سائنس کے میدان میں انسانی نفسیات پر ڈاکٹر ایلس سِلور کو اتھارٹی مانا جاتا ہے۔ مغربی دنیا کے اس محقق اور ریسرچر نے حال ہی میں ایک ایسی تحقیق اور ریسرچ دنیا کے سامنے رکھی ہے کہ جسے علمی دنیا میں نا صرف تسلیم کیا گیا ہے‘ بلکہ بے حد سراہا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ریسرچ کو کسی علمی حلقے یا کسی علمی شخصیت کی جانب سے چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ زمین پر انسانی رہائش کے بارے میں ڈاکٹر صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بنیادی طور پر انسان زمینی سیارے کا باشندہ نہیں ہے۔ اسے کسی دوسرے سیارے سے یہاں بھیجا گیا ہے۔ یہ خود نہیں آیا‘ بلکہ اسے سزا کے طور پر یہاں بھیجا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا وجود زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا ‘لہٰذا یہ ساری زندگی اپنے وجود کو زمینی ماحول کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے‘ مگر آخر کار ناکام ہی رہتا ہے اور پھر اپنی سزا پوری کر کے دنیا سے چل بستا ہے۔ یہ ہے؛ ڈاکٹر سِلور کی تحقیق اور ریسرچ کا خلاصہ۔ اس پر ڈاکٹر صاحب دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں؛ زمین پر لاکھوں اقسام کی مخلوقات ہیں‘ ہر مخلوق کی کئی انواع ہیں‘ ان سب کے بچے پیدا ہوتے ہی زمین پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چلنا شروع کر دیتے ہیں‘ پھر دوڑنا بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ سمندر میں تیرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پرندے گھونسلے بناتے ہیں‘ تو ان کے بچے انڈوں سے نکلنے کے چند دنوں بعد فضا میں اڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان کا بچہ پیدا بھی مشکل سے ہوتا ہے اور پھر پلتا بھی انتہائی مشقت سے ہے۔ باقی مخلوقات اپنی خوراک زمین سے قدرتی طور پر حاصل کرتے ہیں‘ جبکہ انسان کسی ایسے آرام دہ سیارے سے آیا ہے کہ وہ اس قدرتی خوراک پر گزارہ نہیں کر سکتا‘ لہٰذا وہ اپنی خوراک خود اسی زمین پر اگاتا ہے‘ پھر اسے طرح طرح سے چٹخارے دار بنا کر کھاتا ہے۔ تمام جانداروں کو لباس کی ضرورت نہیں ‘ان کی کھال اور وجود ماحول کے مطابق ہے۔ انسان اپنا لباس ماحول کے مطابق بنا کر پہنتا ہے۔ تمام جاندار بیمار نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں تو معمولی سے اور پھر خود بخود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ انسان ساری زندگی بیماریوں کا مقابلہ کرتا ہے اور جدید ترین میڈیکل سائنس کے باوجود آخر کار بیماری ہی کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔ تمام جاندار زمین کو ہی مسکن بنا کر رہائش رکھتے ہیں۔ انسان ایسا نازک مزاج ہے کہ یہ مکانات اور محلات بناتا ہے‘ پھر آرائش کے تمام تر وسائل جمع کرتا ہے‘ یعنی یہ جس سیارے سے آیا ہے‘ وہاں یہ انتہائی اعلیٰ اور نفیس ترین رہائش کا مالک تھا۔ تمام جاندار اپنی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط اور زمینی ماحول کے مطابق پاتے ہوئے زمین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں ‘جبکہ زمین کی کشش ثقل انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مناسب بستر پر سوئے اس کے باوجود وہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی بیماری کا شکار ہو کر کبڑا بن جاتا ہے۔ الغرض؛ انسان کا وجود زمین کے ماحول کے مطابق نہیں‘ لہٰذا یہ بیچارہ ساری زندگی اپنے آپ کو زمین کے ماحول کے مطابق بناتے بناتے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام! میں کہتا ہوں یہ بیچارہ جب ماحول کو اپنے وجود کے مطابق بناتے بناتے ترقی اور خوشحالی کے کمال کو پہنچتا ہے تو ترقی کے دوران اور خوشحالی کے عروج پر قدرتی آفات اس بیچارے کی تمام ترقیوں اور خوشحالیوں کو آن واحد میں ملیا میٹ کر دیتی ہیں‘ لہٰذا یہ بیچارہ انتہائی بے بس ہے۔ قرآن جو انسانی رہنمائی کی آخری کتاب ہے ‘اس میں اور پہلی الہامی کتابوں میں واضح کر دیا گیا ہے کہ انسان زمینی مٹی سے بنا ہے ‘جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونک کر جنت میں رکھا اور پھر غلطی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیج دیا‘ لہٰذا بنیادی طور پر یہ آسمانی مخلوق ہے۔ جنت کی زندگی انتہائی آرام دہ زندگی تھی۔ ویسے اس کی سوچیں بھی آسمانی ہیں۔ اسے پرندوں کی طرح پرواز کا بڑا شوق تھا۔ وہ شوق اس نے ابتدائی طور پر پورا کر لیا۔ یہ زمینی فضا میں جہازوں کے ذریعے اڑتا پھرتا ہے‘ پھر اس نے زمین کوچھوڑ کر خلاء میں جانے کا پروگرام بنایا۔ یہ وہاں بھی پہنچ گیا۔ اس کے بعد اس نے تیسری کامیابی چاند پر اتر کر حاصل کرلی۔ اب مریخ پر جانے اور بسنے کی تیاری کر رہا ہے۔ وائیجرون اور وائیجر ٹو اپنی کہکشاں میں پہنچا چکا ہے۔ کوشش اس کی یہ ہے کہ کہیں سے کوئی آرام دہ‘ وسائل سے مالا مال سیارہ ڈھونڈ لے ‘جو زمین سے بڑھ کر عالیشان ہو۔ الغرض؛ اس کی ایسی خواہشیں بتاتی ہیں کہ یہ جس جنت سے نکلا تھا ‘یہ وہاں جانا چاہتا ہے‘ مگر وہاں یہ اپنے موجودہ وجود کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ اسے اپنا وجود بہرحال اسی زمین کے حوالے کرنا ہوگا‘ جو زمین ہی کا حصہ بن جائے گا۔ روح کی صورت میں یہ آسمانی چیز ہے۔ زمین کی جیل میں اس نے اپنے آپ کو سنوار لیا تو یہ مرنے کے بعد اس جیل سے آزاد ہو جائے گا اور سیدھا وہاں چلا جائے گا‘ جہاں سے آیا تھا۔
بچپن اور لڑکپن ‘بھولپن میں گزر جاتا ہے تو جوانی قوت و توانائی کی رعنائیوں میں عموماً سوچنے کا موقع کم دیتی ہے۔ بندہ جب بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے تو اسے اب‘ حقیقت یوں ڈسنا شروع کر دیتی ہے کہ ماں باپ چلے گئے۔ بہن بھائیوں میں سے بھی کئی رخصت ہو گئے۔ دوست احباب بھی بہت سارے اگلے جہان میں چلے گئے۔ بچے جوان ہو گئے۔ شادیاں ہو گئیں۔ اب ان کے بھی بچے ہو گئے۔ اس کے پاس اب دل بہلانے کو ایک ہی چیز ہے۔ وہ ہیں؛ پوتے پوتیاں۔ بڑھاپے میں میاں بیوی ایک دوسرے کے بہترین ساتھی ہوتے ہیں۔ اس عمر میں ایک اگلے جہان چلا جائے تو پیچھے رہ جانے والے اکیلے کی زندگی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے۔
جناب سابق صدر آصف علی زرداری اب بڑھاپے کی عمر میں ہیں۔ ضعف اور کمزوری اب شدت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے؛ چنانچہ انہوں نے بجا کہا ہے کہ یہ عمر پوتے پوتیوں میں گزارنے کی ہے۔ بلاول کے لئے دلہن کی تلاش کی بھی انہوں نے بات کی ہے؛ اگر‘ بلاول صاحب کی شادی 25سال کی عمر میں ہو جاتی تو اب زرداری صاحب پوتے پوتیوں میں وقت گزار رہے ہوتے۔ بہرحال پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنے کی بات میں اصل بات یہ ہے کہ ہمارا وقت اور زمانہ گزر گیا ہے۔ اب‘ تو آگے جانے کی تیاری کا وقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان دنیا میں اپنا ایک خاندان چھوڑ کر جاتا ہے اور اگلے خاندان کے پاس چلا جاتا ہے۔ جناب زرداری صاحب اور ان جیسے صاحب ثروت و حکومت کے پاس وسائل کی کمی نہیں‘ مگر کیا کیا جائے کہ جس وجود نے مادی وسائل سے فائدے اٹھانے اور انہیں استعمال کرنا ہے‘ وہ تیزی کے ساتھ ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے دنیا کو مومن کیلئے قید خانہ کہا ہے۔ حضوراکرم ؐنے اپنے دونوں نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو اپنے کندھوں پر بھی سوار کیا اور سجدے میں دونوں بھائی اپنے نانا کی کمر مبارک پر بھی کھیلتے رہے۔ حضورؐ نے بھی اپنی زندگی کا آخری زمانہ نواسوں کے ساتھ دل لگی کرتے اور ان کو ہنساتے ہوئے گزارا‘ مگر؛ چونکہ آپؐ مدینہ کی ریاست کے حکمران بھی تھے اور اس حکمرانی میں لگے کھجوروں کے ایک ڈھیر سے ننھے نواسے نے کھجور منہ میں ڈال لی تو میرے حضورؐ نے اپنی انگلی مبارک منہ میں ڈال کر کھجور نکالی اور واپس ڈھیر پر پھینکتے ہوئے فرمایا: یہ صدقے کی کھجور ہے اور آلِ رسولؐ پر یہ حرام ہے۔
اے حکمرانو! اسلام کی تعلیم یہ کہتی ہے۔ اہل کتاب کی کتابیں بولتی ہیں۔ جدید ریسرچ بھی بول پڑی ہے کہ نعمتوں بھری اگلی زندگی کا عقیدہ انسان کی فطرت میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے ٹیکس اور صدقے کا مال‘ اگر پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کھائیں گے‘ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب تو دادا اور نانا کو دینا ہے۔ اے دادے اور نانے! اگر ‘طرزِعمل میں کوئی خرابی ہے‘ تو اصلاح کا موقع موجود ہے۔