جب انسان طاقت اور قوت حاصل کرتا ہے اور اس طاقت کے تکبر میں ظلم کا بازار گرم کرتا ہے‘ تو بعض اوقات قوت کے نشے میں اس قدر ظالم بن جاتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا جائے‘ اللہ کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی جائے تو اس کا تکبر اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اللہ کو ماننے کے باوجود اللہ کی موجودگی کا انکار کر دیتا ہے۔ اس کا مظاہرہ مکہ مکرمہ میں اس وقت دیکھنے میں آیا‘ جب بنوبکر کے ایک مشہور عربی قبیلے نے خزاعہ قبیلے پر حملہ کر دیا۔ بنوبکر قبیلہ مکہ کے مشرکین کا حلیف اور طرفدار تھا‘ جبکہ خزاعہ قبیلہ سرکارِ مدینہ حضرت محمد کریمؐ کا حلیف اور طرفدار تھا۔ بنوبکر قبیلے کی ایک اہم ترین شاخ‘ بنو نفاثہ کے سردار نوفل نے ابوسفیان سے بالا بالا قریشی سرداروں کو ساتھ ملایا اور خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ خزاعہ کے لوگ چونکہ بے خبری میں اچانک حملے کی زد میں تھے۔ صلح حدیبیہ کی وجہ سے لڑائی کا خیال و خواب نہ رکھتے تھے؛ چنانچہ وہ قتل ہوتے گئے اور بھاگتے بھاگتے حرم کی حدود میں جا داخل ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ حرم میں جنگ اور لڑائی حرام ہے‘ یہاں تو کسی جانور کا شکار بھی جائز نہیں۔ جاندار تو رہے‘ ایک طرف درخت کاٹنا بھی جائز نہیں‘ لہٰذا ہمیں کیسے کاٹیں گے ‘مگر نوفل کا نفاثہ قبیلہ ایسا ظالم ثابت ہوا کہ حرم مکی کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا اور ظلم جاری رکھا۔ نفاثہ قبیلے کے بعض لوگوں نے اپنے سردار نوفل کو توجہ دلائی۔ نوفل! اب تم حرم کی حد میں ہو‘ تمہیں تمہارے رب کا واسطہ ''اِلٰھَک‘ اِلٰھَک‘‘ نوفل نے اس پر انتہائی تکبر کے ساتھ جواب دیا ''لَااِلٰہَ لِی اَلْیَوْمَ‘‘ آج میرا کوئی رب نہیں۔ اے میرے قبیلے کے لوگو! جانتے نہیں ہو‘ تم وہ لوگ ہو جو حرم میں لوگوں کا مال چوری کر لیا کرتے تھے۔ کیا تم اپنے دشمن سے بدلہ نہیں لے سکتے۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس نہ جائے جب تک مجھ سے اجازت نہ لے لے۔ تم میں سے کوئی شخص آج اپنا انتقام اگلے دن پر نہ ڈالے۔‘‘ (المغازی‘ واقدی)
بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن سالم 40بندوں کے ہمراہ مدینہ منورہ پہنچا‘ اللہ کے رسول سرکار مدینہ حضرت محمد کریمؐ کو اپنی مظلومیت سے آگاہ کیا۔ حضورؐ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں ہر اس چیز سے تمہارا دفاع کروں گا‘ جس سے میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا دفاع کرتا ہوں۔ (مصنف عبدالرزاق)۔ حضور نبی کریمؐ مظلوموں کی مدد کے لئے یہاں تک گئے کہ آپؐ نے فرمایا ''اگر میں خزاعہ (مظلوم لوگوں) کی مدد نہ کروں تو اللہ تعالیٰ بھی میری مدد نہ کریں۔‘‘ (مسند ابویعلیٰ 343-7)؛ چنانچہ حضورؐ نے حضرت ضمرہؓ کو سفیر بنا کر مکہ روانہ کیا اور اہل مکہ کو اختیار دیا کہ وہ تین چیزوں میں سے ایک کو اختیار کر لیں۔ (1)بنو خزاعہ کے مقتول لوگوں کی دیت ادا کریں۔ (2)یہ نہ کریں تو بنو نفاثہ سے اپنا تعلق ختم کر لیں (پھر ہم ان سے نبٹ لیں گے)۔ (3)یہ بھی نہ کریں تو پھر ہماری طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ مکہ کے لوگوں نے دونوں باتیں تسلیم نہ کیں؛ چنانچہ حضور سرکارِ مدینہ نے دس ہزار کا لشکر تیار کیا اور امن کے ساتھ مکہ فتح کر لیا۔ بنو خزاعہ کو بدلہ دلایا اور فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرم میں بھی تلوار چلانا ایک دن کے ایک حصہ میں جائز قرار دے دیا ہے اور اسی ٹائم میں بنو نفاثہ کے قاتل ظالموں سے بنو خزاعہ کے لوگوں نے بدلہ لیا اور پھر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر حضرت بلالؓ نے اللہ اکبر کہہ کر اذان دی تو متکبر ظالموں کا تکبر مٹ گیا اور انہیں پتا چل گیا کہ نوفل نے جو کہا تھا کہ آج اللہ نہیں ہے‘ اس اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنے پیارے مصطفیؐ کے ذریعہ بتایا کہ اللہ تو موجود ہے۔ بس ظالموں کو ذرا سی مہلت ملتی ہے ‘مگر اللہ کے دربار میں دیر ہو سکتی ہے‘ اندھیر نہیں۔
روس کا نام (USSR) ہوا کرتا تھا‘ اسے سوویت یونین کہا جاتا تھا‘ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا‘ مگر اس نے کمیونزم یا اشتراکیت کا نظام اپنایا‘ جس میں اللہ کے وجود کی گنجائش کا خاتمہ کر دیا۔ لینن اور سٹالن جیسے ظالموں نے کہا :ہم نے ''ٹھوکر مار کر مذہبی جنونیوں کے خدا کو ''یو ایس ایس آر‘‘ کی سرحدوں سے باہر نکال دیا ہے‘ پھر وہ وقت آیا کہ 1992ء میں ''یو ایس ایس آر‘‘ کا وجود ختم ہو گیا اور نئے وجود کے ساتھ روس سامنے آیا۔ روس‘ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ سامنے آیا۔ آج روس کے صدر ولادی میر پوٹن ہیں۔ امریکہ کے بعد دوسری سپرپاور ہے‘ مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے وجود کو ماننے کے ساتھ دوسری سپرپاور ہے۔ تھوڑا عرصہ قبل یوں ہوا کہ ماسکو جو روس کا دارالحکومت ہے‘ جسے 1992ء میں‘ میں خود دیکھ چکا ہوں۔ وہاں کا سب سے بڑا گرجا قابل فروخت ہوا تو مسلمانوں نے خرید لیا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس میں حصہ ڈالا‘ پھر اسے مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے ایک گنبد پرکلمہ توحید لکھا گیا۔ ایک گنبد پر آیت الکرسی لکھی گئی۔ اندرونی دیواروں پر قرآنی آیات کندہ کی گئیں‘ پھر جو تقریب ہوئی اس میں صدر پوٹن اور صدر اردوان اکٹھے نئی مسجد میں داخل ہوئے اور افتتاح کیا۔ یو ایس ایس آر سابق کے سابق اور آخری صدر گورباچوف آج بھی زندہ ہیں۔ میں کہتا ہوں میرے اللہ نے اسے لمبی زندگی اسی لئے دی ہے کہ وہ دیکھیں اور سارا جہان دیکھے کہ اللہ کی موجودگی کا انکار کرنے والا ''یو ایس ایس آر‘‘ نہیں رہا اور جہاں اللہ تعالیٰ کا نام گونج رہا ہے‘ وہ آج مسجدیں بھی موجود ہیں اور گرجے بھی موجود ہیں۔ پوٹن اور اردوان کا مل کر مسجد کا افتتاح کرنا اسی بات کا اعلان تھا۔ مؤذن نے جب ان کی موجودگی میں اللہ اکبر سے اذان کا آغاز کیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا اعلان تھا کہ وہ ہر جگہ اور ہر وقت اپنے علم اور طاقت و قوت کے ساتھ موجود ہے۔
لوگو! ظالم لوگ جب طاقت حاصل کر کے ظلم کرتے ہیں‘ تو وہ زبان سے نوفل اور لینن کی طرح اعلان نہ بھی کریں‘ ظالمانہ کردار سے وہ عملی طور پر بہرحال اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ نریندر مودی جس نے احمد آباد میں دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلایا‘ اب وہ پورے ہندوستان خاص طور پر کشمیر میں ظلم کا طوفان چلائے ہوئے ہے۔ عبدالمنان وانی ایک ایسا نام ہے کہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہو کر اس ظلم کے خلاف نکلا اور شہید ہو گیا۔ پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز ظلم کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ طلبائ‘ طالبات‘ خواتین اور بچے الغرض! وادی کے ایک کروڑ باشندے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات عام ہیں۔ بی جے پی کے لوگ نوفل کی طرح اللہ کو مانتے ہیں‘ وہ رام اور رادھا کے بت بنا کر بھی پوجتے ہیں اور ان سب دیوتائوں کے بڑے کو بھگوان کہہ کر بھی مانتے ہیں۔ ''اوم‘‘ نام کے بھگوان کی وہ مورتی نہیں بناتے۔ کہتے ہیں اصل مالک اور مختارِ کل وہی ہے۔ جی ہاں! مکہ کے لوگوں کی طرح وہ ایک خالق کو بھی مانتے ہیں ‘مگر طاقت اور اقتدار کے نشے میں کہ دنیا ان کے ساتھ ہے‘ وہ انڈیا کے کمزوروں اور کشمیر کے مظلوموں پر ظلم کئے چلے جا رہے ہیں اور عملی طور پر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ظلم کی حدود میں کسی بھگوان اور ''اوم‘‘ کو نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں ایسے لوگوں کو مکہ کی فتح کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کو بابری مسجد کے سلسلہ میں اپنا شرمناک کردار بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ دن آ سکتے ہیں کہ جس طرح ماسکو میں مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اسی طرح انڈیا میں بھی ایسا دن آ سکتا ہے‘ مگر تب مودی نہ ہو گا کوئی اور ہو گا۔ مولا کریم فرماتے ہیں! ''اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے‘ تو خانقاہیں اور گرجے اور معبد (یہودی عبادت گاہیں) اور مسجدیں کہ جن میں اللہ تعالیٰ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کرڈالی جائیں۔‘‘ (الحج:40)
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ ہر دین اور اس کے عبادت خانوں کو زندہ اور قائم رہنے کا حق ہے‘ مگر بی جے پی اپنے علاوہ کسی کو زندہ رہنے کا حق دینے کو تیار نہیں‘ لہٰذا ہم اہل پاکستان کا فرض ہے کہ عالمی برادری کو انڈیا‘ بی جے پی اور مودی کا اصل چہرہ دکھائیں‘ تاکہ مظلوموں کو ان کا حق مل سکے اور ظالم لوگ اپنے انجام کو پہنچیں۔