قرآن پاک میں ''الفاتحہ‘‘ اور ''البقرہ‘‘ کے بعد تیسری سورت ''آلِ عمران‘‘ ہے‘ یعنی عمران کا خاندان۔ اللہ اللہ! انسانی تاریخ میں یہ ایسی مقدس اور پاکباز فیملی ہے کہ جسے یہودیوں میں بھی ایک پاکیزہ فیملی کا درجہ حاصل تھا‘ پھر مسیحی مذہب میں بھی اس فیملی کو پاکیزہ مانا گیا اور انسانیت کیلئے جو آخری کتاب نازل ہوئی۔ اس کتاب‘ یعنی قرآن پاک کی 114سورتیں ہیں ‘ان سورتوں میں واحد ایسی سورت ہے‘ جس کا نام ''آلِ عمران‘‘ یعنی خاندان ِعمران ہے۔ جی ہاں! اسلام میں بھی اس فیملی کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی پاکیزہ مقام عطا فرمایا۔ حضرت محمد کریمؐ کہ جن کے پاک اور مبارک دل پر سورت ''آلِ عمران‘‘ نازل ہوئی۔ آپ حضورؐ نے اس سورت کے بارے میں ارشاد فرمایا ''(اے مسلمانو!) دو نہایت روشن سورتیں ؛بقرہ اور آلِ عمران پڑھا کرو ‘ کیونکہ قیامت کے دن یہ اس طرح آئیں گی ‘جیسے دو بادل بھاگتے آئیں یا دو سائبان چلتے چلے آئیں یا پرندوں کی دو ڈاریں اڑتی آئیں‘ یہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی (اور تلاوت کرنے والوں کو حشر کے میدان کی سختیوں سے راحت اور پھر جنت میں لے جائیں گی)‘‘ (صحیح مسلم: 4993) ۔اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے ''آلِ عمران‘‘ کو ''الزَّھْرَاوِیّہ‘‘ کہا ہے ‘یعنی یہ جگمگانے والی سورت ہے۔ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی۔ دل کو سکون دینے والی اور نورانیت عطا فرمانے والی سورت ہے۔ امام مسلم مذکورہ نام اپنی شہرہ آفاق کتاب صحیح مسلم میں لائے ہیں۔
معروف مفسر اور مؤرخ علامہ طبری نے حضرت عمران کی اہلیہ محترمہ کا نام ''حنّا‘‘ ذکر فرمایا ہے۔ بائبل میں بھی یہی نام مذکور ہے۔ عبرانی اور عربی زبانوں میں حنّا (HANNAH) کا معنی انتہائی محبت کرنے والی خاتون ہے۔ دونوں میاں بیوی‘ یعنی حضرت عمران اور حضرت حنّا کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا اسلام جیسی انتہائی پاکباز اور عبادت گزار بیٹی عطا فرمائی‘ جس کا نام جناب عمران اور حنّا نے ''مریم‘‘ رکھا۔ حضرت مریم علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا جلیل القدر نبی بیٹا عطا فرمایا‘ جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ یوں یہ خاندان انتہائی پاکیزہ اور مقدس خاندان تھا۔ میں نے مذکورہ بالا جو حقائق بیان کیے۔ اچھے گمان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ محترم اکرام اللہ خان نیازی مرحوم اور محترمہ شوکت خانم مرحومہ نے مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام عمران رکھا ہوگا۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان جو اکثر اور آئے روز ریاست ِمدینہ کی بات کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنے ماں باپ کی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت محمد کریمؐ کی محبت میں اپنے بڑے بیٹے کا نام قاسم رکھا‘ کیونکہ ہمارے پیارے خاتم الانبیاؐ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا۔ عمران خان صاحب نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام سلیمان عیسیٰ خان رکھا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وزیراعظم عمران خان کو توفیق عطا فرمائیں کہ وہ حضورؐ کی محبت میں ایسا پاکستان بنائیں ‘جو آلِ عمران کے کردار کا آئینہ دار ہو۔
پہاڑوں‘ آبشاروں‘ چشموں اور بہتے جھرنوں سے بھلا کس کو محبت نہیں؟ مگر بعض لوگوں کو کچھ زیادہ ہی محبت ہوتی ہے۔ میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے۔ چند دن قبل ایبٹ آباد میں جمعہ کا خطبہ دینے کے بعد نتھیا گلی چلا آیا۔ نتھیا گلی کے نواحی گاؤں میں تین چار دن قیام کیا۔ بہتے جھرنے کی خوبصورت آواز کے ساتھ۔ کوکو نامی پرندے کی خوبصورت اور مترنم لے۔ انسانوں کو گھیرے میں لئے بادل۔ ان میں سے برستی بارش۔ ساتھ سورج کی کرنیں اور پھر دھنک کے خوبصورت رنگ۔ یہ ہر ایک کو پسند ہیں۔ وزیر اعظم کے بارے میں بتلایا گیا کہ نتھیا گلی ان کی پسندیدہ ہے۔ یہاں کے گورنر ہاؤس میں اکثر آ کر ٹھہرتے ہیں۔ اس علاقے کے حسن اور صفائی پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی وادی تو کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ وہاں کے لوگ وادی سے بڑھ کر خوبصورت ہیں اور تمام خوبصورتی سے کہیں بڑھ کر ایمان اور عقیدے کی خوبصورتی ہے۔ جموں اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ اسی خوبصورتی کے حوالے سے پاکستانی ہیں۔ پاکستانی پرچم اٹھا کر سید علی گیلانی کی قیادت میں نعرے لگاتے ہیں؛ ''ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘‘۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی دورے سے واپسی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''مجھے امریکہ سے واپسی پر یوں لگ رہا ہے‘ جیسے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں‘‘ اس میں کیا شک ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے کشمیر کے ورلڈ کپ کو جیتنے کا آغاز کیا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر ایسے چوکے اور چھکے مارے کہ ''کشمیر ورلڈ کپ‘‘ جیتنے کے امکانات روشن ہو چکے۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن کر ابھرا۔ انڈیا اٹوٹ انگ سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اگر بڑھتا تھا تو صرف شملہ معاہدے کی بات کرتا تھا کہ آپس میں بیٹھ کر بات کریں گے۔ آپس میں بیٹھنے کو وہ تیار نہ ہوتا تھا۔ نیت میں خرابی ہو تو بہانوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہی کچھ انڈیا کرتا چلا آ رہا ہے۔ شملہ معاہدے سے قبل یو این کی قراردادوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتا رہا اور شملہ معاہدے کے بعد شملہ کی رٹ لگا کر بھی یہی کچھ کرتا رہا۔ اس رٹ کو وزیر اعظم کے چھکے نے برصغیر کی گراؤنڈ سے باہر انٹرنیشنل برادری میں گیند کو اچھال دیا ہے۔یہ گیند مسئلہ کشمیر کی گیند ہے۔ چین کا ردعمل بھی اس پر آ چکا کہ چین نے ٹرمپ اور عمران کی مسئلہ کشمیر پر حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ عمران خان مجھے کہیں تو میں مسئلہ کشمیر کے حل میں معاونت کیلئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا: انڈیا کے وزیراعظم مسٹر نریندر مودی بھی اس مسئلہ پر مجھے کردار ادا کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ مذکورہ خبر کا آنا تھا کہ مودی حکومت بول اٹھی ؛ہم نے ٹرمپ سے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ اُدھر صدر ٹرمپ کے ترجمان بولے؛ ہمارے صدر ٹرمپ جھوٹ نہیں بولتے۔ ان کی بات درست ہے۔ ساتھ ہی انڈیا خاموش ہو گیا۔ یہ ایسی زبردست سفارتی کامیابی ہے کہ جس نے اہل ِکشمیر کو خصوصاً اور سارے پاکستان کو خوشیوں سے نہال کر دیا ہے۔ اللہ کے حضور میری دعا ہے وہ اہل جموں و کشمیر کی جلد آزادی عطا فرمائے۔ میری خواہش کہ شملہ معاہدہ ہم نے اس وقت کیا تھا جب ہم کمزور تھے۔ تب وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم شملہ تشریف لے گئے تھے۔ کمزوری کے باوجود وہ ایک مناسب اور بہتر معاہدہ کر کے آئے تھے۔ آج عمران خان ایک طاقتور وزیراعظم ہیں۔ وہ اپنی وزارت ِعظمیٰ کے ابتدائی دنوں میں انڈیا کے جارحانہ انداز کو نتھ ڈال کر واشنگٹن گئے۔ دو طیارے گرا کر اور پائلٹ ابھی نندن کو اخلاقی برتری کے ساتھ رہا کرنے کے بعد واشنگٹن گئے۔ وہاں سے اپنے بلّے کی ضرب سے کشمیری گیند کا چھکا مار چکے۔ اب‘ وہ شملہ جا کر مذاکرات کریں گے تو کشمیر کی آزادی کے مذاکرات کریں گے۔ بھٹو اور عمران کے درمیان نصف صدی کا فاصلہ ہے۔ یہ اب‘ وقت اک نیا موڑ مُڑ چکا۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس موڑ کو موڑنا اب کسی کے بس میں نہیں۔ عمران خان کے ساتھ جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی شاندار علامت ہے۔ دعا ہے کہ سرینگر میں عمران خان اور پاک آرمی کے چیف کو 21توپوں کی سلامی ملے۔ قارئین کرام! میں نے اپنے کالم کے آغاز میں ''آلِ عمران‘‘ پر علمی اور تحقیقی جملے اور اقتباسات اس لئے لکھے کہ واشنگٹن میں عمران خان کے کشمیر پلان کو جو پذیرائی ملی ہے‘ اس میں مذکورہ تحریر مزید تقویت کا باعث بن جائے۔اللہ کرے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کا کشمیر پلان کامیاب وکامران ہو!(آمین)