ترقی یافتہ یورپ اور امریکہ نے علامہ عبدالرحمان ابن خلدون کو عمرانیات کا ''بابا آدم‘‘ تسلیم کیا ہے۔ ان کے رہنما اصولوں کو اپنے جدید معاشرے کی اساس اور بنیاد بنایا ہے۔ علامہ ابن خلدون نے عمرانیات کے اصول مرتب اور اخذ کیے تو رحمت دو عالم حضرت محمد کریمؐ کی سیرت اور خلفاء راشدین کی انسان دوست حکمرانی سے اخذ کیے۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان ‘اگر عمرانیات کے اچھے اصولوں اور ضابطوں کو اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں تو ہم اہلِ پاکستان کو انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ میں نے جب پاکستان کی گزشتہ پچاس سالہ حکمرانی کی تاریخ پر نظر ڈالی تو نصف صدی کے بعد عمران خان مجھے پہلے حکمران نظر آئے ہیں‘ جو امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو اپنے کسی رشتہ دار؛ حتیٰ کہ اپنی بیوی کو بھی ہمراہ لے کر نہیں گئے۔ 2: دورے کی حقیقی اور لازمی ضرورتوں کے تحت مختصر وفد لے کر گئے ۔3: عام جہاز میں نشستیں لے کر قطر کے راستے امریکہ گئے۔ 4:اپنی نمود و نمائش اور شہرت کی خاطر صحافیوں کا کوئی خصوصی گروپ سرکاری خرچ پر لے کر نہ گئے۔ 5: مہنگے ہوٹل فائیو اور سیون سٹار کی بجائے پاکستانی سفارتخانے کے مہمان خانے میں قیام فرمایا۔ 6:سابقہ حکمران امریکی دورہ سے قبل لابنگ کرنیوالے گروپوں کو کروڑوں ڈالرز کی فیسیں دے کر راستے ہموار کیا کرتے تھے۔ عمران خان نے یہی کام سفارتخانہ کے عملہ سے لیا کہ ان کا یہاں کیا کام ہے؟ سفارتخانے نے یہ کام نہیں کرنا تو اس کا فائدہ کیا ہے؟ 7: سابقہ حکمرانوں کا ایک دورہ لاکھوں ڈالرز میں ہوتا تھا۔ عمران خان کا حالیہ دورہ ایک لاکھ ڈالر کی حد کو بھی نہ چھو سکا ‘بلکہ نصف لاکھ سے بھی کم مالیت میں دورہ مکمل ہوا۔ قارئین کرام! حکمرانی کی عمرانیات میں عمران خان نے تبدیلی پیدا کر دی ہے اور یہ ایسی تبدیلی ہے ‘جو ہر کھلی آنکھ کو دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی پاکستان کی نئی حکمرانی کی عمرانیات میں ایسی تبدیلی ہے ‘جسے ہم اہل پاکستان کو خوش آمدید کہہ کر خوش ہونا چاہیے۔
عمران خان کی شخصیت تکلف سے کوسوں دور ہے۔ آج سے کوئی تیرہ چودہ سال قبل حرمت ِ قرآن کے سلسلہ میں اسلام آباد میں اے پی سی کا انعقاد ہوا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی صدارت تھی۔ میاں اسلم صاحب کا گھر تھا۔ میں نے کنوینر کی حیثیت سے قاضی صاحب کی طرف سے دعوت دی۔ عمران خان صاحب تشریف لائے۔ سادہ لباس میں آئے‘ مگر اجلاس میں ایمانی غیرت کا بھرپورہ مظاہرہ کیا۔ ابھی واشنگٹن میں انہوں نے جلسہ کیا تو ''بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ کے بعد سورۃ فاتحہ کی آیت ''اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِین‘‘ تلاوت کی۔ مذکورہ آیت کو انہوں نے اپنی تحریک انصاف کا سلوگن بنایا ہے۔ اس سلوگن کو وہ امریکی دارالحکومت میں بھی نہیں بھولے۔ ریاست ِمدینہ کی وہ بات کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی سادگی اور حکمرانی میں عدل و انصاف کی مثالیں وہ خوب دیتے ہیں۔ عمران خان کی مذکورہ باتوں کو ان کی ذات کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے سادگی اختیار کر کے اپنے اقوال اور اعمال میں یکسانیت کا عملی مظاہرہ کر دیا ہے۔ امام جمال الدین المعروف ابن ِمنظور اپنی شہرہ آفاق عربی ڈکشنری میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ''عُمَرَان‘‘ کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! دونوں کی سادگی اور حکمرانی میں عدل و انصاف ضرب المثل ہے۔ اللہ کرے کہ امریکہ کے کامیاب دورے کے بعد محترم عمران خان ‘ وطن ِ عزیز پاکستان کو معاشی بحران سے نکال لیں تو سول اداروں کو بحران سے نکال کر سادگی اور کارکردگی کے راستے پر ایسے ڈال دیں کہ دنیا عمران خان کو دیکھے تو وہ ''عُمَرَان‘‘ کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان کو ایک جمہوری اور فلاحی ریاست کی شاہراہ پر گامزن کر چکے ہوں کہ جس کا خواب علامہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا۔ عمرانیات کا علم‘ ایسے ہی ایک معاشرے کی تشکیل ہے کہ جس میں آباد کاری کے ساتھ خوشحالی شامل ہو۔
عمران خان کو امریکہ میں جو عزت اور پذیرائی ملی‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برملا کہا کہ وہ ہماری توقع سے بڑھ کر ہے۔ یہ پاکستان کا اعزاز ہے۔ میں کہتا ہوں ؛اس اعزاز کے پیچھے پاک فوج کے شہداء کا خون ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچے بھلائے نہیں جا سکتے۔ پشاور کے ریٹائرڈ کرنل کا بیٹا اذان بھلایا نہیں جا سکتا کہ جو اپنے بابا کو بروقت فجر کی نماز میں لے کر جاتا تھا۔ میں اذان کے گھر گیا۔ اسفند یار کے گھر گیا اور کتنے ہی گھروں میں جا کر کالم کی صورت روزنامہ دنیا کے صفحات پر قلم کے ذریعے اذانیں دیتا رہا۔ الغرض! 80ہزار اہل پاکستان کے خون سے پاکستان کو امن ملا۔ عمران خان نے مذکورہ حقیقت کا امریکہ میں اعلان کیا۔ یہ اعلان پاکستان کا اعزاز ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی کے ادارے اپنے وزیراعظم کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہیں۔ عمران خان اس کا اظہار کرتے ہیں تو میجر جنرل آصف غفور صاحب برملا کہتے ہیں کہ امریکہ کے دورے میں پوری ٹیم کے کپتان جناب وزیراعظم ہیں‘ لہٰذا ارتکاز ان پر ہی ہونا چاہیے۔ میں کہتا ہوں ؛امریکی دورے میں کامیابی ایسے ہی بے لوث کردار سے ملی ہے۔ ہم سب اہلِ پاکستان کو دعا کرنی چاہیے کہ افغانستان کے امن میں دنیا نے جو توقعات پاکستان سے وابستہ کرلی ہیں‘ اللہ تعالیٰ میرے وطن کو اس میں سرخرو فرمائے۔
امریکہ کے صدر اتھلیٹ رہے ہیں۔ ریسلر رہے ہیں۔ 70سال کے قریب عمر ہے ‘مگر چاک و چوبند اور قد آور ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان کرکٹ کا عالمی مقابلہ جیت کر عالمی چیمپئن کا مقام حاصل کر چکے ‘ قد آور ہیں۔ صحت مند اور چاک و چوبند ہیں۔ پاک فوج کے سالار َ اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ساتھ گئے ۔ وہ بھی قد آور اور چاک و چوبند ایسے آرمی چیف ہیں کہ شاید پاک آرمی کی تاریخ میں سب سے بڑا قد انہی کا ہو؟ تینوں قد آور شخصیات واشنگٹن میں اکٹھی ہوئیں۔ پاکستان میں امن قائم ہو چکا۔ افغانستان میں ہونے جا رہا ہے اور کشمیر میں امن کی بات کا آغاز ہو گیا ہے۔ انڈیا کچھ بھی کہتا رہے۔ جنابِ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں اپنی معاونت کی جو بات کی ہے‘ امریکی وزارت خارجہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انڈیا کی تسلی کا قدرے سامان کرتی رہے‘ مگر حقیقت بہرحال وہی ہے‘ جو سامنے آ چکی۔ کشمیر کا مسئلہ اب‘ عالمی سطح پر توجہ پا گیا ہے۔ پاکستان کی دونوں قد آور شخصیات محترم وزیراعظم اور محترم آرمی چیف صاحبان افغانستان کے مسئلہ میں پاکستان کے کردار کو قد آور بنا کر کھڑا کر گئے ہیں‘ تو کشمیر کے مسئلہ کو بھی عالمی سطح پر قد آور بنانے میں آغاز کر گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ دونوں مسئلوں کا قد جس قدر بڑھ چکا ہے ‘اب اسے چھوٹا کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ ہندوستان یہ بات سمجھ لے تو بہت خوب ہے‘ وگرنہ قد بڑھتا جائے گا۔ مسٹر مودی کا قد جسمانی طور پر چھوٹا ہے۔ معنوی طور پر بھی چھوٹا ہے۔ مزید چھوٹا ہو جائے گا۔
ہماری دو قد آور شخصیات کے قد کو قبائلی علاقے میں الیکشن اور وہ بھی پرُامن الیکشن نے اور بڑھا دیا ہے۔ اپنے ملک میں قد بڑا ہو تو باہر کی دنیا میں بھی بڑا ہوتا ہے۔ عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کے قد کو کلبھوشن کے مقدمے نے بھی بڑا کر دیاہے‘ جبکہ کلبھوشن کو انڈیا کا سرکاری دہشت گرد قرار دے کر عالمی عدالت انصاف نے مودی کے قد کو اور چھوٹا کر دیا۔ مودی کو سمجھنا چاہیے کہ پورے انڈیا میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بربادی پر خصوصاً کشمیر میں روا ظلم پر ان کا قد چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے‘انہیں چاہیے کہ عمران خان اور جنرل قمر باجوہ سے قامت کی بلندی کا نسخہ حاصل کریں۔
علاوہ ازیں سپر پاور کے قد آور جنابِ ٹرمپ کو کشمیر کے مسئلہ میں اِن کر لیں۔ جنوبی ایشیاء میں امن کی شاہراہ پر آئیں۔ انسانیت کا قد اونچا ہو۔ امن کی قامت بلند ہو۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے کا یہی حاصل ہے۔عالمی امن... زندہ باد...!