امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی ''صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عروہ بن زبیرؓ کے حوالے سے ایک روایت لائے ہیں کہ ثُوَیبہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اپنی اس لونڈی کو آزاد کر دیا تھا۔ ثُوَیبہ نے حضور نبی کریمؐ کو دودھ پلایا تھا۔ ہوا یوں کہ جب ابولہب فوت ہوگیا ‘تو اس کے خاندان میں سے ایک شخص نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں گرفتار ہے۔ خاندان کے ایک شخص نے اس سے پوچھا‘ تیرے ساتھ آخرت میں کیا ہوا؟ ابولہب کہنے لگا :جس دن سے میں تم لوگوں سے جدا ہوا ہوں‘ مجھے کبھی سکون نہیں ملا۔ ہاں سکون ملا ہے‘ تو اس قدر کہ مجھے اس انگلی سے پانی پلایا جاتا ہے کہ جس سے اشارہ کر کے میں نے ثُوَیبہ کو آزاد کیا تھا۔ (بخاری: 5101)
امام سہیلیؒ نے لکھا ہے کہ حضورؐ پیدا ہوئے‘ تو ثُوَیبہ نے ابولہب کو خوش خبری دی کہ (تمہارے بھائی عبداللہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے) تو ابولہب نے اسے اسی وقت آزاد کر دیا۔ (الروض الانف: 99\\3)
قارئین کرام! مذکورہ خواب دیکھنے والے کون تھے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے ابولہب کی موت کے ایک سال بعد یہ خواب دیکھا تھا۔ (فتح الباری: 181\\19) حضرت عباسؓ اور ابولہب دونوں سگے بھائی تھے۔ دونوں حضرت محمد کریمؐ کے سگے چچا تھے۔ ابولہب شدید ترین دشمن تھا‘ تو حضرت عباسؓ تب تک اسلام تو نہ لائے تھے‘ مگر حضرت محمد کریمؐ سے دلی محبت رکھتے تھے اور اسلام کو سچا دین مانتے تھے؛ چنانچہ میں یہی سمجھا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ خواب اپنی صحیح بخاری میں لائے ہیں‘ تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ خاندان کے فرد ‘یعنی حضرت عباسؓ جو مستقبل میں مسلمان ہونے والے تھے۔ اللہ نے انہیں ایک سچا خواب دکھلا دیا۔ امام سہیلی رحمہ اللہ اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی معرکۃ الآرا کتابوں میں تذکرہ کیا‘ تو مثبت انداز میں تذکرہ کر کے اپنے اسی مؤقف کا اظہار کیا ‘جو امام بخاری کا مؤقف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف مذکورہ خواب کو سچا جانتے تھے‘ تبھی اپنی کتابوں میں مثبت انداز سے لائے۔ میں کہتا ہوں‘ جہاں رب کریم کے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمؐ کی شان عالیشان بن رہی ہو ‘وہاں ہمیں مثبت انداز سے ہی آگے بڑھنا چاہئے‘ اس لئے کہ حضورؐ کی محبت اور ادب کا یہی تقاضا مجھے معلوم ہوتا ہے۔ آج پھر ایک ایسا ہی تقاضا میرے سامنے آیا ہے۔
یہ تقاضا یورپی یونین کی ایک عدالت کے فیصلے کا ہے۔ اس فیصلے کا تعلق میرے حضورؐ کی حرمت کے تحفظ کے حوالے سے ہے‘ میں سوچ رہا تھا کہ اس پر بہت سارے اہل قلم کے ہاتھ اپنے قلم کو تھامیں گے‘ مگر مجھے جناب خورشید ندیم کے قلم کے علاوہ کوئی قلم چلتا ہوا دکھائی نہ دیا۔ یورپ کے بعض ملکوں سے میرے حضورؐ کی توہین کا آغاز ہوا۔ ہم سب لوگ سراپا احتجاج ہوئے۔ میں نے ان توہین آمیزیوں کا جواب دینے کے لئے سیرت پر پانچ کتابیں لکھیں۔ بہت سارے مضامین اور کالم لکھے۔ انگریزی ترجمے کروا کر دنیا بھر کے مؤثر لوگوں کو بھیجے۔ تحریک حرمتِ رسولؐ کے عنوان سے پرُامن احتجاج کے سلسلے سالوں تک چلائے۔ بعض حکمرانوں‘ اہل علم اور عوام نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اسی کردار کا یہ نتیجہ ہے کہ یورپ میں اب یوٹرن لینے کا آغاز ہوا ہے۔ یورپ کے ایک اہم ملک آسٹریا میں ایک خاتون نے توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا۔ آسٹریا کے دارالحکومت ''ویانا‘‘ کی عدالت میں اس پر مقدمہ چلا؛ چنانچہ فروری 2011ء میں اسے مجرم قرار دیا گیا اور جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمے کا سارا خرچہ بھی اس پر ڈال دیا گیا۔ یہ فیصلہ اپیل کورٹ میں گیا تو وہاں بھی اسے برقرار رکھا گیا۔ 2013ء میں یہ مقدمہ آسٹریا کی سپریم کورٹ میں گیا ‘تو اس نے بھی مذکورہ فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مقدمے کو ختم کر دیا‘ یعنی حتمی فیصلہ یہی قرار پایا کہ توہین آمیزی کی سزا درست ہے۔ اس کے بعد مذکورہ گستاخ خاتون اپنے مقدمے کو یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق میں لے گئی۔ یہ عدالت اپنے ممبر ممالک کے شہریوں کے ایسے مقدمات سنتی ہے ‘جن میں انسانی حقوق کی پامالی ہو۔ مذکورہ عدالت انسانی حقوق کے تحت فیصلے سناتی ہے۔ اس پر 47ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔ یہ عدالت 47ججوں پر مشتمل ہے۔ ان ججوں کے نام یورپی یونین کے ممبر ممالک ہی تجویز کرتے ہیں۔
آسٹریا سے عدالتی جنگ ہارنے والی گستاخ خاتون کا نام ''ای ایس‘‘ لیا جاتا ہے۔ اس خاتون کے مقدمے کو سننے کے لئے ''یورپی یونین عدالت برائے انسانی حقوق‘‘ کے سات ججوں کا پینل بنایا گیا۔ 2018ء جب اپنے اختتام کی طرف جا رہاہے‘ تو توہین آمیزی کے مذموم سلسلے کو ختم کرنے کے لئے ساتوں ججوں نے متفقہ فیصلہ سنایا۔ انہوں نے آسٹریا کی تمام عدالتوں کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس سے مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ جہاں رائے کے اظہار کی آزادی ہے‘ وہاں حدود و قیود بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرائض اور حقوق بھی ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اپنی جگہ پر‘ مگر اس کی آڑ میں دوسروں کے جذبات زخمی نہیں کئے جا سکتے۔ عدالت کے ساتوں ججوں نے ''ای ایس خاتون‘‘ کے خیالات کو حدود سے تجاوز قراردیا۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ پر حملہ قرار دیا اور کہا: اس سے تعصب کو ہوا ملے گی اور فساد پیدا ہو گا۔
قارئین کرام! آپ نے یورپی یونین کی عدالت کے فیصلے کے اہم جملے ملاحظہ فرما لئے۔ میں کہتا ہوں 47ملکوں کے ایوان میں‘ یورپی یونین کی عدالت سات رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے نے آخرکار حضرت محمد کریمؐ کی حرمت کے تحفظ کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں اس اعلان کو دنیا بھر میں پھیلانا چاہئے۔ اس طرح کہ جس طرح ابولہب جیسے دشمن ِ اسلام کی اچھی ادا کو امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں لائے۔ امام سہیلی رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الروض الانف‘‘ میں لائے۔ امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی شرح صحیح بخاری ''فتح الباری‘‘ میں لائے۔ ہمیں آج اپنے عظیم آخری رسولؐ کی حرمت کے تحفظ کی بات کو ٹی وی چینلز پر لانا ہو گا۔ کالم لکھنے ہوں گے۔ اخبارات میں تذکرے کرنا ہوں گے۔ تقاریر کا موضوع بنانا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کرنا ہو گا کہ آخرکار دنیا کو ماننا پڑا کہ گستاخی کی جسارت ہو گی‘ توہین ِ رسالت ہو گی‘ تو انسانیت کا امن و سکون غارت ہو گا۔ فساد بپا ہو گا اور وہی ذمہ دار ہوں گے‘ جو تمام انسانوں کے لئے رحمت بن کر آنے والی ہستی کے مقام کے ساتھ ظلم کریں گے۔
حضور رحمۃ للعالمینؐ کہ جن کی زندگی کی اللہ نے ''لعمرک‘‘ کہہ کر قسم اٹھائی ہے۔ اس مبارک زندگی کی توہین آمیزی پر آج یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے جو تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے‘ ہم اس فیصلے پر معزز جج حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ فیصلہ کر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر ہی احسان نہیں کیا کہ جو حضورؐ کی حرمت پر سب کچھ نثار کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ‘بلکہ اس تمام انسانی برادری پر احسان کیا ہے کہ جو اگرچہ میرے حضورؐ کا کلمہ نہیں پڑھتے‘ مگر تکریم انسانیت پر ایمان رکھتے ہوئے‘ توہین انبیاء پر دکھی ہوتے ہیں۔ عدالت نے فسادیوں کو ناکام اور امن کے علمبرداروں کو کامران کیا ہے۔ آخر پر یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر ابولہب جیسے دشمن کو مولا کریم نے ریلیف دے دیا ہے‘ تو یورپی یونین کے ججوں کو بھی رب کریم ضرور ریلیف دیں گے (انشاء اللہ) کہ جنہوں نے رب کریم کے محبوب اور پیارے دوست حضرت محمد کریمؐ کی حرمت کا دفاع کیا ہے۔ دنیا میں حضورؐ کا کلمہ پڑھنے کی نعمت مل جائے‘ تواس سے بڑھ کر انعام کوئی نہیں۔ اس نعمت سے محرومی رہے تو آخرت میں ابولہب سے زیادہ ریلیف کی توقع کی جا سکتی ہے۔ باقی اللہ مہربان اپنے بندوں سے خوب واقف ہیں۔
جہاں رب کریم کے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمؐ کی شان عالیشان بن رہی ہو ‘وہاں ہمیں مثبت انداز سے ہی آگے بڑھنا چاہئے‘ اس لئے کہ حضورؐ کی محبت اور ادب کا یہی تقاضا مجھے معلوم ہوتا ہے۔ آج پھر ایک ایسا ہی تقاضا میرے سامنے آیا ہے۔ دنیا میں حضورؐ کا کلمہ پڑھنے کی نعمت
مل جائے‘ تواس سے بڑھ کر انعام کوئی نہیں۔