سال کے بارہ مہینوں میں سے تین مہینے ایسے ہیں‘ جو گرمی میں حبس اور گھٹن کے مہینے ہیں۔ ان کا دورانیہ 15جون سے 15ستمبر تک کا ہے۔ ان دنوں میں موسم گرم ہوتا ہے۔ بارشیں شروع ہو جاتی ہیں ‘یوں فضا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ہوا چلتی رہے تو قدرے سکون ملتا ہے۔ ہوا نہ چلے تو گھٹن ہو جاتی ہے۔ ہیضے کی وبا ‘پھوڑے پھنسیاں وغیرہ ‘اسی موسم میں پیدا ہوتی ہیں۔ زمین پر رینگنے والے حشرات بھی اس موسم میں اپنے بِلوں سے باہر نکلنے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا موسم ہے کہ آنکھوں اور جِلد کی الرجی بھی بعض لوگوں کو اس موسم میں خوب ستاتی ہے۔ لیموں‘ اچار‘ فالسہ‘ انار‘ آڑو اور لیچی جیسے پھلوں سے اس موسم میں طبیعت کو فرحت ملتی ہے۔ وطن ِعزیز کے شمالی علاقہ جات ایسے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی فرحت بخش اور روح افزا نعمت ہیں۔ اس بار میں نے آڑو کے باغات کی سرزمین‘ یعنی سوات کی سیر کا پروگرام بنا لیا۔ عمر کے ساٹھ سال پورے کر کے اب آگے جا رہا ہوں۔ کئی دنوں سے بیمار تھا۔ ہسپتال میں بھی داخل رہا۔ اِدھر کو آیا تو اللہ تعالیٰ نے صحت سے نواز دیا۔ (الحمد للہ)
وادی سوات ایک ایسی وادی ہے‘ جو پاکستان کی سب سے زیادہ ایسی وسیع و عریض وادی ہے‘ جس کے حسن اور ہریالی و شادابی کو دریائے سوات نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔ عمران خان کی حکمرانی نے وادی سوات تک موٹروے بنانے کی کوشش شروع کرر کھی ہے۔ موٹروے پر اسلام آباد سے آگے بڑھیں تو برہاں اور صوابی کے بعد رشکئی انٹر چینج سے سوات موٹروے شروع ہو جاتی ہے۔ دو رویہ موٹروے ہے۔ مالاکنڈ کے پہاڑ سے سرنگ نکال کر لمبے سفر کو کم کر دیا گیا ہے ‘مگر ابھی سرنگ سے پہلے اور سرنگ سے نکلنے کے بعد چکدرہ تک سڑک پر کام جاری ہے۔ یہ موٹروے صرف چکدرہ تک ہے۔ چکدرہ سے آگے سوات کا آغاز ہوتا ہے۔
سوات کا صدر مقام ''مینگورہ‘‘ ہے۔ چکدرہ سے مینگورہ تک جانے کے دو راستے ہیں۔ دریائے سوات کے دائیں طرف سے جائیں تو راستہ مختصر‘ مگر رش والا ہے۔ شیخ زید پل پار کر کے دریا کے بائیں طرف سے جائیں تو راستہ قدرے لمبا ‘مگر رش سے بچانے والا ہے۔ مینگورہ‘ ایک خوبصورت‘ تاریخی اور سہولتوں سے آراستہ شہر ہے۔ اس کا عجائب گھر دیکھا‘ جسے 1963ء میں ایوب خان مرحوم نے بنایا تھا۔ وہاں مینگورہ کی تاریخ سے معلوم ہوا کہ سنسکرت میں اس شہر کا پرانا نام ''سواد‘‘ تھا۔ یہ لفظ پنجابی زبان میں لطف و سرور اور لذّت کے معانی دیتا ہے۔ سوات یا سواد ‘گندھارا تہذیب کا پرانا مرکز رہا ہے۔ دریائے سوات کے کنارے بے شمار بدھ عبادت گاہیں تھیں۔ سوات ایرانی بادشاہوں اور سکندر اعظم کی فتح سے بھی ہمکنار ہوا۔ آخر کار سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کی فتح کے ساتھ سوات کو بھی فتح کیا ‘تب سے ساری وادی مسجدوں سے بھر گئی۔ مغلوں کے زوال کے بعد انگریز کی نگرانی میں ہندوستان میں ساڑھے پانچ سو ریاستوں میں نواب اور راجے تھے۔ سوات‘ والی ٔسوات کے پاس چلا گیا۔ ایوب خان کے زمانے میں یہ ریاست پاکستان میں ضم کر دی گئی۔ آخری والی سوات کی بیٹی ایوب خان کی بہو بنی۔ مینگورہ سے دس پندرہ کیلو میٹر کے فاصلے پر والی ٔسوات کا محل ہے۔ آج کے دور میں اسے بڑی کوٹھی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ میں نے اسے چند سال قبل دیکھا‘ تو اس چھوٹے محل کے پہلو میں دریائے سوات سے آنے والا پانی ایک نالے کی شکل میں پتھروں سے ٹکراتا اور شور بپا کرتا‘ خوبصورت لگتا تھا۔ اب کے یہ محل دیکھا تو دریائے سوات جو اپنا رخ بدل چکا ہے تو نالہ بھی خشک ہو گیا ہے یوں اس ''سفید محل‘‘ کا حسن کم پڑ گیا ہے۔ شاہ جہان مغل بادشاہ نے جس سنگ ِمرمر سے تاج محل بنایا تھا‘ اسی پتھر سے والی سوات نے ''وائٹ پیلس‘‘ بنوایا۔ برطانیہ کی ملکہ یہاں قیام کر چکی ہیں۔ آج یہ محل ایک ہوٹل ہے۔ جہاں سوات کی رانی راتیں گزارتی تھی۔ ملکہ برطانیہ رات گزار چکی۔ آج کوئی بھی سیاح وہی کمرہ بک کروا کر رات یا راتیں گزار سکتا ہے۔ یہ ہے ؛دنیا اور اس کی حقیقت کہ اس کی ہر جگہ کا حقیقی وارث اللہ تعالیٰ ہے ‘باقی سب جو وارث ہیں‘ یہ عارضی ہیں‘ جبکہ بادشاہوں کی وراثتوں کا مقدر تو عجائب گھر اور سیاحتی مقامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کاش کوئی سمجھے اور اگلے جہان کے محلات پر نظر رکھ کر زندگی گزارے۔
مینگورہ سے آگے بڑھیں تو ''مٹہ‘‘ اور ''مدین‘‘ کے بعد بڑا شہر ''بحرین‘‘ ہے۔ بحرین کے مین بازار کے خاتمے پر دریائے سوات میں ایک بڑا سا پہاڑی نالہ شور کرتا ہوا ملتا ہے‘ اس لئے اسے بحرین کہتے ہیں۔ یہاں تک وادی انتہائی کشادہ ہے۔ یہاں سے آگے کالام تک وادی کافی تنگ ہو جاتی ہے‘ مگر سڑک میں زِگ زیگ زیادہ نہیں‘ اس سڑک کو موجودہ حکومت انتہائی تیزی کے ساتھ مضبوط‘ چوڑا اور اچھا بنا رہی ہے۔ چند سال پہلے بھی کالام آیا تھا ‘مگر اب تو اچھا خاصا شہر بن چکا ہے۔ سوات کی ایک خاصیت یہ ہے کہ دریا کی وجہ سے چشموں کی بہتات ہے۔ نلکے بھی لگے ہوئے ہیں۔ باغات اور فصلیں خوب ہیں۔ چاول کی فصل بھی کمال ہے۔ لوگ گائے اور بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔ گائے کا خالص دودھ اور دہی ہر جگہ مل جاتا ہے‘ جبکہ باقی سیاحتی مقامات پر تو تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ وادی سوات میں کالام ایسا شہر ہے ‘جو مناسب حد تک ٹھنڈا ہے۔ بازار خوب ہیں اور ہوٹل بھی نہیں۔ ایک ہوٹل حال ہی میں بنا ہے۔ دریا کے پانی کی لہریں اس کی نچلی منزل کو کہنیاں مار کر گزرتی ہیں۔ ساتھ شور بھی کرتی ہیں۔ دریال کے اس ہوٹل میں رات گزاری۔ یہاں ہوٹل بھی سستے ہیں کہ کالام تک راستہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کم ہی لوگ یہاں تک آتے ہیں۔ عشاء کے بعد ہوٹل کی بالائی منزل کے صحن عجب مسرور کن نظارہ تھا ‘نیچے دریا کی لہروں کے نغمے تھے ‘جن میں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ''سبحان اللہ‘‘ کا ورد کر رہی ہیں۔ اوپر آسمان کی جانب تو تاروں بھرے آسمان کا منظر دل کو موہ لینے والا تھا۔
2014ء میں امریکی خلائی ادارے ''ناسا‘‘ کی رپورٹ پر مسٹر کارل نے ایک مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ امریکی میگزین ''SPACE‘‘ میں شائع ہوا۔ ایک آدمی کی تصویر بنائی گئی جو زمین کے گلوب پر کھڑا ہے اور آسمان کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے۔ اس تصویر کے ساتھ سرخی یہ جمائی گئی ہے ''انسان آسمان کی جانب دیکھ کر کائنات کے ماضی کی جانب دیکھ رہا ہے‘‘ مقالہ نگار سائنسدان لکھتا ہے؛ کائنات کی عمر 14.7ارب نوری سال ہے۔ خلائی دوربین کے ذریعے کائنات کو انسانی آنکھ نے دیکھا تو ماضی میں منظر کچھ یوں دکھائی دیا ؛1۔ نظامِ شمسی 2۔ پھر کہکشاؤں کا علاقہ 3 ۔ابتدائی کہکشاؤں کا خط 4۔ پہلے ستاروں کا علاقہ 5۔ مادے اور انرجی کی ملی ہوئی شکل 6۔ تاریک زمانے کا علاقہ 7۔بڑا دھماکہ‘ یعنی ''BiG BANG‘‘قارئین کرام! اب تو وہ روشنی بھی دیکھ لی ‘جو بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی تھی۔ کالم نگار مزید لکھتا ہے؛ ہم جب بھی کائنات کو دور تک ماضی میں دیکھتے ہیں تو کائنات کی عمر جب ایک ارب نوری سال تھی تو اس کا بچپن ہمیں نظر آتا ہے۔ ہم اپنی کائنات کو ایک بہت بڑے روشنی کے سمندر کی شکل میں بھی دیکھ چکے ہیں‘ تب کائنات یوں تھی؛ جیسے ایک دودھ پیتا بچہ ہو۔ برطانیہ کی ایک انگریز دانشور نومسلم خاتون رویسٹر روسٹر کہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن میں 14سو سال قبل آگاہ کردیا اور فرمایا! ''وہ اللہ جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے۔ رحمان کی اس پیدائش میں (اے انسان) تو کوئی کمی بیشی (نقص) نہیں دیکھ پائے گا۔ نگاہ کو واپس پلٹا کیا تجھے کہیں کوئی کٹی پھٹی جگہیں نظر آتی ہیں؟۔ پھر باربار نگاہ کو پلٹا آخر کار نظر ناکام ہو کر تیری طرف واپس آئے گی اور وہ تھک چکی ہوگی‘‘ (الملک:4,3)
یعنی اے انسان! تم دور بین بناؤ۔ نئی سے نئی بناتے جاؤ۔ کائنات کا ماضی دیکھتے جاؤ۔ کہیں نقص نظر نہ آئے گا۔ انسانیت ترقیاں کرتے کرتے دیکھتے دیکھتے تھک جائے گی ‘مگر اللہ کی کائنات کے عجائبات اور ان میں کوئی کمی نظر نہ آئے گی۔ یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ ایک دن انسان کائنات کا ماضی دیکھے گی۔ قارئین کرام! میں آسمان کی جانب دیکھ کر یہی باتیں سوچتا رہا۔ واپس درگئی کے راستے آیا‘ جو مالاکنڈ کا پہاڑ اتر کر درگئی نامی شہر ہے۔ آخر پر خراج ِتحسین سکیورٹی اداروں کے ان شیر جوانوں کو‘ جنہوں نے سوات میں اپنی جانیں دے کر امن کو ممکن بنایا اور آج سوات اپنے ماضی کی طرح پرُامن خطہ ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اے مولا کریم! سارے پاکستان کو امن و امان کی مزید نعمت سے مالا مال فرما دیں۔ سوات ‘جیسا سواد پورے ملک کو عطا فرما دیں۔ (آمین)