سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا نام ''ثاقب‘‘ ہے۔ چیف صاحب اسم بامسمّٰی ہو چکے ہیں۔ ''اسم بامسمّٰی‘‘ اسے کہتے ہیں جو اپنے نام کے مطابق کردار ادا کرے۔ ستارے کی چمک کو ''ثاقب‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن بتلاتا ہے کہ جب کوئی شیطان اپنی حد سے گزرتے ہوئے آسمان کے ممنوعہ راستے پر جا نکلتا ہے اور فرشتوں کی اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کو سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا پیچھا ''شہاب ثاقب‘‘ یعنی چمکتا ہوا شعلہ کرتا ہے اور بھاگتے ہوئے شیطان کو راستے ہی میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ ''الطارق‘‘ اور ''الصافات‘‘ میںشہاب ثاقب کی مذکورہ خاصیتوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ محترم چیف صاحب اپنے نام کے مطابق اپنے راستے میں حائل ہونے والوں کو مار مار کر ڈھیر کئے جا رہے ہیں۔ جناب نہال ہاشمی ممنوعہ راستے پر جا نکلے تھے۔ چیف صاحب کے قانونی شہاب ثاقب نے ایسا پیچھا کیا کہ اب نہال صاحب بے حال ہو کر جیل میں پڑے ہیں۔ سینیٹ کی سیٹ سے ہاتھ دھو چکے ہیں، معافی مانگتے رہے مگر جرمانہ بھی ہو کر رہا۔ اب دانیال اور طلال بھی اس راہ کے مسافر ہیں۔ دیکھتے ہیں ان مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ دونوں وزیر ہیں اور ممنوعہ راستوں پر بے دھڑک دوڑنے میں ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتے رہتے ہیں۔ محترم میاں نوازشریف صاحب اگرچہ بھاری بھرکم لیڈر ہیں مگر دوڑ ان کی بھی متواتر تیز سے تیز ترین ہوتی جا رہی ہے۔ میاں صاحب کے سامنے ابھی صاف ستھرا ٹریک ہے اس لئے دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کاش کوئی انہیں احساس دلائے کہ کھڈے اور گڑھے بھی راستے میں آ سکتے ہیں، لہٰذا ذرا سنبھل کر محترم اور پیارے میاں جی!
پاک فوج نے غزنوی اور غوری میزائل بنائے ہیں، ناموں سے واضح ہے یہ انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ایران نے بھی شہاب میزائل بنایا ہے، ابھی تک واضح نہیں کس غیر مسلم جارح قوت کے خلاف بنایا ہے؟ البتہ پاکستان میں عسکری میزائلوں کے بعد قانونی میزائل بھی بن چکا ہے اور اس کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے۔ امید یہ ہے کہ اب اس کا استعمال دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ قانونی میزائل پاکستان کے عوام کو انصاف دے گا۔ انصاف ہو گا تو ملک ترقی کرے گا۔ چیف صاحب کے مذکورہ قانونی میزائل کی رفتار اور اس کی درست سمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کو جلد نبٹانے کی مدت مقرر ہو چکی ہے۔ حکم امتناعی کے قانون نے جس طرح لاکھوں لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اس کی بھی اصلاح کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ چھٹی کے دن بھی عدلیہ کے جج کام کر رہے ہیں۔ رشوت ستانی کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ عدلیہ کے لوگوں کو تنخواہوں پر گزارہ کرنے کا چیف صاحب وعظ ارشاد فرما رہے ہیں، وعظ پر عمل نہ ہوا تو لگتا ہے قانونی میزائل لگنا شروع ہو جائے گا۔ زینب کا کیس جلد اور ریکارڈ سماعت کے بعد فیصلے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ اب مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی باتیں چل رہی ہیں۔ خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ محترم چیف صاحب اس عمل کو بھی قانونی عمل بنا کر مجرم کی سزا کو عبرتناک بنا دیں گے اور یہ ایسا قانونی میزائل ہو گا جو ہمارے بچوں کو حفاظتی حصار فراہم کرتا رہے گا۔ محترم چیف صاحب ہسپتالوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ پینے کو صاف پانی دلوانے کا بھی عزم کئے ہوئے ہیں۔ ملاوٹ سے پاک دودھ اور دیگر اشیائے خورنی فراہم کروانے کا بھی ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ ان سارے راستوں پر چل رہے ہیں اور چلتے جا رہے ہیں۔
بعض حکمران اپنے گھر کے سامنے عوامی راستے کو بھی بند کر دیتے ہیں تاکہ ادھر سے کسی انسان کا گزر نہ ہو۔ چیف صاحب نے یہ راستے بھی کھلوا دیئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ سڑک اور راستے کے بارے میں جو احادیث لائے ہیں، ان احادیث کو انہوں نے ''کتاب المظالم و الغصب‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی راستوں کو بند کرنا، رکاوٹیں کھڑی کرنا ظلم بھی ہے اور عوام کا حق چھیننا بھی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ صحیح مسلم میں اللہ کے رسولﷺ کا ایک فرمان لائے ہیں کہ ''جس نے زمین کے نشان کو بدلا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ اس لعنت میں وہ لوگ شامل ہیں جو فٹ پاتھ پر قبضہ کرتے ہیں، وہاں دکانیں اور ٹھیلے لگا لیتے ہیں۔ بلدیہ کا عملہ ٹھیلے لگانے والوں سے پیسے لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ منڈی فیض آباد اور موڑ کھنڈا جیسے شہروں میں جا کر دیکھئے، سروس روڈ پوری طرح بند ہے اور اس پر ریڑھیاں، ٹھیلے اور دکانوں کا پھیلائو ہے۔ ایسا کرنے والے لعنت کی زد میں ہیں۔ جو لوگ پگڈنڈیوں کو مٹا کر یا ادھر ادھر کر کے اپنی زمین میں اضافہ کرتے ہیں یہ لوگ غاصب اور ملعون ہیں۔ اس لعنت میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی کی زمین کی علامتوں کو ختم کر کے ناجائز قبضے کرتے ہیں۔ صاف ستھرے راستے پر رکاوٹ کھڑی کرنا اور اسے اپنی ذات کے لئے خاص کرنا یہ سب لعنتی کام ہیں۔ مائل سٹون (سنگ میل) کو مٹانا اور مسافروں کی ہدایات کے بورڈز کو نقصان پہنچانا بھی ملعون کام ہیں۔ اس کے برعکس ان ہدایات کو آویزاں کرنا، مسافروں کی درست راستے پر رہنمائی کرنا اہل جنت کے کام ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا ''ایک شخص نے کانٹوں بھری شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف کر دیئے۔ اسی طرح ایک شخص نے تکلیف دہ درخت کو راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ نے اسے جنت میں داخل کر دیا میں نے اسے جنت میں مزے اڑاتے دیکھا (صحیح مسلم)۔ اس سے معلوم ہوا کہ راستے کی رکاوٹیں ہٹانے والے جنتی لوگ ہیں، میں کہتا ہوں وہ لوگ جو احتجاج کرنے کے لئے راستے بند کرتے ہیں اس سے کاروبار تباہ ہوتے ہیں، مریض راستے میں دم توڑتے ہیں، جنازہ میں شرکت سے لوگ محروم ہوتے ہیں، شادی کی خوشیاں راستوں پہ قربان ہو جاتی ہیں۔ ایسے ظلم کرنے والے ملعون لوگ ہیں جبکہ انتظامیہ کے لوگ ان کو ہٹا کر جنت حاصل کرتے ہیں مگر جنت کے حصول والی انتظامیہ ہے کہاں؟
میاں نوازشریف صاحب فرماتے ہیں میں 70سال کی تاریخ بدلوں گا، محترم میاں صاحب! موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد تو لاہور کے قریب ہے، لاہور اور گردونواح کی سڑکوں کا کلچر تو آپ اپنی حکمرانی کے پچھلے 35سال میں بدل نہیں سکے، دکھائی دینے والے راستے تو آپ کھول نہیں سکے، بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ سڑکوں اور راستوں کی بندش اور آلودگی تو آپ کی حکمرانی کا کلچر ہے، آپ کس سے حساب لو گے؟ ہم سب کہتے ہیں راستے کھلنے چاہئیں، اب یہ بند راستے آپ بند کرنے والے کھولیں گے یا کہ ثاقب نثار جیسے چیف کھولیں گے؟ میاں صاحب! آپ اپنی راہیں پاکستان کے راستوں پر ڈالیں ہم سب کی خیر اور بھلائی اسی میں ہے۔ ایسا نہ ہوا تو 70سالہ تاریخ وہ نہیں بدلے گاجو اس تاریخ کا سب سے بڑا حصہ رہ چکا ہے اور آج نقصان سب کو دکھائی دے رہا ہے بلکہ تاریخ کوئی اور بدلے گا وہ کہ جو اس بگاڑ میں حصہ دار نہیں ہے۔ وہ کون ہو گا مجھے پتہ نہیں، اللہ بہتر جانتے ہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ نہیں کوئی اور ہو گا۔