار کو جنرل عاصم سلیم باجوہ ہمالیہ کی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے لئے بلوچستان کی سرزمین کو کس قدر تنگ کر دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے افغانستان سے آنے والے دہشت گرد کو ایک دھماکے کا 25ہزار روپیہ ملتا تھا، آج کل سکیورٹی اداروں کی چوکسی کی وجہ سے یہ ریٹ 25لاکھ روپے تک چلا گیا ہے۔ پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ دشمنوں نے پیسہ اس قدر پانی کی طرح بہایا کہ ایک علیحدگی پسند وڈیرے نے بلوچستان کے پہاڑوں میں دنبے کی سجی تیار کروائی تو ڈالروں کو جلا کر سجی تیار کی، ساتھ ساتھ ڈانس ہوتا اور آخر پر شراب کے جام پئے جاتے ہیں۔ آج ایسے لوگ افغانستان میں ہیں یا یورپ میں ناامید بیٹھے ہیں اور جن کو چھوڑ کر وہ بھاگے وہ ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ میں سلیوٹ کرتا ہوں اپنی باوقار اور نرم دل فوج کو کہ جس نے ہتھیار ڈالنے والوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیا۔ مالی تعاون بھی کیا۔
مذکورہ کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ پانچ فروری کا دن بلوچستان میں بہت اہم ہو جاتا ہے چنانچہ میں چار فروری ہی کو کوئٹہ پہنچ گیا تھا۔ دفاع پاکستان کونسل بلوچستان کے صدر جناب اشفاق صاحب نے استقبال کیا۔ پانچ فروری کے لئے انہوں نے دن رات محنت کی۔ مستونگ سے آنے والا روڈ جب کوئٹہ شہر میں د اخل ہونے لگتا ہے تو اس کا نام سریاب روڈ ہو جاتا ہے۔ سریاب روڈ سے یکجہتی کشمیر ریلی کا آغاز ہوا۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی سرکاری چھٹی تھی۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کی طرف سے خفیہ دھمکیاں بھی تھیں۔ ان کے پیش نظر بلوچستان کی نئی حکومت نے سکیورٹی کا خوب بندوبست کر رکھا تھا ۔جہاں جہاں سے تاریخ ساز یکجہتی کاروان نے گزرنا تھا وہاں وہاں ملنے والی گلیوں اور بازاروں پر 136مقامات پر ایف سی اور پولیس کے جوان چوکس کھڑے تھے۔ پورے شہر میں سکیورٹی کے انتظامات اپنی مکمل اور آخری حکمت عملی کے ساتھ کئے گئے تھے۔ کاروان روانہ ہوا تو میزان چوک تک پہنچتے ہوئے ممتاز بلوچ اور پشتون رہنما ملتے چلے گئے۔ اہم بلوچ قبیلے شاہوانی کے سربراہ نواب ظفر اللہ خان سے تو ایسی محبت اور دوستی کا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جب بھی کوئٹہ جائوں وہ کاروان میں ہمرکاب بھی ہوتے ہیں اور جلسہ گاہ میں تقریریں کرتے کرتے اب مختصر اور جامع خطاب کے نواب بھی بن چکے ہیں۔
پشتونوں کے بنیادی طور پر دو بڑے قبیلے ہیں، درانی اور خلجی۔ درانیوں کی اہم ترین شاخ آدوزئی ہے، اس کے سردار ڈاکٹر ہارون آدوزئی کوئٹہ شہر کے ممتاز تاجر بھی ہیں۔ سنڈے من سکول جیسے ادارے قائم کر کے علم کی روشنیوں سے کوئٹہ شہر کو منور کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ میں نے پورے پاکستان میں جو چند انتہا درجے کے محب وطن پاکستانی عمائدین دیکھے ہیں، ڈاکٹر صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ گزشتہ یوم پاکستان کو ملک کا سب سے بڑا پرچم انہوں نے تیار کیا تو اس بار یکجہتی کشمیر کاروان میں سب سے بڑا حصہ ان کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک علمی شخصیت ہیں، اس بار جینیٹک انجینئرنگ اور اسلام کے موضوع پر ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلوچوں اور پشتونوں میں یکساں عزت سے نواز رکھا ہے۔ اس کا راز مجھے اس بار ان کے بڑے بھائی حاجی عبیداللہ آدوزئی سے مل کر آشکار ہوا۔ ہارون سنٹر کوئٹہ کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے۔ یہاں حاجی صاحب نے بتلایا کہ انہوں نے ایک پھٹے پر سے آٹھ سال کی عمر میں کپڑا بیچنے کا آغاز کیا۔ اب ان کے پلازے اور کاروباری مراکز ہیں۔ ان کے پاس جو بچے، لڑکے اور جوان کام کرنے آتے ان کو وہ معاوضہ بھی مارکیٹ میں سب سے معقول دیتے ۔ ضروریات کا بھی خیال رکھتے اور کام بھی سکھلاتے، جب وہ کام سیکھ جاتے تو ان کی آگے رہنمائی کرتے کہ وہ اپنا کاروبار شروع کریں۔ کاروبار شروع کرنے میں وہ مکمل تعاون کرتے۔ ان کا یہ مشن آج بھی چل رہا ہے۔ ان کے بائیس ہزار شاگرد ہیں جو اس وقت پاکستان اور بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں۔ ان میں کروڑپتی اور ارب پتی تاجر بھی ہیں۔ لوگ حسد میں مبتلا ہو کر اپنا اور دوسروں کا بیڑا غرق کرتے ہیں، جی ہاں! ڈاکٹر ہارون کے بھائی عبیداللہ کا یہ ہے وہ فیاضانہ انداز کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ لوگو! جو بھی اپنے اوپر اللہ کی رحمت کے دروازے کھلوانا چاہتا ہے وہ حسد سے باز آ جائے۔ دوسروں کی کامیابیوں میں تعاون نہیں کر سکتا تو نقصان پہنچانے سے تو باز آ جائے۔
میر حاجی علی جتک صاحب جو پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر ہیں اس بار سینیٹ کے پکے امیدوار ہیں۔ پکے پاکستانی اور قوم پرست سیاست کے دشمن ہیں۔ جناب حشمت لہڑی صاحب جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اور ٹرانسپورٹر تاجر ہیں۔ یہ پشتون ہیں جبکہ جتک صاحب بلوچ ہیں۔ ہم تینوں ہی حاجی جتک صاحب کی گاڑی میں سوار کاروان میں آگے بڑھتے جا رہے تھے اور محب وطن پاکستانی سیاست پر امید افزا باتیں کرتے جا رہے تھے۔ الغرض! اس کاروان اور میزان چوک جلسے میں موجود میر معظم شاہانی، حاجی را محمد، حضرت علی، عبدالرحیم کاکڑ، میر مقبول لانگو، مولانا رمضان مینگل، موسیٰ خلجی، لشکر شاہوانی، میر عارف بادینی، میر انور بادینی، میر غفار رئیسانی، بلال کاکڑ اور دیگر کتنے ہی زعماء پاکستان کے ساتھ محبت اور اہل کشمیر کے ساتھ دو ٹوک انداز میں یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔
محترم پروفیسر حافظ محمد سعید نے جب مذکورہ کاروان سے ٹیلی فون کے ذریعے سے خطاب کیا تو تمام زعماء نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ ہے وہ مضبوط پیغام جو انڈیا کے لئے یقینا حوصلہ شکنی اور ناامیدی کا پیغام ہے کہ اس نے جو اربوں ڈالر خرچ کئے تھے، سی پیک کو روکنے کے لئے دہشت گردی کے جو منصوبے بنائے تھے وہ یکسر ناکامی اور نامرادی کا شکار ہو گئے ہیں۔ کوئی تصور کر سکتا تھا کہ 5فروری کو بلوچستان کے دل کوئٹہ سے اتنا بڑا کاروان نکلے گا۔ انتظامیہ کی رپورٹ تھی کہ ریلی میں ایک ہزار کے قریب گاڑیاں تھیں جبکہ میڈیا کی رپورٹ پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان گاڑیوں کی ہے۔ اس بار میں نے خود دیکھا کہ کاروان کو لوگ جوق در جوق سڑک کے دونوں جانب جمع ہو کر دیکھ رہے تھے۔ موبائل فون سے تصاویر بنا رہے تھے، خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ الغرض! یہ وہ تبدیلی ہے جو میں نے کوئٹہ میں دیکھی ہے۔ اس تبدیلی کی خوشبو اب پورے بلوچستان میں سونگھی جا سکتی ہے۔ آنے والا کل بتلا رہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے مضبوط ترین رکن ہو گا۔ (ان شاء اللہ)