میاں محمد نوازشریف صاحب کو جوتا مارا گیا، بے حد دکھ ہوا۔ جامعہ نعیمیہ میں مذکورہ حادثہ ہوا مزید صدمہ ہوا۔ حرکت کرنے والا اسی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھا، تکلیف کئی گنا بڑھ گئی۔ اس فارغ التحصیل نے دورئہ حدیث یقینا کیا ہو گا۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث پڑھی ہو گی کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے جانور کے چہرے پر مارنے اور داغ لگانے سے منع فرمایا ہے (مسلم:2116) جس کسی نے جانور کے چہرے پر داغ لگایا تھا اللہ کے رسولؐ نے اس پر لعنت فرمائی تھی۔ (مسلم:2117) مذکورہ شخص نے جب میاں صاحب کے ساتھ توہین کا ارتکاب کیا تو نشانہ ان کے چہرے کا لیا۔ یہ تو مجھ جیسے احترامِ انسانیت کے حاملین کے لئے مسرت کی بات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب محترم کا چہرہ بچا لیا۔ انسان کا چہرہ اس قدر معزز ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے انسان کے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا اور سبب یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے (بخاری: 2559) اللہ اللہ! مولا کریم نے انسان کے چہرے کو اس قدر عزت سے نوازا کہ اس کی تکریم کو آسمان کی رفعتوں سے بھی بالا کر دیا۔ اس چہرے کا جو نشانہ لے میں اس کو دین کا طالب علم نہیں مانتا۔ میں اس کو حضور نبی کریمؐ کا محب اور عاشق نہیں مانتا۔ میں اس کا تعلق رحمتِ دو عالمؐ سے تسلیم نہیں کرتا۔ میرے حضورؐ کے محب حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے۔ وہ میرے حضورؐ کی تعلیمات کو پا کر آپؐ کی احادیث کو سینے میں لے کر جو فرماتے ہیں، ذرا ملاحظہ ہو! بتلاتے ہیں کہ ایک بار اللہ کے رسولؐ منبر پر خطبہ ارشاد فرمانے کو چڑھے تو حضورؐ نے بلند آواز سے مسلمانوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: اے لوگو! زبان سے کلمہ پڑھ کر ایک شخص مسلمان ہو گیا مگر ابھی اس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ مسلمانوں کو تکلیف نہ دو۔ (ترمذی، حسن: 2032) جی ہاں! ثابت ہوا، زبانی کلامی اسلام کے دائرے میں داخل تو ہو گیا مگر دلی طور پر مومن اس وقت بنے گا جب مسلمانوں کو دکھ نہیں دے گا۔ آہ! جب نام نہاد دیندار نے میاں صاحب کی توہین کا ارتکاب کیا تو میاں صاحب کو دکھی کر کے خود وہ دلی طو رپر مؤمن کہاں کا تھا؟ لوگو! حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے قدرے لمبی حدیث بیان کرنے کے بعد کعبہ کی طرف دیکھا اور یوں مخاطب کیا:
''اے کعبہ! تیری عظمت کے کیا کہنے، تیری حرمت (عزت) کی کیا بات ہے، مگر ایک مومن کی عزت و حرمت اللہ تعالیٰ کے ہاں تجھ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (ترمذی:2032، حسن) لوگو! حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مذکورہ جملہ کہا تو اللہ کے رسولؐ کی حدیث ہی کو بیان کیا یعنی ہر انسان کی عزت و تکریم انتہائی ضروری ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی ہو جبکہ ایک مسلمان کی تکریم تو کعبہ سے بڑھ کر ہے۔
میرے دل پر اس وقت تو شدید ترین چوٹ لگی جب ایک چینل نے یہ ٹِکر چلایا ''میاں نوازشریف بھی جوتا کلب کے ممبر بن گئے‘‘ اللہ تعالیٰ کی پناہ ایسے جملے سے جو نہ صرف خود توہین آمیز ہے بلکہ بدتمیز کو مزید جرأت کی مہمیز دینے والا ہے۔میاں نوازشریف صاحب جامعہ نعیمیہ میں مہمان تھے، مہمان کی توہین کی گئی۔ میڈیا کو حضور نبی کریمؐ کے فرامین جو مہمان نوازی اور مہمان کی تکریم سے متعلق ہیں ان کو سکرین کی زینت بنانا چاہئے تھا۔ ایسے بہت سارے فرامین میں سے میں صرف ایک فرمان رسولؐ قارئین کے سامنے رکھتا ہوں جو تکریمِ مہمان کی اساس ہے، فرمایا:
''جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہئے۔‘‘ (ابن ماجہ:3672، مسلم، کتاب الایمان) یعنی جو شخص اپنے مہمان کی توہین کرتا ہے اس کا اللہ تعالیٰ اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر جو ایمان ہے وہ ناقص ہے، یہ مکمل اس وقت ہوتا ہے جب مہمان کی تکریم کی جائے۔
جامعہ نعیمیہ اور جاتی امرا دراصل دو خاندانوں کے مابین ایک دینی تعلق کی تاریخ کا نام ہے۔ مفتی محمد حسین مرحوم اور میاں محمد شریف مرحوم کے مابین تعلق کا آغاز ہوا۔ پھر ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے جامعہ نعیمیہ میں ذمہ داری سنبھالی تو میاں نوازشریف صاحب اور میاں شہباز شریف صاحب نے اس تعلق کو خوب نبھایا۔ جناب ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور میرے درمیان جامعہ نعیمیہ میں ملاقاتیں بھی رہیں۔ تقریبات میں بھی اکٹھے ہوتے رہے۔ علمی نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود باہم احترام رہا۔ پھر دہشت گردی کا آغاز ہوا تو سرفراز نعیمی مرحوم نے ڈٹ کر اور کھل کر اس کو خارجی فتنہ قرار دیا۔ میں نے بھی کھل کر اور ڈٹ کر کتاب و سنت کے اسی منہج کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر صاحب آخرکار اسی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ بم دھماکے سے چند دن قبل میں انہی کے کمرے میں تبادلہ خیالات کرتا رہا۔ اکٹھے جوس پیتے رہے۔ مجھے کیا خبر تھی، سرفراز نعیمی صاحب یوں سرفراز ہوں گے۔ میاں صاحب انہی کو خراج تحسین پیش کرنے یہاں آئے تھے۔ سرفرار نعیمی مرحوم کے بیٹے راغب نعیمی صاحب میاں صاحب کے میزبان تھے۔ راغب نعیمی صاحب نے میرے ساتھ اپنے والد کے تعلقات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ باپ کے تعلق داروں سے تعلق رکھنا حضور نبی کریمؐ کی مبارک تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج یقینا راغب صاحب ہم سب سے زیادہ دکھی ہیں کیونکہ ان کے جامعہ میں ان کے طالب علم نے مذکورہ حرکت کر کے ہر مسلک کے ہر مدرسہ اور ہر طالب علم کو بدنام کرنے کی جسارت کی ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تاریخ کی مشہور عالم کتاب ''البدایہ والنھایہ‘‘ میں مہمان نوازی کا ایک شاندار واقعہ لائے ہیں کہ جب نجران کے مسیحی لوگوں کا ایک وفد مدینہ آیا تھا تو ان لوگوں نے (غالباً اتوار کے دن) حضور نبی کریمؐ کے سامنے اپنا ایک مسئلہ رکھا کہ وہ عبادت کرنا چاہتے ہیں، کہاں کریں؟ تو حضرت محمد کریمؐ نے ان سے کہا وہ میری مسجد (نبوی) میں اپنی عبادت کر لیں... اللہ اللہ! اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ختم المرسلینؐ جب ان غیر مسلم مہمانوں کو عبادت کے لئے اپنی مسجد پیش کر رہے ہیں تو باقی مہمان نوازی کا کیا حال ہو گا... یقینا یہ مہمان نوازی انتہائی کمال درجے کی تھی۔ تبھی تو اس کے اثرات یوں سامنے آئے کہ نجران کے سرداروں کا یہ اعلیٰ ترین وفد واپسی پر نجران پہنچ نہ پایا تھا کہ اس کے آدھے سے زیادہ ارکان مسلمان ہو چکے تھے۔ آہ! آج کے نام نہاد دینداروں کا کردار یہ ہے تو ان کے قابل مذمت کردار سے غیر مسلم تو کیا مسلمان ہو گا، جو مسلمان ہیں وہ بھی سیکولر بنتے جا رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور فرقہ واریت اس قدر انتہائوں تک پہنچ چکی ہے کہ ابھی چند ہفتے قبل کی بات ہے ایک طالب علم نے اپنے استاد اور پرنسپل کو یہ کہہ کر قتل کر دیا کہ اس نے اسلام آباد میں ایک دھرنے میں شامل ہونے پر اس سے پوچھ گچھ کیوں کی؟ خواجہ آصف پر بھی ایسے ہی ایک انتہا پسند مذہبی کارکن نے سیاہی پھینک دی۔ میں سوچ رہا تھا جناب خورشید محمود قصوری بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں ان کے ساتھ بیٹھے میزبان پر دہلی میں نریندر مودی کا ایک پیروکار سیاہی پھینکتا ہے اور سیالکوٹ میں ایک پاکستانی انتہا پسند موجودہ وزیر خارجہ پر سیاہی پھینکتا ہے مگر کالک کس کے منہ پر جمی؟ یقینا سیاہی پھینکنے والوں کے چہرے ہی سیاہ ہوئے۔ بہرحال! اس طرز عمل کی شدید حوصلہ شکنی ہونی چاہئے اور سخت ترین سزا ہونی چاہئے۔
آخرپر تصویر کا ایک دوسرا رخ محترم میاں صاحب کو بھی دکھانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کا پس منظر ایک صلح جو، شائستہ سیاستدان کا ہے۔ دین کے ساتھ محبت کرنے اور حضرت محمد کریمؐ سے والہانہ محبت و عقیدت کا ہے۔ مگر اس پس منظر پر کچھ ایسے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے جو میاں صاحب کو بالکل الٹ سمت میں لے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو مگر عوامی تاثر بہرحال یہی ہے۔ آئین میں ختم نبوت کے حساس ترین ایمانی مسئلہ کے ساتھ ان کی حکمرانی میں خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ اگرچہ احتجاج کے بعد چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ ختم ہوا مگر اس سے میاں صاحب کے احترام کو سخت ترین اور گہرا ترین گھائو لگا ہے۔ میری گزارش ہو گی کہ اپنے معروف پس منظر کو نہ بھولیں۔ اداروں کے وقار کا بھی خیال کریں۔ صبرسے کام لیں۔ یاد رکھیں جو رب کریم کے حبیبؐ کے وقار کا خیال کرے گا اس کا وقار مجروح نہیں ہو گا۔