بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعصب لیڈروں نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ ہم ابوجہل کے وارث ہیں‘ وہ بھی لات منات‘ عزّیٰ اور ہُبل جیسے بزرگوں کی مورتیوں کی پوجا کرتے تھے اور ہم بھی اپنے رام‘ لکشمن اور شیواجی جیسے بزرگوں کی مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے قائداعظم حضرت محمد علی جناح رحمہ اللہ نے واضح کر دیا تھا کہ ہم پاکستان میں مدینے کی ریاست بنانے کا تجربہ کریں گے۔ موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی حضرت قائداعظم کی بات کو دہرایا کہ ہم پاکستان کو مدینے کی ریاست بنائیں گے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کو جب مکہ چھوڑنا پڑا تو آپؐ نے مدینہ منورہ آ کر اسلامی ریاست قائم کی۔ مکہ میں ابوجہل جیسے حکمرانوں نے مدینہ کی ریاست کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے ختم کرنے کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے۔ وہ امن کی بجائے جنگوں کے راستے پر چل نکلے۔ وہ ابوجہل کی قیادت میں بدر کے میدان میں آ کر لڑے۔ مدینہ منورہ سے بدر کا فاصلہ 128 کلومیٹر ہے‘ جبکہ مکہ سے بدر کا زمینی فاصلہ کوئی چار سوکلومیٹر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ابوجہل اپنی ایک ہزار سپاہ لے کر مدینے کی ریاست پر چڑھائی کرنے آیا تھا‘ جبکہ حضرت محمد کریمؐ اپنی ریاست مدینہ کے تحفظ کے لئے مدینہ سے 128 کلومیٹر باہر نکلے ‘تاکہ مدینہ محفوظ رہے۔ قارئین کرام! یہی کچھ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہوا کہ پاکستان بنتے ہی انڈیا نے آگے بڑھ کر جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا اور کشمیر کی وادی پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کے لوگوں نے موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا؛ حالانکہ جموں و کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کا حصہ تھا۔
کشمیر ہی کی وجہ سے دوسری لڑائی 1965ء میں ہوئی۔ لڑائی کشمیر میں تھی کہ وہ یو این کے مطابق ‘متنازعہ علاقہ ہے ‘ مگر انڈیا نے بین الاقوامی بارڈر‘ یعنی لاہور پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا لیا اور اس کی فوج کے چند لوگ چپکے سے شالامار باغ کے قریب تک پہنچ گئے۔ پاکستان نے دلیری کے ساتھ خوب دفاع کیا؛ حتیٰ کہ انڈیا نے جنگ بندی کا شور مچا دیا اور تاشقند میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ مشرکین مکہ نے دوسری جنگ مدینہ منورہ میں جا کر لڑی‘ اُحد کے دامن میں جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو اپنے ہی ایک دستے کی جانب سے حکم عدولی کی صورت میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ مگر پھر مسلمان سنبھل گئے اور مشرکین مکہ واپس مکہ چلے گئے ‘یعنی یہ دوسری جنگ بھی مکہ کے لوگوں کی صریحاً جارحیت تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں پہنچے تھے‘ مگر ان کا جو مقصد تھا کہ ریاست مدینہ کو ختم کر دیا جائے ‘وہ اپنے اس مقصد میں ناکام ہو گئے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تیسری جنگ 1971ء میں ہوئی۔ اہل پاکستان کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ‘مگر انڈیا بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کے پاس دو راستے تھے‘ پہلا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی فتح کے بعد مشرقی پاکستان کو انڈیا میں ضم کر لیتی۔ ایسی صورت میں نتیجہ یہ نکلتا کہ مشرقی اور مغربی بنگال کے بنگالی انڈیا سے علیحدگی کی تحریک چلاتے اور ایک مسلم گریٹر بنگال وجود میں آ جاتا۔ اندرا گاندھی مذکورہ سوچ کے نتائج سے خوف کے ساتھ کانپ اٹھی۔ اب اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کا سربراہ بننے دیا اور یوں پاکستان کا ایک حصہ نئے مسلم ملک ''بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے وجود میں آ گیا۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو انڈیا اپنی زبان کی برتری کی بڑھک کے سوا کچھ حاصل نہ کر سکا۔ یہی بنگلہ دیش جنرل ضیاء الرحمن کے دور میں جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کا دوست تھا۔ اب حسینہ واجد انڈیا کی مٹھی میں ہے‘ کل کو صورتحال پھر بدل سکتی ہے۔ بہرحال! بنگلہ دیش بنانا انڈیا کا جارحانہ اقدام تھا۔ مکہ کے بت پرستوں اور مدینہ کی ریاست کے درمیان تیسری بڑی لڑائی ''احزاب‘‘ کی لڑائی ہے۔ اس لڑائی میں مکہ کے مورتی پجاریوں نے دس ہزار کا لشکر جمع کیا اور مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمانوں نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر اپنی کمزور پوزیشن کا کامیاب دفاع کیا۔ مکہ سے آئے دس ہزار کے لشکر کو 25روزہ محاصرے کے بعد آخر کار ناکام و نامراد واپس جانا پڑا۔ مندرجہ بالا حقائق کے بعد ہمیں مکہ کے مورتی پجاریوں اور مدینہ کے اہل توحید کے درمیان... اور آج چودہ سو سال بعد انڈیا کے مورتی پجاریوں اور پاکستان کے اہل توحید کے درمیان شاندار مماثلت یوں نظر آتی ہے کہ تین تین جنگوں کی مماثلت ہے۔ وہاں اہل مکہ کی جارحیت ہے‘ تو یہاں انڈیا والوں کی جارحیت ہے۔ مدینہ کی ریاست بھی قائم رہی۔ پاکستان کی ریاست بھی قائم ہے (الحمدللہ) مکہ والوں کو بھی کچھ نہ ملا۔ انڈیا والوں کو بھی کچھ نہیں ملا۔
چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمؐ نے ریاست مدینہ کے حکمران کی حیثیت سے ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ آپؐ نے مکہ تک امن کے ایک مبارک سفر کا اعلان فرما دیا۔ ہر ایک کو ساتھ چلنے کا دعوت نامہ دے دیا۔ قربانی کے ستر اونٹوں کو ہمراہ لیا۔ عمرہ کا احرام باندھا۔ جنگی ہتھیار ساتھ نہ لئے۔ واضح کر دیا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور کعبہ کی زیارت کو جا رہے ہیں۔ حدیبیہ میں پہنچے تو مکہ کے مورتی پجاریوں نے آگے جانے سے روک دیا۔ انہوں نے جنگ کرنے کا پلان بنایا ‘مگر ان کے گھڑ سوار دستے کو صحابہؓ نے قابو کر لیا۔ حضورؐ نے سب کو چھوڑ دیا کہ ہم تو امن کی راہ کے راہی ہیں۔ آخر کار صلح حدیبیہ کے نام سے امن کا معاہدہ ہوا کہ دس سال تک جنگ نہ ہو گی۔ اگلے سال مسلمان عمرہ کے لئے مکہ آ جائیں۔ معاہدہ لکھا جانے لگا تو ''محمد رسول اللہ‘‘ پر قریش مکہ نے اعتراض کر دیا۔ حضورؐ نے امن کی خاطر ''رسول اللہ‘‘ کے الفاظ ہٹا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے واپسی پر سورئہ فتح نازل فرمائی اور آغاز یہاں سے کیا (میرے رسولؐ) کوئی شک نہیں کہ ہم نے آپؐ کو ایک واضح اور کھلی فتح عطا فرما دی ہے‘ یعنی امن کو اللہ تعالیٰ نے فتح قرار دیا اور حضورؐ نے واپسی پر رات گزاری تو صبح صحابہؓ سے فرمایا ''آج رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے‘ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری4177)۔ معلوم ہوا کہ ساری دنیا کے خزانوں سے بڑھ کر حضور رحمۃ للعالمینؐ کو امن عزیز ہے۔
آج پاکستان اور انڈیا کے لئے بھی امن کا ایک موقع یوں پیدا ہوا ہے کہ امریکہ‘ انڈیا اور 40 اتحادی ممالک (احزاب) کو ناکام واپس جانا پڑ رہا ہے۔ پاکستان نے امن کے لئے امریکہ اور طالبان کے درمیان بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے مذکورہ کردار کو ساری دنیا خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے۔ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔ عسکری قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں انڈیا کا ظلم آخری حدوں پر ہے۔ اس کے باوجود پاکستان اپنے حریف انڈیا کو امن کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ یو این کی قراردادوں کے مطابق حل کر دے۔ سی پیک کا حصہ بن جائے تاکہ علاقے میں امن ہو جائے۔ تجارت میں اضافہ ہو جائے۔ انڈیا اس سے فائدہ اٹھائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا اپنے نظریاتی وارثوں مکہ کے مورتی پجاریوں کی طرح امن کی طرف آئے گا یا نہیں؟ ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ امن کی طرف آئے گا تو فائدے میں رہے گا؛ اگر امن کی جانب نہیں آئے گاتو نقصان اٹھائے گا۔ مکہ کے مورتی پجاریوں نے امن کی پیشکش کو پس و پیش کے بعد قبول کیا تھا۔ دہلی کے مورتی پجاریوں کو بھی اس راہ پر چلنا چاہئے اور امن کی طرف آ کر اہل مکہ کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ انہوں نے ریاست مدینہ کے ساتھ کئے ہوئے امن کے معاہدے کو توڑا تو جواب میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ انڈیا کو سمجھنا چاہئے کہ امریکہ اور ناٹو کے نکل جانے کے بعد انڈیا کی پشت پر کھڑا ہونے والی اب کوئی طاقت موجود نہیں۔ مقبوضہ وادی نئے افغانستان کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسے کشمیر سے بہرحال جانا ہے۔ امریکہ دُور کا ملک ہے۔ انڈیا خطے کا ملک ہے۔ انڈیا کو یہ فرق سامنے رکھنا چاہئے۔ پاکستان کی پیشکش جنرل (ر) مشرف کے دور میں بھی ہوئی تھی۔ انڈیا نے تب انکار کیا تھا۔ اب کے اس بار کا انکار انڈیا کے لئے صدیوں کی خطا ثابت ہو سکتی ہے۔ آگے انڈیا کی مرضی ہے کہ وہ تاریخ کے لمحات سے فائدہ اٹھاتا ہے یا روس اور امریکہ سے بیس گنا بڑھ کر نقصان سے دوچار ہو جاتا ہے؟