آج سے ٹھیک49سال قبل بابا جی گورونانک کو پیدا ہوئے‘ پانچ سو سال پورے ہوئے تھے۔ میں اس وقت پرائمری سکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سکھ ننکانہ صاحب آئے تھے۔ پانچ سو سالہ پیدائشی جشن کو تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا تھا۔ پرائمری کے بعد گورنمنٹ گورونانک ہائی سکول میں داخل ہو گیا۔ انگریز کے دور میں سکھ طالب علم یہاں سے میٹرک کر چکے تھے وہ ہمارے سکول میں آیا کرتے تھے۔ 1947ء میں ننکانہ صاحب کو چھوڑنے والے کتنے ہی بزرگ سکھ اپنی بیویوں کے ساتھ ہماری کلاس میں آ جایا کرتے تھے۔ ہمارے استاد ان کے لئے کرسیاں منگوا لیا کرتے تھے‘ پھر پاکستان اور ہندوستان کے بیتے دنوں کی یادیں اور موجودہ تعلقات اور حالات پہ گفتگو ہوا کرتی تھی۔ میں اپنی کلاس کا مانیٹر ہونے کی وجہ سے ان کی سیوا بھی کرتا اور گفتگو بھی غور سے سنتا تھا۔ اپنے ٹیچر سے اجازت پا کر کوئی سوال بھی کر دیتا تھا۔ متواتر پانچ سال‘ یعنی یہاں سے میٹرک پاس کرنے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بعض اوقات ہم طلبہ گوردوارہ جنم استھان میں بھی چلے جاتے۔ بابا جی گورونانک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ ننکانہ صاحب میں ایک درجن کے قریب گوردوارے ہیں۔ جہاں بابا جی بھینسیں چرایا کرتے تھے۔ اس کا نام ''مال جی‘‘ ہے اور جہاں بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ‘اس کا نام ''بال لیلا گوردوارہ‘‘ ہے‘ یعنی سکھ مذہب کے بانی بابا جی گورونانک کی پیدائش‘ بچپن اور جوانی کی تمام یادگاریں ننکانہ صاحب سے وابستہ ہیں۔ ننکانہ کا مطلب ہی ''نانک کا آنا‘‘ ہے یعنی یہ وہ شہر ہے جہاں بابا نانک اس دنیا میں آئے تھے۔ اس شہر سے بڑھ کر سکھ مذہب کے ماننے والوں کا کوئی مقدس مقام دنیا میں نہیں ہے۔ سکھ مذہب کا دوسرا مقدس ترین مقام کرتارپور ہے۔ نارووال اور شکر گڑھ کے وسط میں سڑک سے بائیں جانب کوئی دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر ''کرتارپور‘‘ ہے۔ انڈیا کا بارڈر دریائے راوی سے پار کوئی چار کلومیٹر کے قریب ہے۔ میں یہاں دوبار جا چکا ہوں۔ سکھوں کے مذہبی رہنما‘ جنہیں گیانی کہا جاتا ہے ‘انہوں نے مجھے گوردوارے کے تمام مقامات دکھلائے۔ خدمت بھی خوب کی۔ بابا جی گورونانک نے اس مقام پر زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے اور یہیں انہوں نے دنیا کو الوداع کہا۔ ان کا وجود اسی کرتارپور کے صحن میں مدفون ہے۔ مجھے گیانی صاحب نے بتلایا کہ ہمارے مذہب میں بابا جی کی قبر کو سجدہ کرنا منع ہے۔ ہم صرف ایک رب کو سجدہ کرتے ہیں۔ بابا جی نے ہمیں توحید کا سبق پڑھایا ہے۔ انسانیت کے ساتھ محبت اور پیار کا درس دیا ہے۔
سکھ مذہب کے دیگر اہم مقدس مقامات بھی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہیں۔ ان میں گوجرانوالہ کا قریبی قصبہ ایمن آباد۔ حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب‘ شیخوپورہ کے نواح میں ''سچا سودا‘‘ وغیرہ ہیں۔ سکھوں کی سیاسی تاریخ دیکھی جائے‘ تو اس میں اب تک پہلی اور آخری حکمرانی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ہے۔ رنجیت سنگھ کی حکمرانی کا دارالحکومت لاہور تھا۔ رنجیت سنگھ کی مڑھی بھی شاہی قلعہ کے ساتھ حضوری باغ کے پہلو میں ہے‘ یعنی مذہبی اور سیاسی اعتبار سے سکھوں کے دل پاکستانی پنجاب میں اٹکے ہوئے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں‘ جن کی بنیاد پر حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ نے آج سے 70سال قبل سکھ لیڈروں سے کہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اس سے پنجاب تقسیم نہیں ہو گا۔ تمہاری مذہبی اور سیاسی تاریخ تمہارے پاس رہے گی۔ تمہیں تمہارے پورے حقوق ملیں گے۔ ہندو بنیا چالباز تھا‘ اس نے سکھوں کو یہ پٹی پڑھائی تم ہمارے ساتھ چلو‘ ہم دریائے چناب کو سرحد بنائیں گے۔ یوں چناب سے مشرق کی طرف کا سارا علاقہ جس میں لاہور‘ شیخوپورہ‘ ننکانہ‘ گوجرانوالہ کے علاقے ہیں وہ ہندوستان میں شامل ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ماسٹر تارا سنگھ نے لاہور کی پنجاب اسمبلی کے سامنے کرپان اور تلوار لہرا دی‘ جس سے فسادات شروع ہو گئے۔ بعد میں سکھوں کو فوراً ہی محسوس ہو گیا کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں۔ قائداعظم کی بات نہ مان کر اپنے گورونانک کے دیس سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور سیاسی تاریخ کے مقامات سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں امرتسر کا گولڈن ٹیمپل اہمیت کا حامل ہے ‘مگر اس کا تعلق بابا گورونانک سے نہیں ہے‘ بلکہ بعد کے گورو سے ہے۔ اب ہندوستان میں سب سے اہم مقام یہی رہ گیا ہے۔ یہ سوچ سوچ کر سکھ پریشان ہو جایا کرتے تھے‘ مگر اب پریشانی کے حل کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ پاکستان میں آزادانہ درشن کے لئے آیا کریں۔ پچھلے ستر سال میں سکھوں نے تجربہ یہ کیا کہ ہم نے قائداعظم کی بات کو نہ مانا اس کے باوجود اہل پاکستان کا رویہ ہمدردانہ اور دوستانہ ہے‘ جبکہ انڈیا کی طرف سے پاکستان میں درشن کی راہ میں رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔
برصغیر کی تاریخ میں سب سے بڑا قتل عام پنجاب کی سرزمین میں پنجابی سکھوں اور پنجابی مسلمانوں کے درمیان ہوا۔ مشرقی پنجاب کے پنجابی مسلمان تو پاکستان میں ہجرت کر کے آئے اور سکون سے رہنے لگ گئے جو سکھ اور ہندو یہاں رہ گئے وہ بھی آج تک امن اور سکون میں ہیں اور اچھی حالت میں ہی رہیں گے (انشاء اللہ)‘ مگر جو سکھ مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب میں گئے۔ نہرو حکومت ان کے بارے میں پہلے ہی پلان بنائے بیٹھی تھی۔ ان کی ریل گاڑیوں کا رخ مشرقی پنجاب کی بجائے ہندوستان کے دیگر علاقوں میں کر دیا گیا‘ یعنی سکھوں کی عددی قوت کو مشرقی پنجاب میں مجتمع نہ ہونے دیا گیا۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ سکھ مذہب کو ہندو دھرم کی ایک شاخ کی حیثیت دے دی گئی۔ الگ دھرم کی پہچان ختم کر دی گئی۔ تیسرا یہ کیا گیا کہ مشرقی پنجاب کو تین صوبوں ہریانہ و ہماچل پردیش میں تقسیم کر دیا گیا‘ دو صوبوں میں سکھوں کی اکثریت ختم کر دی گئی‘ صرف پنجاب کے نام سے تیسرے حصے میں اب سکھ اکثریت میں ہیں۔ ایسے اقدامات کی وجہ سے سکھوں نے خالصتان کے نام سے تحریک کھڑی کی تو اسے بھی سختی سے کچل دیا گیا۔ اب سکھ سوچتے ہیں ان کے بڑے اگر قائداعظم ؒکی بات مان لیتے تو کشمیر بھی محکوم نہ رہتا۔ جی ہاں! یہی تو منصوبہ تھا کہ پنجاب کے سکھوں کو اپنے ساتھ ملا کر پنجاب کو تقسیم کیا جائے اور ساتھ ہی کشمیر کو بھی ہڑپ کر لیا جائے۔ اب کرتارپور میں کھڑے ہو کر جناب وزیراعظم عمران خان صاحب نے کشمیر کی بھی بات کی ہے تو انڈیا کے وارے میں نہیں آئی۔ وہاں ظلم کا طوفان چل رہا ہے ‘جس کی زد میں ماہ دو ماہ کی بچیاں اور بچے بھی پیلٹ گنوں سے نابینا ہو رہے ہیں۔
انڈیا نے حال ہی میں 6ارب ڈالر کی بہت بڑی رقم سے روس کا مہلک ترین میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اگلے ڈیڑھ دو سال میں یہ سسٹم اسے مل جائے گا۔ یہ سسٹم جدید ترین اور مہلک ترین سسٹم ہے جو کہ امریکا کے پاس بھی مذکورہ صلاحیت کے ساتھ نہیں۔ چین کے پاس ہے‘ مگر کم تر صلاحیت کے ساتھ۔ اب لامحالہ پاکستان کو بھی اپنے تحفظ کے لئے اسی طرح آگے بڑھنا ہو گا جس طرح اس نے انڈیا کے مقابلے میںایٹمی برتری حاصل کی تھی۔ دوبارہ اسے کثیر سرمایہ خرچ کر کے مہلک سسٹم کا توڑ کرنا ہو گا اور پاکستان اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ کر چکا ہے۔
جی ہاں! انڈیا کی آبادی بھی غربت میں پِس رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ انڈیا کو سمجھا رہے ہیں کہ ایسے مقابلوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ایٹمی پاور دونوں ملک ہیں ‘لہٰذا جنگ کو بھول جائیں‘ اپنے وسائل عوام کی خوشحالی پر خرچ کریں۔ کشمیر کا مسئلہ بھی گفتگو کے ساتھ حل کریں۔ نوجوت سنگھ سدھو جیسے انڈین پنجاب کے وزیر کے خیالات خوش آئند کہ دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور کوریڈور سے امن آئے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ کوریڈور بھی امن کی طرف جائے اور ساتھ ساتھ اہل کشمیر کے لئے ان کے حق آزادی کا کوریڈور بھی اوپن کیا جائے۔ انڈیا آگے بڑھے مسئلہ کشمیر حل کر کے سی پیک سے بھی فائدہ اٹھائے۔ اس کا وفد ماسکو میں افغان امن کانفرنس میں بھی موجود تھا۔ یہی امن سری نگر سے بھی دور نہیں رہنا چاہئے۔ کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جائے‘ تو پاکستان ہندوستان ہی نہیں پورا خطہ خوشحالی میں یورپ جیسا ہو جائے گا۔
کشمیر کا مسئلہ بھی گفتگو کے ساتھ حل کریں۔ نوجوت سنگھ سدھو جیسے انڈین پنجاب کے وزیر کے خیالات خوش آئند کہ دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور کوریڈور سے امن آئے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ کوریڈور بھی امن کی طرف جائے اور ساتھ ساتھ اہل کشمیر کے لئے ان کے حق آزادی کا کوریڈور بھی اوپن کیا جائے۔