"AHC" (space) message & send to 7575

حساس رشتوں کی پامالی کیوں؟

باپ بیٹے میں جدائی ڈال کر حساس رشتے کو پامال کیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے ہی پامال کیا۔ بیس سال سے زائد عرصہ تک باپ روتا رہا۔ رو رو کر بینائی بھی ختم ہو گئی مگر اغوا کر کے کنویں میں پھینکنے والوں کو کوئی ترس نہ آیا۔ یوسف علیہ السلام دس‘ بارہ سال کے قریب عمر کے نوخیز لڑکے تھے۔ باپ بیٹے کا رشتہ ایک لمبی مدت تک کٹا رہا۔ ہمالیہ جیسے دن بیتتے رہے۔ نانگا پربت جیسی چوٹیاں رات بن کر گزرتی رہیں باپ بیٹا یوں تڑپتے رہے جیسے دانوں کو بھٹی یا کڑاہی میں ڈالتے ہیں تو وہ گرم ریت پر پھٹتے ہیں اور مکئی کے یہ دانے اپنا جگر پھاڑ کر سفید ہو جاتے ہیں مگر برادرانِ یوسف اس قدر سخت دل تھے کہ باپ کو ہر روز اور ہر شام جدائی کی کڑاہی میں بھنتے ہوئے دیکھتے تھے مگر ترس اور رحم نام کو نہ تھا۔ اس کے برعکس باپ ایک ایسی شفیق ہستی ہے کہ یہی پتھر دل بیٹے جب قحط کے ستائے ہوئے فلسطین سے مصر کو روانہ ہوتے ہیں تاکہ وہاں کے بادشاہ سے گندم کی بوریاں لائیں تو باپ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے ان اغوا کار بیٹوں کو مخاطب ہوتے ہوئے نصحت کرتے ہیں ''اے میرے بیٹو (شہر میں داخل ہوتے ہوئے) ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا، مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ باقی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی (تقدیری) معاملہ پیش آ جائے تو اسے میں نہیں ہٹا سکتا۔ اللہ تعالی کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے۔ (یوسف :67 ) اللہ اللہ! باپ کا رشتہ۔ والد کا پدری تعلق اور محبت کس قدر آسمان کی بلندی کو چھو رہی ہے کہ بیٹوں کو نظر نہ لگ جائے۔ کوئی دیکھے تو حسن، جوانی اور تعداد کو دیکھ کر بری نگاہ سے نقصان نہ پہنچا دے۔ جھگڑا ہو جائے اکٹھے ہوں گے تو لڑیں گے۔ دو دو‘ تین تین ہو کر مختلف دروازوں سے جائیں گے تو بچت اور تحفظ کی امید ہے یعنی ایک باپ اپنے پدری اور پسری رشتے کو آسمان کی اڑان دے رہا ہے۔ اپنے چھوٹے اور محبوب ترین بیٹے یوسف کے اغوا کاروں کو بھی نصحیت کی صورت میں پیار بانٹ رہا ہے۔ 
حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ جیکب اور جوزف نام یہودی بھی رکھتے ہیں اور مسیحی بھی۔ مسلمان یعقوب اور یوسف نام رکھتے ہیں یعنی مذکورہ واقعہ اور اس کے کرداروں کو تینوں الہامی مذاہب کے لوگ مانتے ہیں میرا سوال ہے کہ اقوام متحدہ جو ساری دنیا کے انسانوں کے حقوق کا ادارہ ہے‘ وہ اسرائیل سے کیوں نہیں پوچھتا کہ یعقوب اور یوسف نام رکھنے والے حکمرانو! جب تم اسرائیل یا غزہ اور مغربی کنارے میں آباد ہزاروں نوجوانوں کو پکڑتے ہو‘ باپ کو اطلاع کئے بغیر جیلوں میں سالہا سال رکھتے ہو‘ خاموشی کے ساتھ انہیں قتل کر دیتے ہو‘ ان کی لاشیں کبھی ان کے دروازوں کے سامنے اور کبھی ویرانوں میں پھینک دیتے ہو‘ کبھی لاشیں بھی نہیں دیتے‘ قبروں کا ایڈریس بھی نہیں بتاتے‘ ذرا بتلائو! یہ تم کس کی راہ اختیار کرتے ہو؟ یعقوبوں اور یوسفوں کے دلوں کو تڑپا کر بائبل سے کیا سبق لیتے ہو؟ اے مسیحی حکمرانو! جیکب اور جوزف نام رکھنے والو! گوانتاناموبے میں آپ لوگوں نے کیا کیا کچھ نہیں کیا؟ بائبل پڑھنے والو! یو این او اور یورپی یونین کے انسان دوست قوانین کے حوالے سے تم لوگ انڈیا کو کیوں نہیں پوچھتے کہ مقبوضہ کشمیر میں جن ہزاروں نوجوانوں کو خفیہ اداروں نے اغوا کر کے اٹھا لیا، پھر ٹارچر سیلوں میں ان کو بے حال کر دیا، قبرستان آباد ہو گئے مگر باپ کو کسی قبر تک کا نام نہ بتلایا۔ ان بیس ہزار سے زائد گمشدگان کے باپ اور مائیں کتبے لے کر سری نگر کے لال چوک اور دیگر شہروں کے چوراہوں میں سالہا سال سے ہر ہفتے احتجاج کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، ان کی ایک تنظیم بھی بن چکی ہے۔ جیکب اور جوزف نام رکھنے والو! یعقوب اور یوسف کے حساس رشتے کو پامال کرنے والوں سے کب باز پرس کرو گے؟ کب ان کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرو گے؟
اے مسلم دنیا کے حکمرانو! قرآن میں سورہ یوسف ہے۔ اس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عمرؓ زار و قطار روتے تھے۔ جی ہاں! وہ روتے تھے تو ان کا کردار یہ تھا کہ ایک اقلیتی شخص جس کا نام فیروز تھا‘ اس نے دھمکی دے دی کہ ایک ایسی چکی بنائوں گا، جس کی آواز دنیا سنے گی۔ امیر المومنین نے کہا یہ مجھے قتل کی دھمکی دے گیا ہے۔ جی ہاں! دھمکی واضح نہ تھی۔ حضرت عمرؓ نے شک کیا مگر شک کی بنا پر خاموشی سے نہ اٹھوایا۔ انٹیلی جنس کو بھی پیچھے نہ لگایا کہ وہ اس پر نظر ہی رکھ لے۔ حالانکہ ایسا کرنا بالکل درست تھا مگر اپنی ذات کے لیے کہ جو سٹیٹ کے تحفظ کا باعث تھی‘ کچھ نہ کیا۔ شہید ہو گئے مگر اقدام نہ کیا آج محض شک کی بنا پر لوگوں کو خاموشی سے اٹھا لیا جاتا ہے، کیا گھر والوں کو بتانا ضروری نہیں؟ جی ہاں! اٹھائیے‘ ضرور اٹھائیے مگر باپ بیٹے کے رشتے کو پامال کرنے کی شرط پر نہیں۔ ماں بیٹے کے رشتے کو کوئلوں پر بھون کر نہیں۔ میاں بیوی کے رشتے کی محبت اور چاشنی میں گلے کو گھوٹنے والا زہر دے کر نہیں۔ بہن بھائیوں اور دیگر رشتوں کو پھانسی گھاٹ پر کھڑا کر کے نہیں ۔ آپ کیجئے‘ سب کچھ کیجئے مگر قانون کے تحت کیجئے اور رشتوں کو بحال رکھ کر کیجئے۔ بحالی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ماں باپ کو ، بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ دو تین گھنٹوں کے اندر بتلائیے اور پھر بات کروائیے۔ ا پنا کام بھی پورا کیجئے اور رشتے بھی بحال رکھیئے۔ ایسا نہیں ہوتا تو بائبل کے جیکب اور جوزف کے کردار کا انکار ہے‘ قرآن کی سورۃ یوسف کا انکار ہے۔ انسانی رشتوں کو کچلنے اور مسلنے پر اصرار ہے۔
قرآن کی ایک سورۃ ''النّسائ‘‘ ہے۔ اس کا معنی خواتین ہے۔ عورت کے حوالے سے سورت کی پہلی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ مولا کریم کیا فرماتے ہیں '' اے انسانو! اپنے رب سے ڈرو‘ وہ رب کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور پھر ان دونوں سے بڑی تعداد میں خواتین و حضرات پھیلا دیئے۔ چنانچہ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے ضرورت مندی کے سوال کرتے ہو۔ رشتوں کی پامالی سے بھی ڈر جائو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر نگرانی فرما رہا ہے۔ (القرآن) اللہ اللہ ! مولا کریم نے کسی ایک مذہب کو نہیں انسانوں کو مخاطب کیا۔ سب انسانوں کا رشتہ ایک ہے۔ بائبل، قرآن اور حدیث رسولؐ ایک ہی بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی پسلی کے گوشت سے بنایا گیا پھر پوری انسانیت کے ماں باپ آدم و حوا ہی ہیں۔ لہٰذا ان رشتوں کو کاٹنے سے بچ جائو، ڈر جائو۔ سکھوں کو مشرقی پنجاب میں انڈین خفیہ اداروں نے ہزاروں کی تعداد میں اٹھا کر خاموشی سے ختم کر دیا۔ باپ ، مائیں اور بیویاں بچے راہ تکتے مر گئے، بوڑھے ہوگئے، بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ آہ! رشتے پامال ہو گئے۔ دنیا کی ہر عورت اور ہر مرد جس جگہ 9 ماہ گزار کر دنیا میں آیا ہے‘ اسے قرآن '' رحم‘‘ کہتا ہے۔ یعنی ہر بچہ اپنی ماں کے ساتھ مہربانی کے رشتے سے جڑا ہوا ہے اور ماں سے متعلق جتنے رشتے ہیں وہ بھی اسی رحم کے حوالے سے ہیں۔ ٹھیک ہے اے حکمرانو! تم نے جس کو بھی راہ چلتے خاموشی سے اٹھا لیا‘ وہ کسی ماں کے رشتۂ رحم سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اپنا قانونی کام کرو مگر رحم کے رشتے کو مت توڑو۔ ماں کو فوراً باخبر کرو۔ حکمرانی تو طاقتور ہوتی ہے۔ ریاستی قوت اس کے پاس ہوتی ہے، وہ رشتے کو کیوں توڑے، وہ رشتے کو کیوں تڑپائے؟ رحمت دو عالمﷺ نے فرمایا ہے ''رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ (بخاری: 5984) مزید فرمایا ''جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کے نشان ( مرنے کے بعد لوگ کہیں اچھا تھا) دیر تک (دنیا میں) قائم رہیں‘ وہ رشتہ داری کو ملائے۔ (بخاری، کتاب الاداب: 5983)
لوگو! امام بخاری مذکورہ حدیث کو ادب کے باب میں اس لئے لائے کہ جو رشتوں کو پامال کرتا ہے‘ وہ دنیا کا ادب نہیں جانتا، وہ انسانیت کا احترام نہیں جانتا اور جو انسانیت کا احترام نہیں جانتا وہ قرآن نہیں جانتا۔ قرآن کہتا ہے ہم نے اولادِ آدم کو تکریم بخشی ہے۔ جو تکریم سے خالی ہے‘ جو کرم سے تہی دامن ہے‘ جو انسانی رشتوں کی محبت سے ناواقف ہے‘ وہ جس قدر بھی پڑھا لکھا ہے بہرحال وہ ادب سے محروم ہے اور جو ادب و احترام سے محروم ہے وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق قیامت کے دن رشتہ (رحم) اللہ کا دامنِ رحمت پکڑ کر کھڑا ہوگا کہ اے اللہ! جس نے مجھے ملایا اس کو ملا اور جس نے مجھے توڑا اس کو توڑ دے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں