عمران خان نے دھرنے کے دوران خوب تقریریں کیں‘ بعد میں بھی گرم موسم میں چینلز نے ان کی تقاریر کو لائیو نشر کیا‘ جس نے خان صاحب کی ایک عادت خاص طور پر نوٹ کی کہ جب بھی انہوں نے چہرے کے پسینے کو صاف کیا تو بازو کے ساتھ صاف کیا۔ میں سوچنے لگ جاتا تھا کہ اکثر بچے‘ بچپن میں ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ میں بھی ایسے ہی کیا کرتا تھا اور میری والدہ محترمہ رضیہ مرحومہ نے کتنی بار مجھے ٹوکا اور جھڑکا کہ قمیص کیوں خراب کرتے ہو؟ رومال رکھنے کی عادت ڈالو۔ خان صاحب کو بھی مرحومہ شوکت خانم نے ٹوکا ہو گا‘ جھڑکا ہو گا‘ مگر مجھ جیسوں کی طرح نہ تو خان صاحب ہاتھ میں رومال تھام سکے اور نہ ٹشو پیپر پکڑ سکے۔ انہوں نے اپنی پیاری اور محبوب والدہ محترمہ کے نام سے پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد اور انوکھا کینسر ہسپتال بنا دیا‘ مگر اپنی ایک سادہ سی عادت کو نہ چھوڑ سکے۔ میں اس سے یہی سمجھ سکا ہوں کہ خان صاحب اک سادہ انسان بھی ہیں اور مستقل مزاج بھی۔ ان کی جس عادت کو ان کی والدہ محترمہ نہ چھڑوا سکیں۔ یکے بعد دیگرے تین بیویاں بھی کچھ نہ کر سکیں۔ یقیناانہوں نے بھی کوشش کی ہو گی‘ مگر ہر ایک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ خان صاحب واسکٹ بھی نہیں پہنتے۔ بس شلوار قمیص ہی پہنتے ہیں۔ وہ وزارت ِعظمیٰ کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ میں اس سوچ میں ہوں کہ میرے وزیراعظم کے سیکرٹری یا پروٹوکول افسر کو اوّل تو یہ جرأت ہی نہیں ہو گی کہ وہ خان صاحب کو کہہ سکیں کہ سر! یہ رومال حاضر ہے۔ یہ خوشبو دار ٹشو موجود ہے۔ بازو کی بجائے اسے استعمال فرمائیے گا۔اور اگر جرأت کر بھی لی‘ تو جہاں ان کی محبوب ہستی ‘یعنی ان کی والدہ محترمہ کامیاب نہیں ہو سکیں‘ بڑی بہنیں بھی چھوٹے بھائی کا خیال رکھتی ہیں‘وہ بھی کامران نہیں ہو سکیں اور تین عدد شریکِ حیات بھی ناکام ہو گئی ہیں‘ تو بے چارہ سیکرٹری یا پروٹوکول افسر کیسے کامیاب ہو گا؟یقینااسے بھی ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔
محترم حفیظ اللہ نیازی صاحب‘ عمران خان کے بہنوئی ہیں۔ میری ان سے اچھی راہ و رسم ہے۔ 2013ء کے الیکشن سے پہلے مجھے حفیظ اللہ نیازی صاحب کہنے لگے: حمزہ صاحب! اللہ تعالیٰ اس عمران پر اس قدر مہربان ہیں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لگے بندھے دنیاوی قوانین سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرما رہے ہیں۔ حفیظ صاحب صحافی بھی ہیں اور دانشور بھی۔ انہوں نے پھر کچھ اپنی دانشورانہ باتیں منوانا شروع کر دیں۔ پارٹی میں بھی عمل دخل بڑھنے لگ گیا۔ خان صاحب نے محسوس کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ایک دوسرے سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ یا اللہ! کیسے دن آگئے کہ عمران خان آپ کی مدد سے تخت پر بیٹھنے والے ہیں اور حفیظ اللہ صاحب اس شخص کے گن گا رہے ہیں‘ جو جیل میں اپنے دن گن رہے ہیں۔ میں حفیظ اللہ صاحب سے چند ماہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ رشتہ داری کو قائم رکھئے‘ مگر اب عمران خان صاحب سے عرض کروں گا کہ اب آپ 20 کروڑ اہل پاکستان کے حکمران بن کر حلف اٹھانے والے ہیں۔ پہلا کام رشتے ناتے جوڑنے کا کیجئے۔ آپ نے جب اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو اپنا موٹو اور سلوگن قرآن کی اس آیت کو بنایا تھا '' (اے اللہ) ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف اور صرف تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں‘‘ ۔اس اللہ کی مدد رشتوں کے جوڑنے سے ملے گی۔ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ اپنی صحیح بخاری میں حدیث لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب ساری مخلوق کو پیدا فرما کر فارغ ہو گئے‘ تو 'رَحم‘ یعنی رشتہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑ لیا اور التجائی نگاہوں سے دیکھنے لگ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہوتا کہ جو تجھے ملائے گا‘ میں اس کو اپنے ساتھ ملائوں گا اور جو تجھے توڑے گا‘ میں اسے اپنے سے توڑ دوں گا (بخاری)۔ جی ہاں! اپنی بہنوں سے رشتہ قائم کیجئے۔ ان کو منایئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ملے گی۔ بھانجوں اور بھانجیوں کو سینے سے لگائیں گے‘ تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ حکمرانی میں اللہ کی مدد شامل ِحال ہو گی ۔(انشاء اللہ)
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ دونوں جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت ہیں۔ اپنوں‘ بیگانوں اور دشمنوں کے لیے بھی رحمت ہیں۔ اس دنیا سے جب آپ تشریف لے جانے والے تھے‘ تو ایک دن ‘آپؐ نے صحابہ سے خطاب فرماتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ میں نے اگر کسی کو کوئی جھڑک دیا ہو تو وہ مجھے معاف کر دے یا بدلہ لے لے۔ یہ سننا تھا کہ صحابہ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آنسو تو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ آوازیں آہ و بکا کی بھی بلند ہو گئیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ حضورﷺ کے اسوئہ کو اختیار کرتے ہوئے آپ ان سیاستدانوں کو فون کر کے معذرت کریں کہ جن کے متعلق آپ نے سخت جملے استعمال کیے اور ان عام لوگوں سے بھی معذرت کریں کہ جن کے بارے میں آپ سے سخت جملے زبان سے ادا ہو گئے اور ان سب لوگوں کو معاف کرنے کا اعلان کر دیں کہ جنہوں نے آپ پر فتوے لگائے اور انتہائی سخت جملے استعمال کیے۔ یقین جانیے! اس سے آپ کی عزت میں بھی اضافہ نہیں ہو گا۔ وزارت ِعظمیٰ کے عہدے کو تکریم مل جائے گی۔ تحریک ِانصاف کو چار چاند لگ جائیں گے۔ پاکستان اور اہل ِپاکستان کے وقار میں اضافہ ہو جائے گا۔ وہ لوگ جو سیاسی کشیدگی پیدا کر کے دھاندلی کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں‘ وہ سلسلہ تھم جائے گا۔ عوام اس کو اچھا نہیں جانیں گے‘ یعنی یہ راستہ آپ کی کامیابی کی طرف جائے گا۔
پاکستان کی سیاست میں عمران خان اب ایک ایسا نام ہے ‘جو موروثی سیاست کو بتدریخ اس کے منطقی انجام کی طرف لے جا رہا ہے۔ 25 جولائی 2018ء کی شام کو موروثی سیاست کا سورج غروب نہیں ہوا‘ بلکہ زوال پذیر ہوا ہے۔ یہ طاقتیں اب اپنی بقا کے لیے کھڑی ہوں گی۔ ان کا مقابلہ اچھی حکمرانی سے بھی ممکن ہے۔ وہ حکمرانی‘ جس میں برداشت ہو اور جمہوری رویے ہوں ۔ ماضی کی دو بڑی جماعتوں کی موروثی سیاست کا ہم مختصر جائزہ لیں ‘تو پاکستان پیپلز پارٹی کا موروثی اثاثہ اس طرح ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ہونہار بیٹی کو اپنا سیاسی جانشین بنانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ وہ جیل میں گئے ‘تو ان کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ نے سیاسی جدوجہد کا پرچم تھام کر اپنے شوہر کی جانشینی حاصل کر لی۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ جدوجہد کے قابل ہوئیں‘ تو پہلے بیٹی اپنی ماں کے ساتھ شریک چیئر مین بنیں اور پھر اپنی صلاحیتوں کی بدولت چیئر مین بن گئیں۔
محترمہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو ان کے شوہر آصف علی زرداری ایک وصیت نامہ کی رو سے پارٹی کے چیئر مین بن گئے۔ اور اب ان کے لخت ِجگر بلاول چیئر مین بن چکے ہیں۔ یہ پارٹی اپنی دیگر خامیوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی خامی موروثیت کی وجہ سے حالیہ الیکشن میں تیسری پوزیشن پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ 2013ء میں اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ اب یہ ایک درجہ اور نیچے زوال کی جانب آ گئی ہے۔ سندھ میں اگرچہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ‘مگر عمران خان کی جدوجہد اس کے گراف کو نیچے لے آئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد میاں محمد نواز شریف صاحب دوسرے لیڈر ہیں ‘جو پچھلے 35 سال سے برسراقتدار ہیں۔ انہیں بھی جب پرویز مشرف کے ہاتھوں جیل جانا پڑا ‘تو ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز نے جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کا پرچم اٹھایا۔ یہ پرچم اب مریم نواز کے ہاتھ میں میاں صاحب خود دے چکے ہیں۔ چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف صاحب ہیں۔ وہ اپنا سیاسی وارث حمزہ شہباز کو بنا چکے ہیں۔ عمران خان نے مذکورہ پہلے درجے کی پارٹی کو موجودہ الیکشن میں دوسرے درجے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پنجاب میں یہ جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ مذکورہ حقائق کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان نے موروثیت کو زوال کے راستے پر ضرور ڈالا ہے‘ مگر خاتمہ ابھی دور کی بات ہے۔ آنے والے وقت میں عمران خان کے حکومت کرنے کا اندازہ بتلائے گا کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے؟ صاف گو اور سادہ عمران خان اعلیٰ اخلاق کی بلند چوٹی پر چڑھے گا‘ تو انشاء اللہ کامیاب ہوتا چلا جائے گا ۔