عید گزر چکی ‘اگلے سال رمضان پھر آ جائے گا‘ مگر ہم میں سے کون کون نہ ہوگا‘ یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ ہمیں تیاری کا حکم ہے اور رمضان میں اسی تیاری کی مشق تھی۔ کون اس مشق کو یاد رکھ کر زندگی کا سال گزارتا ہے اور کون بھول جاتا ہے۔ یہ اپنی اپنی اچھی بری قسمت کی بات ہے۔ رمضان میں مجھے بہت سارے افطار پروگراموں کے سلسلہ میں مختلف شہروں میں مسافر بن کر جانا پڑا‘ مگر چنیوٹ شہر کا سفر ایسا تھا کہ اس میں دیکھا ہوا گلزار محل نظروں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ چنیوٹ شہر فرنیچر کے اعتبار سے ایک معروف ثقافتی شہر ہے‘ جس کے فرنیچر کی دھوم پاکستان ہی نہیں‘ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ہے۔ دریائے چناب کے کنارے پہاڑیوں کے دامن میں یہ شہر ہزاروں نہیں‘ تو صدیوں سال ضرور پرانا ہے۔ لکڑی فرنیچر کی صورت اختیار کرے۔ روشندان‘ دروازے اور کھڑکی کی صورت میں ڈھلے۔ اس کا جھروکہ اور جھولہ بنے یا وہ چھت میں اپنے حق کا نظارہ کرائے۔ اس میں نقاشی کے سینکڑوں اور ہزاروں ڈیزائن بنیں۔ اس میں شیشہ‘ ہاتھی دانت اور دھات کی کاریگری جڑاؤ کی صورت دکھائی دے۔ یہ ساری مہارتیں چنیوٹ کی فرنیچر مارکیٹ میں دکھائی دیتی ہیں۔ میں جب بھی چنیوٹ گیا ‘عمر محل یا گلزار محل کا تذکرہ ضرور ہوا‘ مگر مصروفیات آڑے آئیں اور دیکھنے سے محروم رہا۔ اس بار رمضان میں وقت کی فرصت یوں ملی کہ رات چنیوٹ کے پرانے شہر میں گزاری۔ صبح مسجد میں فکر آخرت پر درس دیا‘ پھر آرام کی غرض سے نیند کی مدہوش وادی میں گھومتا رہا اور بیدار ہوا تو احباب کے ہمراہ گلزار محل کو چل دیا اور جہاں لکڑی کا کام اپنی کاریگری اور رعنائی کے ساتھ میرے سامنے تھا۔
تین چار کنال کے پارک کے بعد پانچ منزلہ محل میں داخل ہوا تو اس کے لاؤنج میں زمینی فرش سے چند انچ بلند دو قبریں دکھائی دیں۔ یہ ماں بیٹا کی قبریں تھیں‘ جو اس محل کے مالک تھے‘ مگر اس محل میں آئے تو اسے آباد کرنے کی بجائے اسے قبرستان کی صورت دے کر دنیا کے بندوں کو اک درس دے گئے کہ لوگو! محل میں رہنے کا ارادہ بناؤ تو اگلی دنیا میں محل بناؤ۔ یہیں بنانا چاہتے ہو تو ہمارے محل سے سبق سیکھ لو۔ گلزار محل کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ چنیوٹ میں لکڑی کے تاجر عمر حیات نے کلکتہ میں لکڑی اور فرنیچر کا کام شروع کر دیا۔ بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کے ملکوں میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس شروع ہو گیا۔ وہ دور کہ جب کسی کے پاس ہزاروں روپے ہوتے تھے ‘تو اسے ''ہزارپتی‘‘ اور ہزاروں پتی سیٹھ کہا جاتا تھا اور ایک لاکھ جائیداد کے مالک کی تو بات ہی نرالی تھی کہ اسے ''لکھ پتی سیٹھ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں چنیوٹ کے تاجر عمر حیات ''لاکھوں پتی سیٹھ‘‘ بن گئے تھے۔ عمر حیات کے پاس اولاد کی نعمت مختصر تھی؛ ایک اکلوتا بیٹا گلزار تھا اور ایک اکلوتی بیٹی تھی۔ بچے ابھی لڑکپن میں تھے ؛چنانچہ عمر حیات نے اپنے آبائی شہر چنیوٹ میں ایک محل بنانے کا فیصلہ کیا کہ بچے جونہی شادی کے قابل ہوں تو رہائش چنیوٹ میں رکھی جائے‘ جبکہ کاروبار کلکتہ سے جاری رہے؛ چنانچہ 1925 میں مذکورہ جگہ محل کا آغاز ہوا۔ اس کی پانچ منزلیں بنائی گئیں۔ پانچ سال‘ یعنی 1930 میں یہ محل مکمل ہوا۔ میں دیکھ دیکھ کر دنگ ہوئے جا رہا تھا کہ روشن دانوں کے اعتبار سے خوب روشن تھا۔ ہر روشندان آنکھ کی شکل میں لکڑی کی مناعی کا شاہکار تھا ۔اندر کمرے میں دیکھا تو روشندان کی سیدھ میں دل بنے ہوئے تھے۔ لکڑی کی الماریوں میں کمال کا کام تھا تو پانچ منزلوں کے ہر کمرے کی چھت خوبصورت لکڑی اور اس میں کاریگری کے حوالے سے مختلف تہذیبوں کا شاہکار تھی۔ کہیں مغل تہذیب کا رنگ تھا تو کہیں انگریزی تمدن کی رونمائی تھی۔ پرانی تہذیبوں کے شاہکاروں کو بھی چھتوں میں نمایاں کیا گیا تھا۔ بالکونیوں اور جھروکوں کا کیا کہنا کہ لکڑی میں مور کے پنکھوں کا حسن یوں جلوہ گر کیا گیا تھا کہ جھروکے کی چھوٹی چھوٹی‘ مگر لمبی کھڑکیوں کو کھولا جائے‘ تو یوں لگے کہ مور کے پروں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ محل میں کھڑکیوں کی خوبصورتی اور ہواداری الگ تھی۔ انگیٹھی اور دیواروں پر کام الگ تھا۔ بجلی تھی نہیں مگر کنویں کے ذریعے ہر منزل میں پانی پہنچانے کا بندوبست تھا۔ غسل خانوں میں پانی‘ باورچی خانوں میں پانی اور اس کے نکاس کا پورا پورا نظام یوں بنایا گیا کہ اس دور کا کاریگروں اور نقشہ بنانے والوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
1930ء میں یہ محل اپنے چار مکینوں کے ساتھ آباد ہو گیا۔ گلزار محل چنیوٹ شہر ہی نہیں پورے علاقہ کا ایک نگینہ اور ہیرا تھا۔ اس زمانے میں چار لاکھ روپے کی ایک بڑی رقم کے ساتھ مکمل ہوا تھا۔ جونہی محل مکمل ہوا تو عمر حیات فوت ہو گیا‘ اسے چنیوٹ کے قبرستان کی نذر کر دیا گیا۔ اب وارثوں میں تین افراد باقی رہ گئے۔ گلزار نے ماں کے مشورے سے اب کلکتہ میں کاروبار کو سمیٹا اور محل میں مستقل رہائش کا فیصلہ کیا۔ وہ آئے اور رہنے لگ گئے۔ گلزار کی شادی کے دن 1937ء میں طے پائے۔ پورے شہر میں ولیمے کی دعوت دی گئی۔ دھوم دھڑکے سے بارات نکلی ‘گلزار کی ماں محترمہ فاطمہ اپنی بہو کو گھر میں لے کر آئی۔ شب زناف محل کے ایک خوبصورت کمرے میں گزری۔ صبح گلزار اٹھا اور گراؤنڈ فلور میں ایک چھوٹے سے واش روم میں نہانے لگ گیا۔ سارا محل ہوا دار تھا‘ مگر یہ واش روم میں نے دیکھا تو یہ ہوادار نہ تھا۔ نقشہ بنانے والوں اور کاریگروں سے نقص رہ گیا تھا اور وہ صرف اسی واش روم میں تھا۔ کوئلے کی تپش سے اس واش روم کو گرم کیا گیا تھا۔ واش روم میں گیس تھی؛ چنانچہ گلزار یہاں نہاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ عین خوشیوں کے دن غم کے بگولے نے سب کچھ ختم کر دیا تھا۔ ماں نے لاؤنج میں گلزار بیٹے کی قبر بنا دی۔ دلہن بیوہ بن کر ماں باپ کے پاس چلی۔ فاطمہ اب غم اور دکھ کا مجسمہ بن گئی۔ دنوں ہی دنوں میں لاغر اور بیمار ہو گئی اور آخر کار موت کے منہ میں جانے سے پہلے وصیت کر گئی کہ اس کی قبر بیٹے کے ساتھ بنا دی جائے۔ اب گھر کا ایک ممبر صرف بیٹی رہ گئی۔ وہ محل نما قبرستان میں کیسے رہتی؟ وہ کلکتہ چلی گئی۔ ٹی بی کی مریضہ بن گئی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ بھی وہیں فوت ہو گئی۔ رشتہ دار محل کے وارث بنے‘ مگر انہوں نے وارث بننے سے انکار کر دیا۔ اس محل کے قریب آنے سے بھی ڈرنے لگ گئے۔ عمر حیات کے ملازم اب اس محل کے رہائشی تھے۔ سالہا سال سے وہ رہ رہے تھے۔ پاکستان بن گیا‘ تب 1990ء کے دن آ گئے۔ محمد اطہر طاہر جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے ‘انہوں نے محل کو سرکاری تحویل میں لے کر یہاں لائبریری اور تحقیقی و ثقافتی مرکز قائم کر دیا۔ اس کی مرمت کی گئی اور 1990ء کو اسے عوام کے لئے کھول دیا گیا۔
ثقافتی مرکز کے اہلکاروں نے مجھے پہچان لیا۔ تاثرات رقم کرنے کا رجسٹر میرے سامنے رکھا۔ میں نے لکھا کہ عمر حیات مرحوم اور ان کی فیملی کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ وہ محل بنا کر اور یہاں سے کوچ کر کے ہمارے لئے ایک سبق چھوڑ گئے کہ اس دنیا میں یوں اور اس انداز کا دل لگانا اچھا نہیں۔ دیکھنے والے اس پیغام کو پلّے باندھ لیں تو عمر حیات اور ان کی فیملی کی روحوں کیلئے درجات کی بلندی کا باعث بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں محل بنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
قارئین کرام! آج ہمارے ملک پاکستان میں بڑے بڑے شاپنگ مال‘ محلات نما کوٹھیاں جو کئی کئی کنالوں اور ایکڑوں رقبے پر محیط ہیں۔ گلزار محل ان کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اس سے پیچھے چلے جائیں تو وہ سہولتیں جو راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں کو حاصل نہ تھیں‘ وہ آج دنیا میں کروڑوں اور اربوں انسانوں کو میسر ہیں‘مگر شکر نہیں پھر بھی ناشکری ہے۔ قابل ِتحسین ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان المبارک کے مہینے میں اپنی روحانی دنیا کو پاکیزہ بنانے کا کام کیا۔ سارا سال ہم مذکورہ پاکیزگی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو ہر دن عید کا دن ہے۔ عید کا مطلب حسرت و شادمانی ہے۔ روح نکلتے وقت جس کو یہ میسر آ گئی ‘وہ کامیاب ہو گیا۔ صحیح بخاری میں اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ آخری وقت پر جس مومن بندے کو اس کا آخری خوش کن منظر نظر آتا ہے‘ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو بیتاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ایسے مومن کی ملاقات کو بیتاب ہو جاتے ہیں۔ سبحان اللہ! مومن کی یہ بیتابی کامیابی ہے۔ جماعت اسلامی کے جنوبی پنجاب کے امیر سابق ممبر اسمبلی ہمارے پیارے دوست۔ آخرت کی فکر رکھنے والے ڈاکٹر وسیم اختر ؒ عید سے دو دن پہلے اپنے اللہ سے جا ملے۔
اگلے رمضان تک کون کون ہمارے ساتھ نہ ہوگا‘ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آئیے! عید گزر چکی۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے دن کو یوم عید بنانے کی کوشش کریں کہ اصل عید‘ یعنی حسرت و کامرانی کا دن وہ ہے‘ جس دن ہلال ِعید نہیں‘ بلکہ اپنے رب کریم کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ (انشاء اللہ)