اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے اپنے دور کو ''نبوت و رحمت‘‘ کا دور قراردیا۔ مدینہ منورہ کا دس سالہ دور حکمرانی کا دور تھا‘ یعنی حضورﷺ کی حکمرانی ''نبوت و رحمت‘‘ کی حکمرانی تھی۔ اپنے بعد کے زمانے کو حضورﷺنے ''خلافت و رحمت‘‘ کے زمانے سے موسوم فرمایا۔ حضورﷺ نے اس زمانے کی مدت کا تعین بھی فرما دیا‘ یعنی خلافت و رحمت کا دور 30سال پر مشتمل ہو گا۔ ان تیس برسوں میں حضرت ابوبکرؓ‘ حضرت عمرؓ‘ حضرت عثمانؓ‘ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافتوں کا زمانہ تیس سال بنتا ہے۔ حضرت حسنؓ کا زمانہ چھ مہینے کا ہے۔ ان چھ مہینوں کو شامل کرکے 30سال پورے ہوتے ہیں‘ یوں خلافتِ راشدہ کا زمانہ پانچ خلفاء پر مشتمل ہے۔ حدیث کے علماء اور فقہاء نے حضرت حسنؓ کو پانچواں خلیفہ راشد کہا ہے۔ حضورﷺ نے اس زمانے کو ''خلافۃ علیٰ منہاج النبوّۃ‘‘ فرمایا ہے۔ منہاج کے معنی راستہ‘ شارع‘ سڑک‘ روڈ یا لائن کے ہیں‘ یعنی خلافت راشدہ نبوت کے راستے پر چلے گی۔ اس میں انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت ہو گی۔ اس رحمت کا ایک بنیادی اور نمایاں پہلو یہ بھی ہو گا کہ خلفائے راشدین میں سے کوئی خلیفہ بھی وراثتی طریقے سے خلیفہ نہ بنے گا ‘بلکہ وہ امت کے باہمی مشورے سے خلیفہ بنے گا۔ اس دور میں کتاب و سنت کا راج ہو گا یعنی یہ دور نبوت کی شارع پر چلنے والا ہو گا۔ اسی لئے اس دور کو ''راشدہ‘‘ یعنی سراسر بھلائی کہا گیا ہے۔
حضرت امیر معاویہؓ جو ایک لمبے عرصہ سے شام کے گورنر چلے آ رہے تھے ‘وہ قصاص حضرت عثمانؓ کے مسئلہ میں اجتہادی غلطی کر بیٹھے اور امیر المومنین حضرت علیؓ سے لڑائی کر بیٹھے۔ پھر جب حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ کو مسلمانوں نے امیر المومنین بنا لیا‘ تو حضرت حسنؓ نے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کی خاطر اپنا منصب حضرت معاویہؓ کے سپرد یہ کہہ کر کیا کہ اگر یہ منصب میرا حق تھا ‘تو میں نے اپنا حق جناب معاویہؓ کو دے دیا اور اگر ان کا حق تھا تو واپس لوٹا دیا۔ مذکورہ جملے کا آخری حصہ حضرت حسنؓ کی عظمت کو مزید چار چاند لگاتا ہے کہ وہ برحق امیر المومنین ہو کر بھی قربانی دیتے ہیں‘ تو اپنے اقتدار کی قربانی میں ''حق کو لوٹانے‘‘ کی بات کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی عاجزی اور اتحادِ امت کی خاطر ایک اور قربانی ہے۔ ایسی عظمت اور عزیمت حضورﷺ کے نواسے‘ حضرت علیؓ کے فرزند اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے جگر گوشے ہی کا خاصہ ہے کہ ایسی قربانی تاریخِ انسانی میں‘ حکمرانی کی ہسٹری میں مجھے نہیں مل سکی۔ کیسے ملتی کہ جب حضرت حسنؓ اپنے نانا جان کی گود میں تھے‘ تو حضورﷺ نے موجود صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا‘ میرا یہ بیٹا سردار ہے‘ یہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا (مسند احمد)۔ حضرت حسنؓ اب مدینہ میں رہنے لگ گئے اور جلد ہی اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے نانا محترم کے پاس چلے گئے۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ ان کو زہر دے دیا گیا تھا‘ یعنی ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کرتے ہیں اور محسن بھی وہ کہ حضور نبی کریمﷺ کے نواسے ہیں‘ محسن بھی وہ کہ جن کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''جس کسی نے حسن ؓو حسینؓ سے محبت کی‘ اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا (مسند احمد)۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت حسنؓ کی قربانی نے حضرت معاویہؓ کی خلافت کو جواز کا سرٹیفکیٹ یا سند عطا فرما دی تھی ۔ حضرت معاویہؓ خلیفہ راشد تو نہ تھے‘ مگر حضرت حسنؓ جیسے خلیفہ راشد کی سند کے ساتھ برحق خلیفہ ضرور تھے... ہوا یہ کہ حضرت معاویہؓ نے اپنی زندگی کے آخری دور میں اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا کر بیعت لے لی اور وہ باپ کے بعد حکمران بن گیا۔ خلافتِ راشدہ کی ریلوے لائن پر یا آہنی پٹڑی پر یہ ایک ایسا عمل تھا کہ جو اپنے ٹریک سے واضح طور پر ہٹ کر ایک دوسرے ٹریک پر چل پڑا تھا۔ اس کو خلافتِ راشدہ کے انتخابی نظام میں ڈی ٹریک ہونا بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں سے حضرت حسینؓ کا کردار شروع ہوتا ہے۔ سب کا دین ایک تھا‘ کتاب و سنت کا نظام تھا‘ مگر ظلم کا جابرانہ نظام شروع ہو گیا تھا اور مذکورہ نظام خلافتِ راشدہ کے انتخابی ٹریک سے ہٹ گیا تھا‘ خاندانی اور موروثی بن گیا تھا؛ چنانچہ حضرت حسینؓ مدینہ منورہ سے نکلے‘ بیوی بچوں اور خاندان کے لوگوں کو لے کر نکلے۔ وہ کوفہ جا رہے تھے‘ وہاں کے لوگوں نے بلوایا تھا۔ انہی لوگوں نے جنہوں نے امیر المومنین حضرت علیؓ اور امیر المومنین حضرت حسنؓ کا دور دیکھا تھا۔ حضرت حسینؓ نے حضرت مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا۔ راستے میں پتا چلا کہ ان کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کوفہ کے لوگ بھی اپنے گورنر عبیداللہ بن زیاد کا پریشر اور سختی برداشت نہ کر سکے اور پیچھے ہٹ گئے؛ چنانچہ حضرت حسینؓ نے فرات کے کنارے سے قدرے دور کربلا کے میدان سے واپسی کا ارادہ کیا‘ اس لئے کہ وہ اپنی ایک پرامن جدوجہد کے ذریعے سے جس ٹرین کو ڈی ٹریک ہونے سے بچانے کے لئے نکلے تھے‘ کوفہ والے بھی اس جابرانہ نظام کے سامنے کھڑے نہ ہو سکے تھے۔
حضرت حسین نواسۂ رسولﷺ کے ساتھ مزید ظلم یہ ہوا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یزید کی بیعت کا مطالبہ کر دیا۔ حضرت حسینؓ اس مطالبے کو کیسے پورا کر سکتے تھے کہ وہ تو نظام کو پٹڑی پر چڑھانے کی جدوجہد کے لئے نکلے تھے۔ وہ پرامن جدوجہد کے لئے نکلے تھے۔ اسی لئے تو خاندان کے 72افراد کو لے کر نکلے تھے۔ یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے ظلم و عدوان کا راستہ اختیار کیا اور حضرت حسینؓ اپنے خاندان کے کئی افراد کے ہمراہ مظلومانہ انداز سے شہید کر دیئے گئے۔ نواسۂ رسولؐ کا پاکیزہ خون جب امت کے بعض لوگوں نے بہا دیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک مسلمانوں کے درمیان وقفے وقفے سے تلوار چلتی چلی آ رہی ہے اور آج بھی چل رہی ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت کا حاصل یہ ہے کہ نظامِ حکمرانی امت کے مشورے سے چلنا چاہئے‘ جو لوگ حق کی آواز کو لے کر اٹھیں‘ حکمران جبر کے بجائے نرمی کے ساتھ حق کا راستہ اختیار کریں۔ اس لئے کہ جبر و ظلم اور خونریزی سے استحکام نہیں ملے گا ‘بلکہ امت کا شیرازہ بکھرے گا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں حسنی کردار کی بھی ضرورت ہے اور حسینی کردار کی بھی ضرورت ہے‘ دونوں کرداروں سے ہمیں امت کو متحد کرنا اور اس کو زندگی دینا ہے۔
اللہ کے رسولﷺ کی چچی جان‘ حضرت عباسؓ کی اہلیہ محترمہ ام الفضل لبابۃ الکبریٰؓ کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے ننھے حسینؓ کو حضورﷺ کی گود میں رکھ دیا۔ اب حضورﷺ کی توجہ مجھ سے ہٹ گئی اور حسینؓ کی طرف ہو گئی۔ اب کیا دیکھتی ہوں کہ حضورﷺکی دونوں آنکھیں نم ہیں‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان‘ آپﷺ کو کیا ہوا؟ فرمایا: میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے (حسینؓ) کو قتل کر دے گی۔ یہ سن کر میں نے کہا: اس (حسین) کو؟ آپؐ نے فرمایا:ہا ںمیرے پاس تو جناب جبرائیل ؑاس کی تربت کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے ہیں (مستدرک حاکم: الصحیحۃ للالبانی:821)
قارئین کرام! آیئے‘ سوچیں‘ حضورﷺ نے فرمایا! میری امت یہ ظلم کرے گی‘ یعنی میرے حسینؓ پر ظلم کر کے بھلا کب باز آئے گی‘ آپس میں قتل کرتی ہی رہے گی۔ آیئے! ہم امت کے اس خوش قسمت حصے میں اپنا نام لکھوائیں‘ جو امت میں قتل اور خونریزی کو روکنے والے ہیں۔ اتحاد امت کی دعوت دینے والے ہیں۔ یا اللہ! ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرما‘ حضورﷺ کے نواسوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی محبت سے دلوں کو سرور عطا فرما۔ ہمارے جو جوان فوت ہوئے ہیں‘ ان کو جنت کے دونوں سرداروں کی سرداری میں فردوس عطا فرما۔ (آمین)