"AHC" (space) message & send to 7575

’’آخری قطرہ‘‘اور’’کوئی بھی حد‘‘ پر تجاویز

کشمیر کی تازہ صورتحال پر پاکستان کے دو بڑوں‘ وزیراعظم اور آرمی چیف نے اپنے اپنے فورمز پر جو بیانات اور پیغامات دیئے‘ ان پر ترتیب کے ساتھ تجاویز پیش کرنے جا رہا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا: بھارت سے جنگ کا خطرہ ہے۔ خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب وہ مذکورہ بیان دے رہے تھے تو مطلب واضح تھا کہ مودی نے کشمیر کی آئینی پوزیشن کو جو تبدیل کیا ہے ‘اس پر جنگ ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے جب یہ کہا کہ مودی نے شہ رگ پر ہاتھ ڈالا ہے‘ اس کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے تو وزیراعظم عمران خان نے جواباً میاں شہباز سے پوچھا کہ شہباز شریف مجھے تجویز دیں‘ میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کروں؟کیا حملہ کر دیا جائے ؟میاں شہباز شریف نے جواب دیتے ہوئے کہا: میں نے حملہ کرنے کا نہیںکہا؟ کشمیریوں کے سر پر دستِ شفقت رکھیں۔ 
قارئین کرام! قائدِ ایوان عمران خان اور قائد حزب ِاختلاف شہباز شریف کے بیانات کو ملاحظہ کریں۔ الفاظ اور جملے مختلف ہیں۔ مطلب ایک ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی جدوجہد اس قدر تیزکر دیں کہ خون گرم ہو کر رگوں میں اس قدر دوڑے‘ پسینہ بن بن کر جسم پر یوں بہے کہ خون کے آخری قطرے کی حدت بھی باقی رہے تو اہل کشمیر کیلئے جدوجہد جاری رہے۔ اب‘ تجاویز حاضرِ خدمت ہیں۔
(1) کشمیر کمیٹی کی جگہ پر نائب وزارت خارجہ کا ایک ڈیسک بنایا جائے ۔یہ ڈیسک مشاورت اور معاونت کی حد تک وزارت ِخارجہ سے متعلق ہو ‘جبکہ اپنی کارکردگی میں آزاد ہو اور براہِ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہو۔
(2) اسلام آباد میں اس کا الگ سیکریٹریٹ ہو ‘جہاں عالمی سطح کا دفتری نظام ہو‘ جس کے کئی ذیلی شعبہ جات ہوں۔
(3) نائب وزیرخارجہ ایسی شخصیت کو بنایا جائے‘ جس کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہو اور وہ مہاجرت کی زندگی آزاد کشمیر یا اسلام آباد میں آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں گزار رہا ہو۔
(4) مذکورہ ادارے کی جانب سے ''کشمیر چینل‘‘ اور ''روزنامہ کشمیر‘‘ کا اجرا کیا جائے۔ چینل 24گھنٹے چلے‘ اس میں مقبوضہ وادی‘ جموں اور لدّاخ کی خبریں‘ وہاں 9لاکھ انڈین فوج کے مظالم‘ خواتین کی بے حرمتی‘ گمشدہ کشمیری نوجوان‘ بزرگ اور لڑکے جو مار دیئے گئے اور ان کے لواحقین روتے پھر رہے ہیں‘ ان کی تفصیلی داستانیں سامنے لائی جائیں۔ ہزاروں شہدا کی داستانیں اور ان کے قبرستان جہاں ہر قبر پر پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں نیز پچھلے 70سال سے جاری مظالم کی داستانیں ٹی وی‘ اخبار اور سوشل میڈیا پر بیان کی جائیں۔
(5) آزاد کشمیر‘ گلگت اور بلتستان میں لوگ کس طرح سکون اور امن سے زندگی گزار رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مظالم کی چکی میں پسے ہندوستانی مقبوضہ علاقوں کے کشمیری بھی آزادی کی زندگی گزاریں۔ یہ موازنے دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں اور کشمیریوں کی آرا اور چاہت کو دنیا کی مختلف زبانوں‘ بطور خاص انگریزی‘ عربی‘ روسی‘ چینی‘ جاپانی‘ کورین‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ اطالوی اور ہسپانوی زبانوں میں پیش کی جائیں۔ ہندی اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں بھی انڈیا کا اصلی چہرہ مذکورہ زبانوں میں پیش کیا جائے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ہماری وزارت ِخارجہ جہاں سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت کا اعادہ کرتی رہتی ہے‘ وہاں صحافتی کے لفظ کا اضافہ بھی ہو تو کر لیا جائے‘ نہ بھی کیا جائے ‘تو عملاً ثابت کر دیا جائے۔
(6) کشمیر پر کتابیں‘ سی ڈیز اور ڈاکومینٹریز بنائی جائیں۔ دنیا بھر میں کشمیر پر نمائشی تقریبات منعقد کی جائیں۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری اور پاکستانی بستے ہیں‘ وہاں وہاں کشمیر فورمز قائم کر دیئے جائیں ‘کشمیر فورم کے عہدیدار اپنے رہائشی ملک میں اہل کشمیر پر ہونے والے مظالم سے وہاں کے حکمرانوں اور عوام کو آگاہ کریں۔(7) پاکستان سے دو‘ دو‘ تین تین اور ایک فرد پر مشتمل وفود پوری دنیا کے ممالک میں جا کر کشمیر کا مقدمہ پیش کریں۔ ان لوگوں میں پاکستان کے کشمیری مہاجرین بھی شامل ہوں۔ ان پاکستانیوں کو بھی شامل کیا جائے‘ جن کا کشمیر پر کام ہے۔(8) مذکورہ کام پاکستان اور دنیا بھر میں جنگی بنیادوں پر کیے جائیں۔ کشمیر کا مقدمہ اس انداز سے پیش کیا جائے کہ دنیا میں کشمیر کشمیر ہو جائے۔
(9) بی جے پی کی حکمرانی میں انڈیا کے اندر‘ مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ سکھوں جینیوں اور دلتوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں اور جس طرح وہاں نسل پرستی کی بنیاد پر‘ ذاتوں کی اساس پر انسانیت کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی میں دھکیل کر ظلم کا شکار کیا جا رہا ہے‘ اس سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ آر ایس ایس کا فلسفہ‘ وہاں کی دہشت گرد اور متعصب تنظیموں کے قتل عام کے واقعات۔ انڈیا میں فسادات کے نام پر مسلمانوں‘ عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کی عبادت گاہوں کی مسماری اور زندہ جلائے جانے کے واقعات وغیرہ بتا کر دنیا کو آگاہ کیا جائے کہ یہ ہے وہ بی جے پی ‘جو آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے اور اس کا فلسفہ اپنے علاوہ سب انسانوں کی انسانیت کشی ہے۔
(10) حکومت ِ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم نے دنیا کو انڈیا کی حقیقتاً دہشت گرد‘ ہندتوا کی علمبردار تنظیموں کا اصلی چہرہ نہیں دکھایا۔ اس کے برعکس پاکستان میں جو کشمیر کا نام لینے والی پرامن تنظیمیں ہیں‘ ہم نے ان کو بھی مطعون کیا ہے۔ اس سے دشمن تو مطمئن نہیں ہوا‘ الٹا ہم نے کمزوری کا اظہار کر دیا کہ ہم تمہارے دباؤ پر اپنے اچھے اور پرامن لوگوں کو بھی موردالزام ٹھہراسکتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ ہمیں پرُامن اور قابل لوگوں کو مذکورہ جدوجہد کا حصہ بنانا چاہیے‘ اس سے کشمیر کاز کو بھی فائدہ ہوگا اور حق و قول سدید اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی ملے گی۔ 
یہ ہیں کرنے کے کام‘ ہمیں یہ کرنے چاہئیں۔ جنگ تو آخری چیز ہے۔ یقین جانیے! جنگ کی باتوں میں اب وہ اثر نہیں ‘جو اس وقت ہوگا‘ جب مذکورہ کام کر لیے جائیں گے۔ اہل پاکستان تو ساتھ ہیں ہی‘ ہمیں پوری دنیا کو زیادہ سے زیادہ کشمیر کی پشت پر کھڑا کرنا ہے ‘پھر ہم کہیں گے کہ انڈیا باز نہیں آ رہا‘ لہٰذا جنگ ہوئی تو بقول شیخ رشید احمد: یہ آخری جنگ ہو سکتی ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے جو آخری حد کا کہا وہ ایک زبردست پیغام ہے۔ پاک فوج نے پاکستان کے اندر انڈیا کی بپا کی ہوئی دہشت گردی کی جنگ کو ناکام کیا‘ امن کو لوٹایا‘ پاک فوج چند ماہ قبل بھی انڈیا اور پوری دنیا کو اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ تادم تحریر (7اگست) سوائے چین کے ہمیں کسی کی حمایت نہیں مل سکی۔ بیانات کی حد تک مضبوط بیان چین کا تھا۔ اس کے بعد ترکی کا۔ او آئی سی کا روایتی اور مدھم سا بیان بھی۔ باقی دنیا کہاں ہے؟ پارلیمنٹ میں یکجہتی تھی ‘مگر کہیں کہیں رخنہ بھی تھا۔ محترم عمران خان نے اپنا پورا نام جب میاں شہباز شریف کو بتایا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ میاں شہباز صاحب عمران خان صاحب کو نیازی ‘نیازی کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بات کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔71ء کی بات کر کے‘ آپس میں طعن بازی کر کے کیا ہم نے انڈیا کو خوش نہیں کیا؟ ہماری فوج وہاں کتنی تھی؟ بھٹو صاحب 90ہزار چھڑوا کر لائے تھے یا فوجی 24ہزار سے بھی شاید کم تھے‘ اس پر تحقیق آفریں کالم پھر لکھوں گا۔ فی الحال اسی قدر ہی کہ الحمد للہ! آج ہماری فوج کے سالار جب یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی حد تک جائیں گے تو اس حد کا انڈیا کو بخوبی پتا ہے۔یہ حد جو ہماری پاک فوج کی صلاحیت ہے‘ ہمارے لئے فخر و ناز‘ خوشی و حسرت اور اطمینان کا باعث ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں